آج سے تقریباً تین سال قبل جب بلدیاتی انتخابات ہو رہے تھے، تو پہلے مرحلے میں پی ٹی آئی ’’حکومت‘‘ میں ہونے کے باوجود بری طرح ہار گئی اور پھر دوسرے مرحلے کے بلدیاتی انتخابات میں پی ٹی آئی کی عوامی مقبولیت کا یہ حال تھا کہ بیش تر پی ٹی آئی اُمیدواروں نے پارٹی کا ٹکٹ چھوڑ کر آزاد حیثیت سے انتخابات لڑنے کو ترجیح دی۔
دراصل وہ پی ٹی آئی سے مایوسی کا دور تھا۔ اُس وقت کہا جا رہا تھا کہ پی ٹی آئی اپنی موت آپ مر رہی ہے۔ کارکردگی اور بیانیے میں تضاد، شدید بدعنوانی اور اقربا پروری نے پارٹی کو ناقابلِ تلاقی نقصان پہنچایا تھا۔ چوں کہ کہا جاتا ہے کہ پی ٹی آئی کو ’’سہولت کاروں‘‘ کی مدد حاصل تھی، جنھیں وہ کچھ نظر آتا ہے، جو ہر کوئی نہیں دیکھ سکتا۔ اس لیے مردار ہونے سے پہلے ہی مرغی کو ذبح کیا گیا۔ گرتی ہوئی دیوار کو سہارا دیا گیا۔ پی ٹی آئی کی مرکزی حکومت کو گرا دیا گیا اور اپوزیشن کو جانوروں کی طرح لاٹھی سے ہانک کر ایک کیا گیا۔ پھر اُن کی حکومت المعروف ’’پی ڈی ایم‘‘بنائی گئی۔ پھر مہنگائی سے اسے اتنا بدنام کیا گیا کہ لوگوں کو پچھلی حکومت بہتر نظر آنے لگی۔ لوگ کارکردگی کو چھوڑ کو تصورات میں رہنے لگے۔ اُسی دور میں جب عمران خان اور پی ٹی آئی کے تارے گردش میں تھے، تو ’’تور گل‘‘ نامی کردار نے لاکھوں سوشل میڈیا صارفین کی توجہ حاصل کی۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اس کے پیچھے بھی ’’سہولت کار‘‘ تھے۔ کچھ کہتے تھے کہ ’’کہنہ مشق صحافی‘‘ تھے۔ کچھ کا خیال تھا کہ پی ٹی آئی کا کوئی باغی گروہ تھا، مگر کمال کی خبریں، معلومات اور دستاویزات تھیں…… جو ہر کوئی آسانی سے دیکھ سکتا تھا۔
’’تور گل‘‘ نے پی ٹی آئی کی اُس وقت کی بدنامی کو اور نمایاں کیا اور پی ٹی آئی سے وابستہ بچے کھچے کارکنان میں مزید مایوسی پھیلا دی۔ یہ اور بات ہے کہ پی ڈی ایم حکومت کے بعد پی ٹی آئی کو نئے کارکنوں اور نئے نظریات کے ساتھ ری لانچ کیا گیا، مگر ہمارا آج کا موضوع ’’تور گل‘‘ ہے، اس لیے پٹری سے اترنے کی کوشش دانش مندی نہیں ہوگی۔
ترقی یافتہ ممالک میں تنقید اور کھلی تنقید کوئی اَن ہونی بات نہیں۔ ’’ہاؤس آف کامنز‘‘ میں شدید قسم کی بحث ہوتی ہے۔ ’’سکائی نیوز‘‘ اور دیگر جعلی و نقلی جائزے اور ریسرچ پیش کرتے ہیں اور اپنے سائڈ کے امیدواروں کی حمایت میں اضافہ کرواتے ہیں۔ کیوں کہ وہ 100 فی صد کارپوریٹ میڈیا ہے اور پیسے کمانے پر شرمندہ نہیں ہوتا۔ ’’ریپبلکن‘‘ اور ’’ڈیموکریٹ‘‘ ووٹروں کی طے شدہ رائے ہوتی ہے، جب کہ ’’سلائیڈنگ‘‘ ووٹروں کو ٹارگٹ کیا جاتا ہے۔
ہمارے پڑوسی ملک ہندوستان میں کئی سکینڈلز اور ویڈیو لیکس سے لے کر ’’پوبوس سکینڈل‘‘، ’’تہلکہ سکینڈل‘‘ اور کیا کچھ سامنے نہیں آیا۔ ’’وکی لیکس‘‘ اور ’’پانامہ سکینڈل‘‘ سے کئی لوگ میڈیا کی طاقت سے باخبر ہوئے۔
پاکستان، خیبرپختونخوا اور خصوصاً سوات ایک ’’ریزروڈ سوسائٹی‘‘ ہے، اس لیے تنقید کو کسی بھی شکل میں پسند نہیں کیا جاتا۔ یورپ اور مکمل مغرب میں تنقید کو کام یابی سمجھا جاتا ہے۔ خود مارکیٹنگ میں تنقید کو ’’بائنگ سگنل‘‘ کہا جاتا ہے اور اسے کام یابی تصور کیا جاتا ہے۔
مارکیٹنگ میں کہتے ہیں کہ مارکیٹ بڑھانے کے لیے مخالفت، مقابلے اور تنقید کی ضرورت ہوتی ہے، ورنہ مارکیٹ نہیں بنتی اور سیلز کا امکان کم ہوتا ہے۔
سوات کی 100 سالہ تاریخ میں ہمیں مختلف مواقع پر شدید تنقید کی مثالیں ملتی ہیں۔ جیسے عبدالجبار شاہ کے خلاف ’’مذہبی کارڈ‘‘ کا استعمال ہوا اوراُسے سوات کی سیاست سے فارغ کیا گیا۔
دیر کے نواب کی سوات میں سیاسی پشت پناہی اور باچا صاحب کی قومیت کو متنازع بنانے کی کوششیں ہوئیں۔ خود بادشاہ صاحب کی طرف سے نوابِ دیر کے خلاف اس طرح کی کاوشوں کا ذکر ہے۔
کامران دادا کی اصلاحات کی سفارشات اور رواج پر تنقید کی اپنی جگہ ہے، اُن پر جواباً ’’کانگریسی‘‘ اور ’’سرخ پوش‘‘ ہونے کا الزام لگا۔
اس طرح جماعتِ اسلامی پر ریاستِ سوات میں پابندی اور جماعتِ اسلامی کی کراچی میں بیٹھ کر ریاستِ سوات کے اقدامات کا ردِ عمل بھی اب تاریخ کا حصہ ہے۔
پھر 2009ء میں ’’ریڈیو مولانا‘‘ اور ’’دھمکی مولانا‘‘ کا ایف ایم (ریڈیو) واقعی سنجیدہ بیانیہ رائج کر رہا تھا اور وہ بیانیہ ’’خوف‘‘ کا تھا۔
لیکن جب بات سوشل میڈیا کی آتی ہے، تو آج کے دور میں ’’تور گل‘‘ کا کردار یقینا ذکر شدہ تمام کرداروں سے مختلف اور منفرد تھا۔
مذکورہ کردار ایک مرغوبہ تھا جس میں متفرق جذباتی انداز ایک ’’سپائڈر مین ٹائپ کیریکٹر‘‘ پیش کر رہا تھا۔ اُس میں خود پی ٹی آئی کے ایجاد کردہ کلچر کی جھلک تھی، جس میں کسی کے لیے کچھ بھی بولنے پر ’’شاباش‘‘ ملتی تھی۔ دوسری طرف مخالف جماعتوں کے کارکنوں کی نفرت بھی جھلکتی تھی۔ خود پی ٹی آئی کی پچھلی قطاریں پیش پیش تھیں، جو آگے آنے کی جد و جہد میں تھیں۔ ایک طرف ٹکٹ سے محروم رہ جانے والے یوتھیے لگائے جانے والے زخموں پر نمک پاشی کر رہے تھے، تو دوسری طرف نظر انداز ہونے والے یوتھیے وعدہ معاف گواہ بننے کو تیار تھے۔
سب سے مزیدار بات یہ ہے کہ دن کے وقت ’’تور گل‘‘ کو گالیاں دینے والے رات کو خود ’’تورگل‘‘ بن جاتے تھے۔
فضل حکیم خان یوسف زئی صاحب کے اپنے ساتھی کہتے تھے کہ اُن (فضل حکیم) کو تمام ڈویژن کے لوگوں نے خوب استعمال کیا ہے۔ ضلع میں ہر ایم پی اے، ایم این اے بہ شمول وزیرِاعلا نے اُنھیں ’’چیئرمین صاحب‘‘ مخاطب کر کرکے اپنا اُلو سیدھا کیا، جب کہ مخالفین کا کہنا ہے کہ ’’چیئرمین صاحب‘‘ کے اپنے ہاتھوں معاملہ خراب ہوا تھا۔ یوں یہ پی ٹی آئی کے اندر کی لڑائی تھی، جسے سوشل میڈیا پر پوری دنیا کے سامنے لڑا جارہا تھا۔
عام شخص مزے لے رہا تھا، حیران ہو رہا تھا اور کسی سے بھی ہم دردی نہ رکھنے والا کہتا تھا کہ ’’سب چور ہیں!‘‘
جمہوریت دشمن حلقے اس کو جمہوریت کی ناکامی سے تعبیر کر رہے تھے اور ایوب خان کی تصویریں جھاڑ کر لگانے کی تگ و دو میں تھے۔ بہ ہرحال اگر تمام ذاتی خواہشات اور مفادات کو ایک طرف رکھ کر دیکھا جائے، تو یہ ایک صحت مند مشق تھی کہ کرپشن سے نفرت کو پروان چڑھایا جا رہا تھا اور کرپشن کے عمل کو مشکل بنایا جا رہا تھا۔ اگر پوری توجہ اس جانب رہتی، تو اس کے ڈھیر سارے مثبت نتائج نکل سکتے تھے۔
قارئین! احتساب ایک مسلسل اور فطری عمل ہے۔ اس سے انکار ممکن نہیں، نہ اس پر کسی کو اعتراض ہی ہونا چاہیے۔ پگڑیاں اُچھالنے کی جگہ اگر کرپشن سامنے لانے کا عمل ہوتا، تو یہ خود پی ٹی آئی کے کارکنوں کے لیے بہترین موقع تھا۔ وہ شفافیت کی بات کرتے اور اس کو ایک تحریک بناکر مقصدیت کی طرف لے جاتے۔ بہ جائے اس کے پی ٹی آئی کے کارکن سیاسی مخالفین کو گالیاں اور اپنے لوگوں کی غیر ضروری صفائی دینے میں جت گئے۔
اُس وقت ایسا لگ رہا تھا کہ خود پی ٹی آئی کے سابق ممبران سے درخواست ہو رہی تھی کہ وہ یہ یقین کرلیں کہ وہ قوم کو جواب دِہ ہیں اور یہ وہی لوگ تھے، جنھوں نے آپ کو ووٹ دیا تھا۔ اَب اُن کا ووٹ تو منظور تھا، مگر اُن کی تنقید پر اعتراض تھا۔ یہ بالکل غلط بات تھی۔
یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ منتخب اراکین اپنی ذاتی حیثیت میں شاید کونسلر کا انتخاب بھی نہ جیت سکیں۔ یہ ووٹ عمران خان کا بھی نہیں تھا، بل کہ اُس بیانیے کا تھا، جو عمران خان نے رائج کیا تھا۔
ضرورت اس امر کی تھی کہ عوام کے سامنے آکر تحمل سے اُن کے سوالوں کا جواب دیا جاتا، لیکن پی ٹی آئی کے ممبران ’’تورگل‘‘ کی تلاش میں مارے مارے پھرتے رہے، اور پھر جب یہ خبر آئی کہ پیج (فیس بُک) بیرونِ ملک سے چل رہا تھا، تو مذاق کا ایک اور پہلو ہاتھ آگیا۔
بہ حیثیتِ مجموعی سوات کی تاریخ میں یہ ایک منفرد تاریخی دور تھا، جس کو برپا کرنے میں بہ ہر حال ’’تور گل‘‘ نامی کردار مکمل کام یاب رہا۔ اب نتیجہ یہ ہے کہ جہاں بھی دو لوگ کرپشن کے حوالے سے بات کرتے ہیں، تو ’’تور گل‘‘ کا ذکر ضرور ہوتا ہے۔
پھر کئی ایک ’’نقلی‘‘ تورگل مارکیٹ میں آدھمکے۔ ’’مقامی فرنچائز‘‘ بھی نکل آئے۔ سوات سے نکل کر ’’تور گل‘‘ نہ صرف پورے خیبرپختونخوا میں پھیل گیا، بل کہ گلف تک پہنچ گیا۔
مختلف مہمات میں کئی ’’تورگل‘‘ پکڑے گئے اور حوالات میں بند بھی کیے گئے۔ کچھ شاید ’’شہید‘‘ بھی کیے گئے اور کچھ زخم لے کر خاموش ہوگئے، مگر ’’سہولت کار‘‘ شاید فیصلہ کرچکے تھے، تقسیم کرچکے تھے، مرکز اور صوبوں کا فیصلہ ہوچکا تھا اور پھر کسی دن ’’تور گل‘‘ کی باری آئی اور اُسی کا ٹریکٹر خود اُس پر چڑھایا گیا۔ اُسی ٹریکٹر سے ایک گہرا گڑھا کھدوا کر تورگل کو اس میں ہمیشہ کے لیے دفن کر دیا گیا۔
اُس کے بعد کئی تورگل آئے، اور بھی آئیں گے، مگر اوریجنل تورگل تاریخ رقم کرکے تاریخی ہی کے صفحوں میں گم ہوگیا۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
