پشاور رنگ روڈ پر "HBK” کے نزدیک واقع چوندرہ شادی ہال اُس وقت کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ ہال کے اندر تل دھرنے کی جگہ نہ تھی۔ باہر بھی ایسا ہی حال تھا۔ ہال کی پارکنگ میں گاڑیاں ہی گاڑیاں تھیں۔
ہال کے پچھلے سرے پر جیسے ہی ہماری نظر پڑی، تو ’’اجے دیوگن‘‘ کی مشہورِ زمانہ اور ہمارے بچپن کی پسندیدہ فلم ’’دل جلے‘‘ کے گانے ’’شام ہے دھواں دھواں‘‘ کے مصداق ہمیں لگا کہ ہال دھواں دھواں ہے۔
ابتدائی مراحل میں سانس لینے میں تھوڑی مشکل ہوئی۔ تھوڑی بہت گھٹن بھی ہوئی۔ یہ سب کچھ عجیب لگا، لیکن پھر خود کو باور کرایا کہ جوانی گستاخ ہوتی ہے، کسی بھی روایت اور اچھے برے کو خاطر میں نہیں لاتی اور ہمارے اردگرد سبھی نوجوان شاید یہ چھوٹی بڑی گستاخیاں کرکے جوانی کا حق ادا کررہے ہیں۔
ہم جیسے بھٹکے ہوؤں کا خیال تھا کہ 8 جنوری کو منعقد ہونے والے اس ’’وزیرستان کلچر نائٹ‘‘ میں موسیقی ہوگی، روایتی رقص ہوگا اور تفریح کے لیے بہت کچھ ہوگا، لیکن قصہ کچھ اورتھا۔
شور سے آشنا ہونے کے بعد جب ہم نے بولنے والے کو سنا، تو وہ نیلسن منڈیلا کی خود نوشت "A long walk to freedom” کا ذکر کررہا تھا۔ وہ نیلسن منڈیلا کی جد و جہد، اُن کی 27 سالہ قربانی اور مزاحمت کے بارے میں سننے والوں کو بتا رہا تھا۔ وہ تعلیم کی اہمیت پر زور دے رہا تھا اور اپنی بات کی تائید میں نیلسن منڈیلا، باچا خان بابا اور دیگر نامی گرامی شخصیات کے اقوال کا ذکر کررہا تھا۔ پھر اس نے ظلم و جبر پر مبنی اس نظام "Apartheid” کا ذکر کیا اور اس کا ہماری ریاست سے ایک طرح کا تقابلی جائزہ لیا۔ اس نے پشتونوں کو ساؤتھ افریقہ کے "Necros” سے تشبیہ دی۔ آخر میں اُس نے سننے والوں سے جد و جہد کے لیے کوشاں رہنے اور حالات بدلنے کی اپیل کی۔
اس کے بعد دوسرا مقرر آیا، تو وہ جنگوں کی وجہ سے ہونے والی بربادیوں کا ذکر کرنے لگا۔ وہ کَہ رہا تھا کہ جنگیں بے رحم ہوتی ہیں۔ یہ کسی کو بھی خاطر میں نہیں لاتیں۔ یہ چادر اور چار دیواری کا تقدس پامال کرتی ہیں۔ یہ بچوں ، بوڑھوں اور عورتوں کا لحاظ نہیں کرتیں۔ جنگ ایک پیاسا دیوتا ہے، جو انسانی خون سے اپنی پیاس بجھاتا ہے۔ پھر وہ دہشت گردی اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہونے والی بربادیوں کا ذکر کرنے لگا۔ وہ تمام ریکارڈ اُسے زبانی یاد تھا، جو کچھ وقت پہلے ’’خیبر‘‘ میں ہونے والے جرگے میں منظور پشتون نے بیان کیا تھا۔
مَیں سمجھا کہ اب وہ چپ ہوجائے گا، لیکن وہ نہیں رُکا اور ’’ڈالری جنگ‘‘ کے ساتھ وابستہ کچھ کرداروں کو للکارنے لگا۔ اُس نے اس جنگ کو وسائل لوٹنے کا ایک ذریعہ کہا۔ اس سے ہونے والی کمائی کو جنگی اقتصاد کا نام دیا اور اپنے اس بات کو ثابت کرنے کے لیے اس نے "Achille Mbembe” کی کتاب "Necro Politics” میں بیان ہونے والے فریم ورک کا ذکر کیا کہ کس طرح طاقت ور قوتیں وسائل لوٹنے کے لیے جنگوں کا سہارا لیتے ہیں۔ اس کے چپ ہو جانے کے بعد ہال تالیوں سے گونج اُٹھا۔
اُس کے بعد ایک اور آیا، اور اُس نے آپس کی نااتفاقی کو اپنی سب سے بڑی کم زوری اور مخالف قوتوں کا سب سے بڑا ہتھیار کہا ۔ اُس نے باچا خان بابا کا حوالہ دیا کہ اُنھوں نے تمام عمر پشتونوں کے اتحاد و اتفاق کے لیے جد و جہد کی، لیکن ہم نے قسم کھائی ہے کہ تقسیم ہوکر موجودہ سامراج کا آلۂ کار بننا ہے۔ اس کے بعد وسائل کی بات ہوئی، تو مولانا خانزیب کی پشتو کتاب ’’شتمنہ پختونخوا‘‘ میں ذکر ہونے والے وسائل اور ان کے اعداد و شمار زیرِ بحث آئے۔ پھر خطے کے مسائل اور خصوصاً دہشت گردی پر بحث ہوئی اور اس کے حل کے لیے ضروری اقدامات کا ذکر کیا گیا۔
12 بجے کے قریب افراتفری بڑھی، تو نتیجتاً پروگرام میں ایک گھنٹے کا وقفہ لینا پڑا۔ اس دوران میں ہم نے واپسی کی ٹھان لی، لیکن راستے میں پھنس گئے۔ وہاں سے نکلنے کے بعد دوستوں کی محفل رات بہت دیر تک رہی۔ بعد میں پتا چلا کہ پروگرام میں نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی کے چیئرمین محسن داوڑ بھی موجود تھے، لیکن ہماری بدقسمتی کہ انھیں ہم نہ سن پائے۔
مَیں آخر میں اس نتیجے پر پہنچا کہ وزیرستان میں جنگ کی وجہ سے بہت زیادہ بربادی ہوئی ہے۔ کیوں کہ بربادی، ظلم و ستم، جبر، بربریت اور شعور کا نہایت گہرا رشتہ ہے۔ اس لیے ’’وزیرستان کلچر نائٹ‘‘ کو انھوں نے بہ طورِ آگاہی مہم استعمال کیا اور اپنی بات لوگوں تک پہنچائی۔ ریاست نے اگر اب بھی ہوش کے ناخن نہ لیے، تو ان کے سینوں میں پلنے والا لاوا کہیں آتش فشاں کی شکل اختیار نہ کرلے۔ ایک بار بات چیت کی گرفت سے بات نکل جائے، تو پھر نتائج اچھے نہیں ہوتے۔ نتائج کسی اور کے لیے برے ہوں یا نہ ہوں، عام عوام کے لیے ضرور برے ہوتے ہیں۔ یہی موقع ہے کہ ان لوگوں کو سنا جائے، ان کی داد رسی کی جائے، انھیں سینے سے لگایا جائے اور ان کے مسائل حل کیے جائیں، وگرنہ تاریخ کروٹ لینے پہ آئے، تو کسی کو بھی خاطر میں نہیں لاتی۔ کم از کم ہماری ملکی تاریخ سے تو ہم نے یہی سیکھا ہے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
