اقوامِ متحدہ کے مطابق، دنیا بھر میں 25 کروڑ 80 لاکھ خواتین بیوہ ہیں، جو بنیادی حقوق سے محروم ہیں اور استحصال کا شکار ہیں۔
ایک اخباری رپورٹ کے مطابق، پاکستان میں 35 سال سے زائد عمر کی ایک کروڑ خواتین بیوہ، طلاق یافتہ یا غیر شادی شدہ ہیں۔
پاکستان کی 2023ء کی مردم شماری کے مطابق، ملک کی کل آبادی 24 کروڑ 15 لاکھ سے زائد ہے، جن میں بالغ مردوں اور خواتین کی مجموعی تعداد تقریباً 20 کروڑ 50 لاکھ بنتی ہے۔ اس میں طلاق یافتہ خواتین کی تعداد 4 لاکھ 99 ہزار جب کہ بیوہ خواتین کی تعداد تقریباً 40 لاکھ ریکارڈ کی گئی ہے۔ غیر شادی شدہ افراد کی تعداد 4 کروڑ 25 لاکھ تک پہنچ گئی ہے۔
رپورٹ کے مطابق، پنجاب میں غیر شادی شدہ افراد کی تعداد سب سے زیادہ، یعنی 2 کروڑ 36 لاکھ ہے۔ سندھ میں 95 لاکھ 86 ہزار، خیبر پختونخوا میں 66 لاکھ 72 ہزار، بلوچستان میں 21 لاکھ 81 ہزار اور اسلام آباد میں 4 لاکھ 86 ہزار غیر شادی شدہ افراد ہیں۔ ملک میں شادی شدہ افراد کی تعداد 9 کروڑ 45 لاکھ ہے۔
پاکستانی معاشرے میں بیوہ خواتین کو معاشرتی اور اقتصادی مسائل کا سامنا ہے، جن میں مالی مشکلات، سماجی تنہائی اور بچوں کی کفالت جیسے مسائل شامل ہیں۔ بیوہ خواتین کے حوالے سے کئی پیچیدہ مسائل اور مشکلات موجود ہیں جو ایک طویل عرصے سے جاری ہیں۔ مثلاً: اگر ایک 20 سال کی لڑکی بیوہ بن جاتی ہے، تو اُسے 80 سالہ مرد شادی کے لیے قبول نہیں کرتا، لیکن اگر ایک 70 سالہ مرد کی بیوی فوت ہوجائے، تو اُسے شادی کے لیے جوان عورت چاہیے ہوتی ہے۔ اس طرح جو لڑکی جوانی میں بیوہ بن جاتی ہے، تو اس کی زندگی ایک سنگین موڑ پر پہنچ جاتی ہے۔ اکثریت کے مطابق، ایسی لڑکیوں کی دوبارہ شادی کا امکان تقریباً ختم ہوجاتا ہے، اور وہ خود کو معاشرتی تنہائی اور اخلاقی دباو کا شکار محسوس کرتی ہے۔ لیکن چند خاندانوں میں جہاں اگر کوئی مرد غیر شادی شدہ ہو، تو اسے بیوہ بھابی سے شادی کے لیے تیار کرلیا جاتا ہے۔ یہاں پر سب سے اہم بات یہ ہے کہ لڑکی کی مرضی پوچھی نہیں جاتی۔ اُس کی ذاتی خواہشات اور جذبات کو نظر انداز کیا جاتا ہے۔ بس اس کو سہارا فراہم کرنے کے لیے دوبارہ شادی کر ادی جاتی ہے۔
قارئین، سوال یہ ہے کہ ہم اپنے معاشرتی رویوں کو کب تک اسی انداز میں برداشت کریں گے؟ بیوہ خواتین کی زندگی کو بہتر بنانے کے لیے ہمیں ان کے حقوق کا احترام کرنا ہوگا۔
پاکستان میں یہ حقیقت ہے کہ ڈھیر ساری بیوہ خواتین دوبارہ شادی کی خواہش رکھتی ہیں، لیکن معاشرتی دباو، خاندانی روایات اور غیر ضروری اخلاقی حدود ان کے لیے مشکلات پیدا کر دیتی ہیں۔ اس کے علاوہ، ان خواتین کو ان کے حقوق سے بھی محروم کیا جاتا ہے۔ خاص طور پر وراثت میں حصہ نہ دینا یا مالی امداد سے بھی انھیں دور رکھنا ایک اور سنگین مسئلہ ہے۔
بیوہ خواتین کی دوسری شادی میں ان کی مرضی کو نظرانداز کرنا ایک غلط قدم ہے۔ یہ بھی ایک سوال ہے کہ آخر کیوں معاشرہ مردوں کی دوبارہ شادی کو ایک معمولی بات سمجھتا ہے، مگر جب بات خواتین کی آتی ہے، تو ان کے لیے جینے کا حق تک نظرانداز کیا جاتا ہے۔ بیوہ خواتین کو عزت اور مساوی حقوق فراہم کرنے کے لیے معاشرتی رویوں کو بدلنا ہوگا۔ بیوہ خواتین کی دوبارہ شادی کے لیے ان کی مرضی اور خواہشات کو اہمیت دینا ضروری ہے۔ انھیں معاشرتی دباو سے آزاد رکھتے ہوئے نئی زندگی شروع کرنے کا حق دیا جانا چاہیے۔ ان خواتین کے لیے تعلیم اور روزگار کے مواقع فراہم کیے جائیں، تاکہ وہ خودمختار ہوسکیں اور اپنی زندگی کو بہتر بناسکیں۔ بیوہ خواتین کے وراثتی اور قانونی حقوق کے تحفظ کے لیے موثر قوانین کا نفاذ کیا جائے اور ان پر عملدرآمد یقینی بنایا جائے۔ ان خواتین کے لیے مشاورت اور جذباتی مدد کا نظام قائم کیا جائے، تاکہ وہ اپنی زندگی کے چیلنجوں کا مقابلہ کرسکیں۔
قارئین سے درخواست ہے کہ ہمیں اپنے معاشرتی رویوں میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے، تاکہ بیوہ خواتین کو بھی وہی احترام اور مواقع مل سکیں، جو معاشرتی طور پر مردوں کو حاصل ہیں۔ ان خواتین کو دوبارہ شادی کرنے کا حق ملنا چاہیے اور ان کی مرضی اور خواہشات کو بھی اہمیت دینی چاہیے۔ اگر ہم اپنی سوچ اور رویوں میں تبدیلی نہیں لائیں گے، تو ہم کبھی اُس سماج کی اصلاح نہیں کرپائیں گے جس کا خواب ہم دیکھتے ہیں۔ ہمیں اس بات کا ادراک ہونا چاہیے کہ ہر انسان کا حق ہے کہ وہ اپنی زندگی کے فیصلے خود کرے، بیوہ خواتین کا بھی یہی حق ہے۔
ہمارے معاشرے میں مرد کی دوسری شادی کو ایک گناہ کے طور پر دیکھا جاتا ہے، حالاں کہ اسلام میں دوسری شادی کی اجازت ہے۔ اس رویے کی وجہ سے کئی مسائل پیدا ہوتے ہیں، خاص طور پر بیوہ خواتین کے لیے۔ ایک بیوہ کو ساری زندگی اکیلے پن اور بے سہارا زندگی گزارنی پڑتی ہے۔ کیوں کہ ہمارا معاشرہ دوسری شادی کو معیوب سمجھتا ہے۔ نبیؐ نے خود کئی بیوہ خواتین سے نکاح کیا، جیسے ام المؤمنین حضرت خدیجہؓ اور حضرت زینبؓ بنت خزیمہ، جو بیوہ تھیں۔
اگر یہ روش ختم ہوجائے اور ہم اس معاملے میں اسلامی تعلیمات کو اپنائیں، تو بیوہ خواتین کو سہارا مل سکتا ہے اور ان کی زندگی میں سکون آ سکتا ہے۔ دوسری شادی کے مقاصد میں یہ بھی ہے کہ بیوہ یا طلاق یافتہ خاتون کو ایک نیا موقع دیا جائے، تاکہ وہ ایک محفوظ اور خوش حال زندگی گزار سکے۔
یہ وقت ہے کہ ہم اپنے معاشرتی رویوں کو درست کریں اور بیوہ خواتین کو ایک نئی زندگی شروع کرنے کی آزادی اور حمایت فراہم کریں۔ ہمیں اپنے ذہنوں کو بدلنے اور ایسے دقیانوسی خیالات سے نکلنے کی ضرورت ہے، جو انسانی زندگی کو مشکل میں ڈال رہے ہیں۔ اگر معاشرہ اس معاملے میں مثبت رویہ اپنائے، تو ڈھیر ساری خواتیں کی زندگی بہتر ہو سکتی ہے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
