کوہستانی زبان کا معمہ

Blogger Zubair Torwali

کوہستانی کا مطلب پہاڑی ہے…… یعنی پہاڑی لوگ یا اُن کا طرزِ زندگی۔ یہ کسی زبان کا نام نہیں۔ یہ کوئی کلچرل یا ایتھنک شناخت (Ethnic Identity) بھی ظاہر نہیں کرتا۔ یہ ایک عمومی جغرافیائی نسبت ہے، جسے اُن لوگوں کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، جو پہاڑی علاقو ں میں رہتے ہوں، چاہے تھر صحرا کے پہاڑی علاقے کے کوہستانی، جیسے کھیل داس کوہستانی ہوں یا انڈس کوہستان کے لوگ، جیسے افضل کوہستانی۔ کھیل داس کوہستانی اور افضل کوہستانی میں زبان کی، شناخت کی یا ثقافت کی کوئی مماثلت نہیں۔ صرف ان کا جغرافیہ آس پاس کے دوسروں کی نظروں میں ان کو کوہستانی بناتا ہے۔
کوہستانی لفظ فارسی کا ہے اور پہاڑوں میں بسنے والوں کو اس خطے میں مغل دور سے وابستہ یا اس سے متاثر پڑھے لکھے لوگوں اور حملہ آوروں نے دیا۔ شمالی پاکستان میں اس سے پہلے ان مقامی/ دیسی باشدوں کو کافر کہا گیا۔ بعد میں، 16ویں صدی اور اس کے بعد، پٹھان حملہ آوروں نے ان لوگوں کو کوہستانی کہا، جو یہاں کے اصل باشندے تھے اور ان کے موجودہ کالاش قبیلے کی طرح اپنے آبائی مذاہب تھے۔ جب ان کو مسلمان کیا گیا، تو ان حملہ آوروں نے ان کو خود سے الگ رکھنے کے لیے یہ اصطلاح استعمال کی۔ ایسا مشرقی افغانستان میں بھی ہوا اور ہمارے یہاں شمالی پاکستا ن کے جنوب میں بھی ہوا۔
ان مقامی/ آبائی لوگوں کی تاریخ، ثقافت اور ماضی جب یوں چھین لیا گیا، تو ابتدائی ایک دو نسلوں کے بعد یہ اپنا ماضی، اپنی زبان اور اپنی ثقافت کے ساتھ اپنی اصل شناخت بھی بھول گئی اور انھوں نے ان نو آبادیاتی القابات کو اپنایا۔ شمالی پاکستان کے ان پہاڑی علاقوں میں ایسا زیادہ موثر انداز سے ہوا کہ جہاں کوئی ریاست نہیں تھی اور مقامی لوگوں کو ان آبادکاروں نے آسانی سے زیرِ تسلط لایا۔ گلگت، ہنزہ اور چترال بچ گئے کہ جہاں ایک طرف ریاستیں تھیں، جب کہ دوسری طرف زیادہ دشوار گزار ہونے اور برطانیہ اور روس کے بیچ صدیو ں پرانی سرد جنگ کی وجہ سے ان علاقوں کی جغرافیائی اہمیت تھی۔ یہ علاقے برطانیہ کے لیے اہمیت رکھتے تھے۔ اس لیے انھوں نے یہاں ان حملہ آوروں کو پسپا کردیا، یا ان کو آگے بڑھنے سے منع کیا۔ یوں زیادہ بلند و بالا پہاڑی ہونے کے باوجود ان علاقوں، گلگت اور چترال، کو کوہستان یا کوہستانی نہیں کہا گیا۔
اس کے برعکس شمالی پاکستان کے جنوبی علاقوں یعنی موجودہ ہزارہ کوہستان، بالائی سوات اور بالائی دیر کے علاقوں کو کوہستان کہا گیا اور لوگوں اور زبانوں کو کوہستانی نام دیا گیا۔
ان مقامی لوگوں کی نسلوں نے اس لفظ کو اپنالیا۔ ان میں سے کئی لوگ نہ صرف اس پر اترانے لگے، بل کہ علامہ اقبال کے اشعار جیسے
فطرت کے مقاصد کی کرتا ہے نگہبانی
یا بندۂ صحرائی یا مردِ کہستانی
کو خود سے منسوب کرکے یہ زیرِ تسلط لوگ خود کو آزاد اور خود مختار سمجھنے لگے۔ یوں ان کو ایک نرگسی فریب سا ہوگیا۔ یہ اشعار اس فطری، دوسرے الفاظ میں خانہ بدوش زندگی، سے متعلق ہیں، جن کا’’ژال پال روسو‘‘ بھی دل دادہ تھا اور جو تہذیب کی پیدا کردہ تفاوتوں اور مقابلوں کے بغیر یک ساں فطری زندگی ہوتی تھی۔
چوں کہ ہماری ریاست اور حکومت خود اپنی کوئی تحقیق اس خطے کے حوالے سے نہیں رکھتی اور نہ سماجی سروے اور جائزوں کے لیے کوئی مناسب طریقہ کار ہی اپناتی ہے، اس لیے جب 2011ء میں خیبر پختون خوا حکومت نے ایک نصابی بِل کے ذریعے پہلی بار ان چار زبانوں پشتو، ہندکو، سرائیکی اور کھوار کے ساتھ پانچویں زبان کوہستانی کے نام سے ڈالی، تو ہزارہ کوہستان/ انڈس کوہستان کے موجودہ تین اضلاع لوئیر کوہستان، اپر کوہستان اور کوہلئی پالس کوہستان، میں دریائے سندھ کے آر پار بولنے والی دو مختلف زبانوں ’’شینا‘‘ اور ’’مایو‘‘ یا ’’شینا‘‘ کوہستانی اور انڈس کوہستانی، بولنے والوں نے اپنی اپنی زبانوں کے لیے کوہستانی نام پر اصرار کیا۔ اسی وجہ سے یہ تنازع کھڑا ہوا اور نتیجتاً نصاب میں شامل کی گئی اس پانچویں زبان کوہستانی کو نصاب میں شامل کرنے کے بعد اس پر سرکاری سطح پر کوئی کام نہیں ہوسکا۔ ایسا اس مبہم نام کی وجہ سے ہوا۔
جب سنہ 2023ء کی ڈیجیٹل مردم شماری شروع ہوئی، تو پاکستان میں مادری زبانوں کے خانے میں کوہستانی نام سمیت 14 زبانوں کو ڈالا گیا۔ اس مبہم اصطلاح کی وجہ سے اس مردم شماری میں شمار کیے گئے 9 لاکھ سے زیادہ لوگوں کی مادری زبان کو کوہستانی لکھا گیا، جس سے یہ معلوم کرنا مزید مشکل ہوگیا کہ کوہستانی اصل میں کون سی زبان ہے۔ آیا یہ انڈس کوہستان میں بولی جانے والی ’’شینا‘‘ زبان کے لہجے ’’شینا کوہستانی‘‘ ہے، یا اس سے مغربی کوہستان میں بولی جانے والی ’’مایو زبان‘‘ جس کو ’’انڈس کوہستانی‘‘ کہا جاتا ہے، مراد ہے۔
اصل اعداد کی رو سے شینا کے اس لہجے شینا کوہستانی کو کوئی ساڑھے چار لاکھ سے زیادہ لوگ بولتے ہیں، جب کہ انڈس کوہستانی کو کوئی تین لاکھ کے قریب لوگ بولتے ہیں۔ دونوں زبانیں ایک دوسرے سے مختلف ہیں، مگر ان کے بولنے والوں کی ایک بڑی تعداد ان زبانوں او ر خود کو کوہستانی کہنے پر مصر ہے۔
اسی طرح کمراٹ وادی کے کئی گاؤری لوگ بھی اپنی زبان اور خود کو کوہستانی کہتے ہیں۔ بالائی سوات کے کئی توروالی بولنے والے بھی اپنی زبان توروالی کو اور خود کو کوہستانی کہتے ہیں، مگر 2023ء کی مردم شماری میں یہاں کے کم لوگوں نے اپنی زبان کو کوہستا نی لکھا ہے، جبکہ اکثریت نے اپنی زبان کو دیگر میں ڈالا ہے۔ بالائی سوات کی پوری تحصیلِ بحرین میں 141,000 سے زیادہ لوگوں نے اپنی زبان کو ’’دیگر‘‘ کے خانے میں ڈالا ہے اور لگ بھگ 30,000 لوگوں نے اپنی زبان کو اس مردم شماری کے مطابق کوہستانی کہا ہے اور ان میں توروالی، گاؤری اور گوجر شامل ہیں۔
توروالی زبان بولنے والوں کی کُل تعداد 1 لاکھ 50 ہزار میں سے اب بھی اس تحصیل میں مقیم توروالیوں کی تعداد 100,000 سے زیادہ ہے۔ اسی طرح یہا ں گاؤریوں کی تعداد 60,000 سے زیادہ بنتی ہے، جب کہ یہاں 40,000 کے قریب گوجر آبادی بھی آباد ہے۔
2023ء کی مردم شماری میں تحصیلِ بحرین کے کئی گوجروں، توروالیوں اور گاؤریوں کی مادری زبان کو ’’پشتو‘‘ لکھا گیا ہے۔ کیو ں کہ اس تحصیل میں 2017ء کی مردم شماری کے مطابق پشتو 60 ہزار کے قریب لوگوں کی زبان تھی، جب کہ 2023ء میں اس تعداد کو 96,000 سے زیادہ دِکھایا گیا ہے۔ واضح ہو کہ 2017ء سے 2023ء تک اس تحصیل کی آبادی میں صرف 20 ہزار کے قریب اضافہ ہوا ہے۔
توروالی، گاؤری اور گوجری زبانوں کے لیے اس مردم شماری میں کوئی خانہ موجود نہیں تھا۔ اسی طرح چترال کے گوار باتی، کھوار اور پلولہ بولنے والوں کی زبانوں کے لیے کوئی خانہ موجود نہیں تھا۔ لہٰذا کہیں کہیں پہ مردم شماری پر مامور اہل کاروں نے اُن زبانوں کے بولنے والوں کو بھی کوہستانی لکھا اور ایسا اکثر ایسے شہری مقامات پر زیادہ ہوا، جہاں ان علاقوں سے لوگ نے مستقل نقلِ مکانی کرکے آباد ہوچکے ہیں۔
زبانوں کے حوالے سے آن لائن ڈیٹا بیس ’’ایتھنولاگ‘‘ (Ethnologue)، ’’گلاٹ لاگ‘‘ (Glottlog) اور یونیسکو ان کوہستانی زبانوں کے نام ’’شینا کوہستانی‘‘ اور ’’انڈس کوہستانی‘‘ لکھتے ہیں۔ ایتھنولاگ کے مطابق دنیا میں اَب تک کل 7164 زبانیں معلوم ہیں، جب کہ گلاٹ لاگ ان کی تعداد 8605 بتاتا ہے اور یونیسکو (UNESCO) کے مطابق یہ تعداد 8324 ہے۔
لفظ کوہستانی آبائی (Indigenous) نہیں ہے اور اس سے ان زبانوں او ر لوگوں کی آبائیت (Indigeneity) سے متعلق ابہام پیدا ہوجاتا ہے۔
توروالی زبان اور لوگ سوات کی قدیم تہذیب گندھارا اور گندھاری زبان سے تعلق رکھتے ہیں۔ جب ان لوگوں کے لیے اس نئی نوآبادیاتی اصطلاح ’’کوہستانی‘‘ کو استعمال کیا جاتا ہے، تو لامحالہ ان کو سوات کی تاریخ سے الگ کیا جاتا ہے، جو کہ نہ صرف ان لوگوں کی تاریخ اور ماضی پر حملہ ہے، بل کہ اس سے ایسا تاثر ملتا ہے کہ گویا یہ لوگ یہاں بعد میں کہیں سے آکر آباد ہوچکے ہیں۔ ساری داردی زبانوں اور لوگوں کا ’’گندھارا‘‘ سے قریب کا تعلق ہے، جب کہ تحقیق کے مطابق توروالیوں کا گندھارا اور گندھاری زبان سے قریب ترین تعلق ہے۔
ان مبہم اور نوآبادیاتی اصطلاحات کی بہ جائے ان زبانوں کے لیے وہ نام مقامی طور پر بھی استعمال کیے جانے چاہئیں، جو پوری ایکیڈیما (Academia) اور علمی و تحقیقی حلقوں میں معروف اور مستعمل ہیں اور زیادہ آبائی ہیں۔
یہ دلیل دی جاسکتی ہے کہ حقیقت میں ان زبانوں کے کوئی نام تھے ہی نہیں۔ کیوں کہ زیادہ تر لوگ اپنی زبانوں کو ’’اپنی زبان‘‘ کَہ کر پکارتے ہوں گے۔ درست، مگر شناخت کے ابھرنے کے اس دور میں ان داردی برادریوں نے ایک دوسرے کے لیے جو نام استعمال کیے ہیں، وہ زیادہ مناسب اور آبائی لگتے ہیں کہ یہ برادریاں ایک دوسرے کوان حملہ آوروں کی نسبت زیادہ بہتر جانتے تھے۔ ان کے ایک دوسرے کو دیے گئے ناموں میں قدامت پائی جاتی ہے اور قدامت آبائیت (Indigeneity) کو ماپنے کا ایک طریقہ ہے کہ آبائیت کا تعلق الگ ثقافت، سماجی رواجات، الگ زبان اور الگ دھرتی کے تصوّر کے ساتھ ایک زمانی (temporal) خصوصیت بھی ہے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے