آج کل حکومت نے صحافیوں کو مصروف رکھنے کے لیے ’’پیکا بل‘‘ (The Prevention of Electronic Crimes Act) منظور کرلیا ہے، جو تحفظ کے ساتھ ساتھ عدم تحفظ کا سامان بھی ہوگا۔
مَیں سمجھتا ہوں کہ جو کام حکومت کے کرنے والے ہیں، اُن پر توجہ نہیں، بل کہ خواہ مخواہ عوام کو مصروف رکھنے کے لیے کبھی عدالتی نظام کو چھیڑا جاتا ہے، تو کبھی صحافتی نظام کو۔ حالاں کہ یہ دونوں نظام وہ کام کررہے ہیں، جو حکومت کو کرنا چاہیے۔ صحافی اور جج عوام کے ووٹوں سے آتے ہیں اور نہ ایرے غیرے اور نتھو خیرے ہی ہوتے ہیں، بل کہ تعلیم یافتہ، حساس ذہنوں کے مالک اور سمجھ بوجھ رکھنے والے ہوتے ہیں، جو اپنی محنت اور قابلیت کی وجہ سے عوام کی خدمت کرنے میں مصروف ہوتے ہیں۔ اگر یہ دونوں قسم کے لوگ پاکستان میں نہ ہوں، تو پھر آپ کو ہر طرف غلامی کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے انسان نظر آئیں۔ عوام کی جان ومال کا تحفظ اور انھیں عزت دینا ہمارے حکم رانوں کا کام ہے، جوکم تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود عوام کے ووٹوں سے اسمبلیوں میں پہنچ جاتے ہیں۔ بدقسمتی سے انہوں نے عوام کو سسکنے، بلکنے اور مار کھانے کے لیے چھوڑ رکھا ہے۔
اس وقت ہر ادارے میں عوام کو ذلیل و رسوا کیا جا رہا ہے۔ خاص کر پولیس نے تو غنڈا گردی کی انتہا کررکھی ہے۔ رہی سہی کسر ایجنسیوں نے پوری کررکھی ہے، جس کوجہاں سے مرضی اٹھالیں۔ کوئی پوچھنے والا نہیں۔ پکڑنے کے بعد بدترین تشدد تو ہوتا ہی ہے، ساتھ میں اس کی اطلاع بھی کئی کئی دن نہیں دی جاتی۔ اس لیے حکومت کو چاہیے کہ صحافت کو پابندِ سلاسل کرنے کی بہ جائے اداروں کا قبلہ درست کرے، ’’پیکا بل‘‘ کو اتنا سخت نہ بنایا جائے کہ عام لوگوں کی آواز اٹھنا ہی بند ہوجائے۔
’’پیکا ایکٹ ترمیمی بل 2025ء‘‘ کیا ہے؟
دراصل پیکا قوانین میں ترامیم سوشل میڈیا پرغلط خبروں کے پھیلاو کوروکنے کے لیے کی گئی ہیں، تاکہ کوئی بھی شخص کسی دوسرے شخص یا ادارے کو بدنام نہ کرے۔
ایوان سے منظورشدہ پیکا آرڈیننس بل کو ’’دی پریوینشن آف الیکٹرنک کرائمز (ترمیمی بل) 2025ء‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔
پیکا قوانین کے مجوزہ ترمیمی بل کے مطابق سوشل میڈیا پروٹیکشن اینڈ ریگولیٹری اتھارٹی قائم کی جائے گی۔
اتھارٹی کا مرکزی دفتر اسلام آباد میں ہوگااور ذیلی دفتر صوبائی دارالحکومتوں میں بھی قائم کیا جائے گا۔
ترمیمی بل میں کہا گیا ہے کہ اتھارٹی سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم کی سہولت کاری کرے گی۔
اتھارٹی سوشل میڈیا صارفین کے تحفظ اور حقوق کو یقینی بنائے گی۔
اتھارٹی سوشل میڈیا پلیٹ فارمزکی رجسٹریشن کی مجازہوگی۔
پیکاترمیمی قوانین کے مطابق سوشل میڈیا پر غیر قانونی سرگرمیوں کا متاثرہ فرد 24 گھنٹے میں اتھارٹی کو درخواست دینے کا پابند ہوگا۔
اتھارٹی کُل 9 اراکین پرمشتمل ہوگی۔ سیکریٹری داخلہ، چیئرمین پی ٹی اے، چیئرمین پیمرا ایکس آفیشل اراکین ہوں گے۔ بیچلرز ڈگری ہولڈر اور متعلقہ فیلڈمیں کم ازکم 15 سالہ تجربہ رکھنے والا شخص اس اتھارٹی کا چیئرمین تعینات کیا جاسکے گا۔ چیئرمین اورپانچ اراکین کی تعیناتی پانچ سال کی مدت کے لیے کی جائے گی۔
حکومت کی جانب سے اتھارٹی میں صحافیوں کو نمایندگی دینے کا بھی فیصلہ کیا گیا ہے۔
ایکس آفیشل اراکین کے علاوہ دیگرپانچ اراکین میں 10 سالہ تجربہ رکھنے والاصحافی، سافٹ وئیرانجینئر، ایک وکیل، سوشل میڈیا پروفیشنل نجی شعبے سے آئی ٹی ایکسپرٹ بھی شامل ہوگا۔
بل کے مطابق چیئرمین اتھارٹی سوشل میڈیا پرکسی بھی غیرقانونی موادکو فوری بلاک کرنے کی ہدایت دینے کا مجازہوگا۔
اتھارٹی کا چیئرمین اوراراکین کسی دوسرے کاروبارمیں ملوث نہیں ہوں گے۔
نئے ترمیم شدہ پیکا آرڈیننس کے تحت سوشل میڈیا پلیٹ فارم کو اتھارٹی سے رجسٹر کرانا لازمی قرار دیا گیا ہے۔
اتھارٹی ’’نظریۂ پاکستان‘‘ کے برخلاف، شہریوں کو قانون توڑنے پر آمادہ کرنے والے مواد کو بلاک کرنے کی مجاز ہوگی۔
اتھارٹی آرمڈ فورسز، پارلیمنٹ یا صوبائی اسمبلیوں کے خلاف غیرقانونی مواد کو بلاک کرنے کی مجاز ہوگی۔
پارلیمنٹ کی کارروائی کے دوران میں حذف کیے گئے مواد کو سوشل میڈیا پر اَپ لوڈ نہیں کیا جا سکے گا۔
پابندی کے شکاراداروں یا شخصیات کے بیانات سوشل میڈیا پربھی اَپ لوڈ نہیں کیے جا سکیں گے۔
ترمیم کے تحت سوشل میڈیا شکایت کونسل قائم کی جائے گی۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارم کی جانب سے ہدایات پر عمل در آمد نہ ہونے کی صورت میں اتھارٹی، ٹربیونل سے رجوع کرے گی۔
پیکا ایکٹ ترمیمی بل 2025ء کے تحت ٹربیونل کا قیام عمل میں لایا گیا ہے۔ ترمیمی ایکٹ پرعمل درآمد کے لیے وفاقی حکومت سوشل میڈیا پروٹیکشن ٹربیونل قائم کرے گی۔ ٹربیونل کا چیئرمین ہائی کورٹ کا سابق جج ہوگا۔ اس کے فیصلے کوسپریم کورٹ آف پاکستان میں 60 دنوں میں چیلنج کیا جا سکے گا۔
پیکاترمیمی بل کے تحت فیک نیوز پھیلانے والے شخص کو تین سال قید یا 20 لاکھ جرمانہ عائد کیا جا سکے گا۔ سوشل میڈیا پرغیرقانونی سرگرمیوں کی تحقیقات کے لیے وفاقی حکومت قومی سائبرکرائم تحقیقاتی ایجنسی قائم کرے گی۔ اس ایجنسی کا سربراہ ڈائریکٹر جنرل ہوگا، جس کی تعیناتی 3 سال کے لیے ہوگی۔
اتھارٹی کے افسران اوراہل کاروں کے پاس مساوی پوسٹ کے پولیس افسران کے اختیارات ہوں گے۔
نئی تحقیقاتی ایجنسی کے قیام کے ساتھ ہی ایف آئی اے کا سائبرکرائم ونگ تحلیل کردیا جائے گا۔
منظور شدہ بل پیکا ایکٹ میں ایک نئی شق ’’سیکشن چھبیس (اے)‘‘ کو شامل کیا گیا ہے، جو آن لائن فیک نیوز پھیلانے والوں کے خلاف سزاسے متعلق ہے۔
فیک نیوز سوشل میڈیا پر شیئر کرنے پر اَب نہ صرف 5 سال تک کی قید اور 10 لاکھ روپے جرمانہ ہوسکتاہے، بل کہ اسے ناقابلِ ضمانت جرم بھی قراردیا گیا ہے۔
اس قانون کے تحت کارروائی کرنے کے لیے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو گرفتاری کے لیے کسی وارنٹ کی بھی ضرورت نہیں ہوگی۔
اس آرڈیننس کے خلاف احتجاج کرنے والے صحافیوں کا کہنا ہے کہ حکومت نے اس ترمیم میں فیک نیوزکی تشریح نہیں کی، جس سے اس کا غلط استعمال ہوسکتا ہے۔ واضح رہے کہ قومی اسمبلی میں الیکٹرانک کرائم روکنے کے لیے پیکا ترمیمی بل کثرت رائے سے منظور کرلیا گیا ہے، جب کہ صحافتی تنظیموں نے پیکا ایکٹ میں ترامیم کا بل مسترد کردیا ہے۔
حکومت کی کسی بھی اتحادی جماعت کی جانب سے پیکا ایکٹ ترمیمی بل 2025ء کی مخالفت نہیں کی گئی۔ صرف اپوزیشن کی جانب سے بل پیش کیے جانے سے قبل ہی واک آؤٹ کیا جا چکا تھا۔
پیکا ترمیمی بل کے خلاف صحافتی تنظیموں نے احتجاج کے ساتھ واضح اعلان کیا ہے کہ عدالت کا دروازہ بھی کھٹکھٹایا جائے گا، جہاں سے انصاف کی توقع ہے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
