(نوٹ:۔ زیرِ نظر تحریر سکندر پیرداد خان کے انگریزی زبان میں لکھے گئے مضمون کا اُردو ترجمہ ہے۔ خامیوں پر مصنف اور قاری دونوں سے پیشگی معذرت خواہ ہوں۔ مصنف سے بہ طور خاص…… کہ شاید الفاظ کا ترجمہ ممکن ہو، مگر جذبات کا احاطہ ناممکن ہی ہوتا ہے، راقم)
یہ میری قسمت میں تھا کہ مَیں جنت نظیر وادئی سوات میں جنم لوں۔ لگ بھگ مغرب کی اذان کا وقت تھا، جب مَیں نے اس جہانِ آب و گل میں آنکھ کھولی اور 17 نومبر 2022ء نے (جس وقت یہ سطور لکھے جا رہے ہیں) مینگورہ میں ہمارے باوقار آشیانے (ہمارے گھر) سے میرے سفر پر 60 کا ہندسہ ثبت کردیا۔
میری پیدایش ایک ایسے دور میں ہوئی، جب کوئی اجنبیت نہیں تھی، کوئی فاصلے نہیں تھے، کوئی دیوار نہیں تھی…… محبت، احترام، تعظیم اور تکریم کے علاوہ!
تب شاید دولت، جائیداد، کسی میں کسی تفریق کی وجہ نہیں تھی۔ تب بزرگ ہر بچے کے لیے یک ساں دعا مانگتے اور محبت کا جذبہ رکھتے تھے ۔ تب سارے کھیل اور کھلونے سانجھے تھے۔ تب خوشی اور غم یکساں بانٹے جاتے تھے اور مساوی گزارے جاتے تھے۔ تب پانی کے جھرنے، ندیوں کا بہاو اور دریائے سوات کی موجیں ہیرے موتیوں کی طرح صاف شفاف اور اُجلے تھے…… جہاں شاعر کی نظمیں، ادیب کی تحاریر اور واعظ کی تقاریر محبت، آشتی اور مساوات کا موضوع رکھتی تھیں۔
یہ زبردست حقیقت ہے کہ میرا لڑکپن اور بچپن مینگورہ شہر میں انتہائی دل فریب، حسین اور خوب صورت تھا۔ مَیں نہیں جانتا کہ آج کل کے بچے مینگورہ میں کیسا محسوس کرتے ہیں؟ ہیروں جیسے بزرگ موتیوں جیسی باتیں کرتے تھے، جن میں حکمت اور دانائی کی چمک ہوتی تھی۔ ایسے ماحول میں بچوں اور جوانوں کی تربیت ہوتی تھی اور احترام، عقیدت، حکمت اور دانائی ورثے میں ملتی تھی۔ جہاں اپنے لقمے تک کو بانٹنے کا درس ملتا تھا۔ کم زوروں اور بے کسوں کی مدد فرضِ اولین سمجھا جاتا تھا۔ جہاں کوئی گروہی، نسلی امتیاز گھس نہیں سکتا تھا۔ جہاں نفرت کے لیے زمین تنگ تھی۔ جہاں فضا قابلِ فخر حد سے بھی زیادہ صاف تھی۔ ماحول سے دوستی روایات میں سے تھی۔ پہاڑوں پر درختوں اور سبزے کے پردے تھے۔ انصاف کا بول بالا تھا اور یہ گلی سے ریاست تک ایک ہی معیار میں میسر تھا۔ معاشرتی انصاف نے ناانصافی اور ظلم کو جگہ نہ لینے دی اور امن و امان کے متضاد بھی کوئی حقیقت ہے، اس کا کسی کو تجربہ ہی نہیں تھا۔
مجھے ابتدائی نوعمری میں ایک بورڈنگ اسکول بھیج دیا گیا تھا۔ یہ میرے لیے تعلیمی دورکا ایک معصوم سفر تھا۔ میرے والد صاحب تعلیم کے معاملے میں بڑے حساس تھے۔ اپنے شہر مینگورہ سے کئی میل دور رہنا پڑا۔ مینگورہ، جہاں مَیں نہ صرف انتہائی شفیق باپ اور مہربان ماں کو چھوڑ آیا تھا، بلکہ بہن بھائی، چچا خالہ، دادا دادی اور میرے بچپن کے دوست سب کو چھوڑ آیا تھا۔ اُن کی آوازیں، مہک اور خوش بو، ساتھ ساتھ گلیوں اور مین بازار میں اَن گنت چڑیوں کا دِن کے اختتام پر اجتماع…… یہ سب ہر دم چشمِ تصور میں رہتا تھا۔ مَیں خود اپنا حوصلہ اور اُمید تھا کہ سکول کا یہ سفر ایک دن ختم ہو جائے گا اور مَیں اُن لوگوں کے پاس واپس آؤں گا، جن سے مَیں بہت پیار کرتا ہوں۔ مَیں اپنے مینگورہ شہر میں واپس جانے کی خواہش کو کبھی دبا نہ سکا۔
اسی اثنا میں تیزی سے آدھی صدی گزر گئی، جو مجھے دنیا میں مختلف مقامات پر فرائض کی انجام دہی لے لے کر پہنچاتی رہی۔ مَیں خوش قسمت تھا کہ مَیں مینگورہ میں پیدا ہوا، مگر افسوس یہ میری تقدیر نہ تھی کہ مَیں اپنے مینگورہ واپس جا سکوں اور نہ وہی مینگورہ میرے پاس لوٹ سکے۔ دہائیوں بعد آج کے دن ایک لٹے ہوئے خزانے کے مالک کی طرح سوچتا ہوں کہ وہ ہیرے جیسے لوگ جو موتیوں جیسی باتیں کرتے تھے، ایک ایک کرکے کیسے بچھڑ گئے۔
ہیروں کی بات تو چھوڑیں، جو زمرد میرے بچپن کے ساتھی اب بھی ان معصوم شبہات میں میرے سامنے رہتے ہیں، جان لیوا بیماریوں میں زندگی ہار گئے یا بستر پکڑلیے۔ کیا قیامت آئی کہ حرص و ہوس اور لالچ نے میرے شہر (مینگورہ) پر قبضہ کرلیا۔ مال و دولت کی عزت بڑھ گئی اور پیار، محبت، احترام، اُخوت کے جذبے دم توڑتے چلے گئے۔ لوگوں نے اول الذکر کو اپنانے کو ترجیح دی۔
آپ آج مینگورہ کے ماحول کو محسوس کرتے ہوں گے، مَیں ہر لمحہ اس میں مرتا ہوں۔ میرے قریبی خاندان کی چار پشتیں شہر چھوڑ کر پہاڑ کی چوٹی پر جا بسیں، جہاں گرم، سرد، خشک سالی اور ساون اُن کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ وہ مہربان روحیں اپنی قبروں میں ہیں، جہاں سے دریائے سوات کا بدلتا ہوا رنگ، خشک ہوتے چشمے اور خاموش ہوتے ہوئے جھرنوں کی آوازیں شاید اُن کے لیے کوئی معنی نہیں رکھتیں۔ جہاں سے دریائے سوات کا نظارہ کرنا ممکن ہے اور اُن تجاوزات کا بھی جو قبرستانوں تک میں گھس کر آنکھوں کو تو کیا، دل کو بھی چبھتے ہیں…… مگر افسوس یہ ہے کہ جو زندہ ہیں، اُن کو بھی فرق نہیں پڑ رہا۔
اب شہر میں زندوں اور مردوں دونوں کے لیے جگہ کم پڑتی جا رہی ہے۔ تجاوزات تاریخ، تہذیب اور ثقافت کو تو کھا ہی گئے، مگر قبرستان بھی محفوظ نہیں رہے۔ مردے دہائیوں بعد قبروں سے نکال کر بے آبرو کیے جا رہے ہیں۔ یہ وہی شہر ہے، جہاں فضا قابلِ فخر حد تک صاف تھی، مگر اَب ناقابلِ برداشت حد تک تعفن زدہ ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ مَیں نے اپنے خیالوں میں اپنا مینگورہ تخلیق کرلیا اور یہ ہر لمحے کی مایوسی تھی، جو میرے اندر ماضی اور حال کے تقابل کے نتیجے میں ایک احتجاج اور بے بسی کا لاوا پکا گئی۔ اگر دہائیوں کے اس سفر کو قبول کیا جاسکتا، تو میرے اندر سے سخت انکار میں مزاحمت ہوتی۔ مَیں خود سے جنگ میں ہارتا رہا۔ ایک مینگورہ جو مَیں نے سوچا…… اَب میں اُس مینگورہ میں خوش ہوں۔ اُن ہیروں کے ساتھ جن کے منھ سے موتی جڑتے ہیں اور وہ زمرد (دوست) جو میرے ساتھ والہانہ کھیلتے ہیں۔ چشمِ تصور میں، مَیں اُن ہیروں کے ساتھ بات کرتا ہوں۔ باتیں، بحث میں بدل جاتی ہیں اور موضوعات نازک بھی رہتے ہیں، تو عام بھی…… ماضی، حال اور مستقبل بھی، اور ہر نقطۂ نظر جس کو سوچا جاسکتا ہے اور بات ہوسکتی ہے۔ ایک اعتدال پسند اور برداشت کاماحول مجھے ہر وقت میسر رہتا ہے۔
یہ سوچنا کہ وہ مینگورہ صرف میری سوچ ہے، بہت ہی تکلیف دِہ احساس ہوتا ہے، مگر مَیں اُس مینگورہ میں رہنا پسند کرتا ہوں اور اس کے بعد اس کے نہ ہونے کے تکلیف دہ احساس کا عادی بن گیا ہوں۔
کیسے ایک پہاڑی ریاست اچانک ایک کارپوریٹ دنیا بن گئی، کیسے باوقار اور محنتی ریاستی لوگ سمجھوتے کرنے لگے ہر ممکن چیز پر، کیسے محبت کرنے والے لوگ لڑنے والے گروہوں اور پہچان میں بٹ گئے؟
پرانے وقتوں میں سوات ایک الگ دنیا تھی، خوب صورت دنیا، ایک چھوٹی سی پیاری سے دنیا۔ وہ لوگ جو سوات کی حدود سے باہر تھے، اجنبی یا شاید غیر ملکی سمجھے جاتے تھے…… نیچے میدانوں میں رہنے والے لوگ دور، غیر مانوس اور غیر ملکی……!
سوات کے اپنے لوگوں نے شاہ راہِ ریشم پر سفر کرکے دنیا دیکھی۔ کچھ نیچے پانچ دریاؤں کے ساتھ سفر کرتے رہے۔ کچھ نے زندگی میں توفیق حاصل کی اور حج کی سعادت حاصل کی۔ ایک طویل اور خطرناک جان لیوا کاوش، جس سے حج کی سعادت حاصل ہوپاتی تھی۔ اس نے ذہن کھولے اور نئے اُفق تلاش کرنے کی امنگوں کو جنم دیا۔کئی مقامات پر سوات کے لوگ پہنچے اور تجارت کی۔ جو واپس آئے اپنے ساتھ داستانیں لائے، جن کو حیرت اور شوق سے دیدہ وروں نے سنا۔ گلوکاروں نے فوک گانے ترتیب دیے اور کچھ نے سنی ہوئی داستانیں اپنے رنگ کی کہانیوں میں رنگ دیں…… اور وہ جو جاکر کبھی نہ لوٹ پائے، کوئی داستاں نہ لاسکے، وہ گم ہوئے۔ کسی شکستہ کہانی نے وقتی طور پر تو یاد رکھا، مگر وقت نے ٹھہرنے نہ دیا۔ یہ کئی چاندوں کی سرزمین، یہ قیس اور یوسف کی اولاد، نروان کے حصول کے لیے مراقبے کرنے آنے والے راہبوں کو دیکھ کر مسکرا دینے والے یہ پہاڑ اور وادیاں، تبلیغ، امن کی دعوت اور علم کے حصول کے لیے آنے والے راہب، جہاں سکندرِ اعظم دنیا کو مسخر کرنے چلتا ہوا رُکا اور مانا کہ سوات ایک جنت ہے، جہاں ہیروڈوٹس نے تاریخ رقم کی اور جہاں یونانیوں نے اپنا پہلا ہندوستان کا سیترب گورنر مقرر کیا، جہاں ایلم پہاڑ پر ہندو مت کو مقدس مقام تعمیر کرنا پڑا ، جہاں کنگر گھر نے اپنی چاندی کی رونق چمکائی اور پامیروں نے اسے فرق کے ساتھ دیکھا۔
اور اب، افسوس……! پیر بابا کی زیارت سے واپس آنے والے پُرجوش مسافرو اپنی ٹوپیوں میں افسانوی نمیر پھول نہیں سجاپائیں گے۔ اب گلِ نرگس (میری پیاری ماں کا پسندیدہ پھول، اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے، آمین)کی خوش بُو چھوٹ جانے کا غم ہے۔ ’’غانٹول‘‘ (گل لالہ) اب دیکھ کر سہم جاتے ہیں اور شرم کے مارے کھلتے ہی نہیں۔ ’’پائن‘‘ (چیڑ) کے درختوں نے سرگوشی چھوڑ دی ہے اور ان کی دھنیں ختم ہوگئی ہیں۔ مغرور چنار (میرے پیارے والد کا پسندیدہ درخت، اللہ ان کی روح کو شادمانی دے، آمین!) کو بخشا نہیں جا رہا۔ مسافر اب اس کے سائے سے لطف اندوز ہونے کے لیے ترستے ہیں۔ اَب کوئی چنار باقی نہیں بچا ہے، اور کوئی سایہ نہیں۔ مرچان، سرسبز میدانوں کی شان کھو چکے ہیں اور آتش دانوں میں جل چکے ہیں۔ روایتی فن، موسیقی اور فنِ تعمیر کو بے ہنگم تعمیرات نگل گئیں۔ اب شور نے سردیوں کی شام کی بانسری کی دُھن کی جگہ لے لی ہے۔ خوب صورت دیواروں کی شکل جدید دور کے مصنوعی رنگوں نے بد صورت بنا دی ہے۔ ’’سپیرداد‘‘ (سپیدہ) جو قطار در قطار سڑکوں کی خوب صورتی تھے، اب نہیں رہے۔ اب یہ سب کچھ جنت نظیر سوات میں دیکھنے کو نہیں ملتا۔
ایک تہذیب اور ثقافت جس کو تعمیر ہونے میں صدیاں لگیں، 50 سال سے بھی کم عرصے میں معدوم ہوگئی۔ میرے دل اور ذہن میں مینگورہ کا تصور بہت خوب صورت ہے، اُس حقیقی مینگورہ سے جو اَب میرے سامنے ہے۔
اکثر چند دوست یاد دلاتے کہ زمانہ بدل گیا، لوگ بدل گئے، کچھ بزرگ چلے گئے اور کچھ کوچ کرنے کو ہیں۔ مجھے مشورہ دیا جاتا ہے کہ اَب آج کے ساتھ ہم آہنگ ہونا چاہیے۔ حقیقت تسلیم کرلینی چاہیے۔ مینگورہ اَب بہت بہتر شہر ہے۔ لوگ چاہتے ہیں کہ مَیں قبول کروں، اس شہر سے پیار کروں اور دوبارہ تیار کیا جاؤں……!
مگر میرے پاس اس طرح کی باتوں کا ایک سادہ سا جواب ہوتا ہے: ’’اس میں سے جو تھوڑا رہ جائے گا، مَیں اُس کی قیمت لگاؤں گا، اور ایک بے بس مبصر کی طرح اس لوٹ مار دیکھتا رہوں گا ۔‘‘
مَیں اب پہلے سے کہیں زیادہ اس بات پر قائل ہوں کہ مَیں اپنے دوستوں کا مقروض ہوں، جنھوں نے میری جسمانی عدم موجودگی کے باوجود اپنی دوستی کو میرے ساتھ قائم رکھا۔ خط اور روح، جو لوگ جلدی چلے گئے، انھیں یہ بتانے کا موقع نہیں ملا کہ وہ کیا محسوس کرتے ہیں اور وہ جو باقی رہ جاتے ہیں، اُن کے پاس کبھی اپنا جائزہ لینے کا وقت نہیں ہوتا۔
مَیں یہ تحریر اُن دوستوں کے لیے وقف کرتا ہوں جو مجھے سمجھتے تھے۔ جو لوگ جلدی چلے گئے، اُنھیں یہ بتانے کا موقع نہیں ملا کہ وہ کیا محسوس کرتے ہیں اور وہ جو باقی رہ جاتے ہیں ان کے پاس کبھی بھی خود کا جائزہ لینے کا وقت نہیں ہوتا۔ یہ تحریر اُن دوستوں کے نام، جو مجھے سمجھتے تھے، محسوس کرتے تھے اور جو میری عدم موجودگی میں بھی میرے ساتھ رابطے میں رہے…… باتوں، یادوں اور دعاؤں کی صورت۔ مینگورہ سے میرا رشتہ اٹوٹ ہے اور یہاں کے لوگوں میں میرا دل دھڑکتا ہے۔ باوجود اس کے کہ مَیں مینگورہ میں موجود نہ رہا، مَیں نے مینگورہ کو اپنے سے دور کبھی نہیں پایا۔ خوب صورت زندگی کا تجربہ قائم رہے۔ موجودہ اور نئی نسل کے لیے نیک خواہشات کے ساتھ۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
