کبھی خواب نہ دیکھنا (پچاس ویں قسط)

Blogger Riaz Masood

ہمیں اپنے باورچی خانے میں کام کرنے کے لیے ایک یا دو آدمیوں کی ضرورت رہتی۔ اس لیے ہم اپنے ساتھ ڈیوٹی پر آنے کے لیے دو روڈ ورکرز کو بلاتے تھے۔ کچھ عرصے بعد گورنمنٹ نے سخت احکامات جاری کرتے ہوئے تمام کلاس فور ملازمین کو افسروں کے گھروں میں کام کرنے سے روک دیا۔ اس طرح ہمیں اپنے خرچے پر ایک بندے کا بندوبست کرنا پڑا۔ ہم جب سواڑئی میں مقیم تھے، تو ہمارے پاس ملا یوسف گاؤں کا ایک بہت بوڑھا لیکن لمبا تڑنگا مضبوط جسم کا ایک آدمی کام کرتا تھا۔ اس کا قد تقریباً 6.5 فٹ تھا۔ داڑھی میں رنگ لگاتا تھا۔ اس کے منھ میں بہت کم دانت تھے۔ پنج وقتہ نماز کا سختی سے پابند تھا۔ اس کی واحد ناپسندیدہ عادت نسوار کا استعمال تھا۔
ایک دن جب وہ کچن میں روٹیاں بنا رہا تھا، تو مَیں نے دیکھا کہ وہ منھ میں نسوار رکھ رہا ہے اور انھیں گندی انگلیوں سے گوندھے ہوئے آٹے سے روٹیاں بنا رہا ہے۔ مجھے ابکائی آگئی، مگر بڑی مشکل سے اپنے آپ پر قابو رکھا۔ مَیں نے اُس شام کا کھانا چھوڑ دیا۔ البتہ میرے ساتھیوں نے کھانا کھایا۔ کیوں کہ میں نے انھیں کچھ نہیں بتایا تھا۔ اب مجھے اس کا نام یاد آرہا ہے، لیکن ہم اسے ماما کَہ کر بلاتے۔ وہ ایک عظیم قصہ گو تھا۔ وہ آصف جاہی سلطنت کے آخری نظام، آصف جاہ ہفتم نظام دکن (حیدر آباد) میر عثمان علی خان کی فوج میں خدمات انجام دے چکا تھا۔ اس لیے وہ اس بڑھاپے میں بھی بہت ہوش یار تھا۔ وہ بڑوچ کے خان کے ساتھ بھی رہا تھا۔ وہ اکثر اس کے شکار کی مہمات اور مہمان نوازی کے بارے میں بات کرتا۔ اس نے ایک بار بتایا کہ جب والی صاحب، میاں گل جہان زیب، جب ابھی ولی عہد تھے، اپنے وفد کے ساتھ گھوڑے پر بونیر کے وسیع دورے پر گئے تھے، تو انھوں نے بھی بڑوچ کا دورہ کیا۔ خان نے آنے والے شہزادے کی حیثیت کے مطابق اس کی تواضع کی۔ گائے ذبح کی گئی اور بڑوچ اور ملحقہ علاقوں کے بہت سے لوگوں کو دعوت دی گئی کہ وہ دعوت سے لطف اندوز ہوں اور سواتی شہزادے کو دیکھیں۔
ماما کے تعلقات میرے ساتھ اچھے نہیں تھے۔ اُسے میرے اشغال اور دیگر سرگرمیوں سے نفرت تھی۔ ایک دن، اس کے صبر کا پیمانہ لب ریز ہوگیا اور اس کے دماغ میں جو کچھ تھا وہ پھٹ کر باہر آگیا اور کام چھوڑ کر چلا گیا۔ جاتے وقت اس نے کہا کہ وہ ہمارے پاس کبھی واپس نہیں آئے گا۔ یوں ہمیں عجلت میں اس کا متبادل تلاش کرنا پڑا۔ ان دنوں ترقیاتی کام نہیں ہو رہے تھے اور ہمیں مالی مسائل کا بھی سامنا تھا۔
مجھے تاریخ تو یاد نہیں (اگرچہ ہمارے پاس میری بیوی کی بیماری کا ریکارڈ رکھنے والی فائلوں کا بنڈل موجود ہے لیکن) یہ 2001ء کی آخری سہ ماہی تھی، جب میری شریکِ حیات کوما میں چلی گئی۔ ہم اسے اپنے گاؤں ابوہا سے ٹیکسی میں ایک میڈیکل کمپلیکس لے گئے۔ اسے فوری طور پر داخل کیا گیا اور متعدد ٹیسٹوں کے بعد، ڈاکٹر نے اسے فوری طور پر ایل آر ایچ، پشاور منتقل کرنے کا مشورہ دیا۔ اس کے گردوں نے کام کرنا چھوڑ دیا تھا اور اسے ڈائیلاسز کی ضرورت تھی۔ چناں چہ اسے اسی شام پشاور لے جایا گیا۔ وہاں فوری طور پر ہنگامی بنیادوں پر کارروائی کی گئی۔ اس وقت سوات میں یہ سہولت دست یاب نہیں تھی۔ میرا بڑا بیٹا ہمایوں اس کے ساتھ تھا۔ اگلی صبح مَیں بھی پشاور پہنچ گیا۔ کچھ دنوں کے بعد اسے اِفاقہ ہوا اور اس کے چہرے کی رنگت لوٹ آئی، تو ہم اپنے گاؤں واپس آگئے۔ ڈاکٹروں نے ہمیں ہفتے میں ایک بار ڈائیلاسز کا مشورہ دیا۔ 2002ء میں یہ مرض اپنی پوری شدت کو پہنچ گیا اور ڈائیلاسز ہفتہ وار کی بجائے روزانہ ہونے لگا۔
ایک نوجوان ڈاکٹر نے میرے بیٹے کو بتایا کہ اس کو فوری طور پر گردے کی پیوند کاری کی ضرورت ہے۔ انھوں نے کہا کہ ایل آر ایچ میں 50 سال سے زیادہ عمر کے مریض کی ٹرانسپلانٹ کی سہولت موجود نہیں۔ اس نے ہمیں مشورہ دیا کہ اس کو راولپنڈی لے جائیں۔ وہاں ایک پرائیویٹ ہسپتال نے مطلوبہ خدمات فراہم کیں اور اپنے گردے بیچنے کے خواہش مند شخص کو تلاش کرنے میں بھی مدد کی۔ یہ ایک ناخوش گوار صورتِ حال تھی۔ ہمارے پاس اخراجات پورے کرنے کے لیے پیسے نہیں تھے، لیکن بڑی کوششوں کے بعد ہم رشتہ داروں سے قرض لے کر مطلوبہ رقم جمع کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ میرے قریبی عزیزوں میں سے کسی نے بھی کسی قسم کی مالی مدد نہیں کی۔ قصہ مختصر! ہم نے ایک کشمیری نوجوان سے 80 ہزار روپے میں ایک گردہ خریدا۔
سرجن کی فیس 5 لاکھ تھی، لیکن بعد میں اس نے 4 لاکھ روپے فیس لی۔ ایک ہفتے کے چیک اپ کے بعد اس نے ہمیں مریض کو گھر لے جانے کی اجازت دی۔ انہوں نے ہر ماہ چیک اپ کے لیے آنے کا مشورہ دیا۔ یہ عمل آٹھ سال تک جاری رہا، پھر دھیرے دھیرے دوائیوں نے کام کرنا چھوڑ دیا۔ وہ تقریباً چار بار بلال ہسپتال راولپنڈی میں داخل کرائی گئی لیکن اس سے صرف عارضی ریلیف ہی مل سکا۔
اس عرصے میں سوات میں شورش اور دہشت گردانہ سرگرمیوں کی وجہ سے ہمیں اپنا گھر بار چھوڑنا پڑا۔ ہم نے بے بسی کے عالَم میں ان مشکلات کا سامنا کیا۔ ہم نے فیز II سیکٹر، حیات آباد، پشاور میں ایک مکان کا بالائی حصہ 9000 ماہانہ کرائے پر حاصل کیا۔ گرمی بہت تھی اور ہمارے بچوں نے مچھروں کی شکایت کی۔ ہمیں صرف ایک ہی سہولت حاصل تھی اور وہ تھی گلی کے اس پار مسجد عمار بن یاسر۔
گھر سے نکلنے سے پہلے ہم نے بہت ذلتیں برداشت کیں۔ میرا ایک بھائی خورشید، ایک میڈیکل سنٹر میں کینسر کے باعث انتقال کرگیا۔ اس کی تین سرجریاں ہوئی تھیں۔ اسے فوری طور پر دفنانا ضروری تھا، لیکن میرے بھائی اور میت بلوگرام میں تاخیر سے پہنچی۔ کافی دیر تک روکے جانے کے بعد انھیں چیک پوسٹ سے گزرنے دیا گیا۔ چناں چہ ہم نے اسے رات کے 12 بجے ابوہا میں دفن کر دیا۔ (جاری ہے)
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے