موسم کی انگڑائی اور سینے کے امراض

Blogger Doctor Noman Khan Chest Specialist

سوات میں سردی کا موسم اپنے عروج پر ہے، جب کہ بارش نہ ہونے کے برابر ہے، جس کی وجہ سے موسم تبدیل ہوتے ہی سینے کی بیماریوں میں کافی اضافہ دیکھنے میں آتا ہے۔
عام طور پر ’’دمہ‘‘ اور ’’سی او پی ڈی‘‘ کے مریض اس موسم میں سخت مشکلات کا سامنا کرتے ہیں۔ واضح رہے کہ دائمی رکاوٹ پلمونری بیماری کو عام طور پر سی اُو پی ڈی کہا جاتا ہے۔
اس کے علاوہ بلڈ پریشر، دل کے مریض، شوگر کے مریض اور وہ ٹی بی کے پرانے مریض ، بھی مشکلات کا شکار ہوجاتے ہیں۔
سردیوں میں جن مریضوں کی بیماری شدت اختیار کرجاتی ہے، اُس میں ایک نئے گروپ کا اس سال اضافہ ہوجائے گا اور وہ ہے ’’کورونا کے پرانے مریض‘‘ یعنی جن کو پچھلے سال ’’کورونا‘‘ یا ’’انفلوئنزا‘‘ کی بیماری لاحق ہوئی تھی۔ ابھی یہ مرض مکمل طور پر ختم نہیں ہوا، تو اس سال سردیوں میں ’’کورونا‘‘ اور ’’انفلوئنزا‘‘ کے مریضوں میں اضافہ بھی متوقع ہے۔ ان مریضوں کو اپنی صحت کا خاص خیال رکھنے کی ضرورت ہے۔
اس مقصد کے حصول کے لیے چند احتیاطی تدابیر اختیار کرلینی چاہئیں۔ مثلاً:
٭ اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ دمے کے مریض اپنی دائمی دوائیاں ترک کرتے ہیں۔ اس کی کئی وجوہات ہیں، لیکن ان میں سے ایک وجہ دوائیوں کا مہنگا ہونا بھی ہے…… لیکن جو لوگ دوائیاں خرید سکتے ہیں، وہ بھی اکثر سستی یا بے پروائی کی وجہ سے دوائیاں چھوڑ دیتے ہیں۔
کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو مرض کی شدت کی وجہ سے بھی دوائیاں (خاص کر انہیلر) چھوڑ دیتے ہیں اور جب ہم پوچھتے ہیں کہ ’’انہیلر‘‘ یا جاری دوائیاں باقاعدگی سے استعمال کرتے ہیں؟ تو جواباً کہتے ہیں کہ چوں کہ بیماری کا حملہ ہوا، تو مَیں نے دوائیاں ترک کردیں۔ حالاں کہ جب دمے کا اٹیک ہوجاتا ہے، تو ’’انہیلرز‘‘ کا استعمال زیادہ کرنا چاہیے، نہ کہ اس کو ترک کیا جائے۔
دمے کی جاری دوائیاں استعمال کرنے سے دمہ کو کنڑول کیا جاسکتا ہے اور جو لوگ باقاعدگی سے ’’انہیلر‘‘ استعمال کرتے ہیں، اُن کو دمے کا اٹیک بہت کم ہوتاہے۔
٭ دمے کے مریض اور وہ مریض جن کو بلڈ پریشر، شوگر یا دل کی بیماری لاحق ہو، کو ہر سال سردیوں کے آغاز میں ’’فلو ویکسین‘‘ (انفلویک یا ویکسی گریپ) لگانا چاہیے، تا کہ سردیوں میں ’’وائرل انفیکشن‘‘ سے محفوظ رہا جاسکے۔
اکثر ایسا ہوجاتا ہے کہ وائرل انفیکشن ہوجاتا ہے، تو اس کے بعد بیکٹیریا آسانی سے حملہ آور ہو جاتے ہیں اور مرض کی شدت میں اچانک اضافہ ہو جاتا ہے۔
٭ وائرل انفیکشن کے علاوہ گرد و غبار سے بھی دمہ کی شدت بڑھ جاتی ہے۔ اس لیے ماسک کا باقاعدہ استعمال بہت ضروری ہے۔ آج کل تو ویسے بھی کورونا کی وجہ سے ماسک کا استعمال لازمی ہوچکا ہے۔
٭ موسم میں اچانک تبدیلی بھی دمہ کی شدت میں اضافہ کا باعث ہے، اور چوں کہ لوگ سردیوں میں آگ کا استعمال زیادہ کرتے ہیں، اس لیے دھواں بھی مریض کی مشکلات میں اضافے کا باعث بنتا ہے۔
اس کے علاوہ جو گیس کے ہیٹر استعمال کیے جاتے ہیں، وہ بھی سانس کی تکالیف میں اضافے کا باعث بنتے ہیں۔ سانس کے مریضوں کو آگ اور گیس ہیٹر کے استعمال سے بھی حتی الوسع بچنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
٭ سردیوں میں چوں کہ لوگ بند کمروں میں رہتے ہیں، تو آکسیجن کی کمی ہو جاتی ہے، جو سانس کے مریضوں کے لیے اچھی بات نہیں۔ بند کمروں میں زیادہ لوگوں کے رہنے کی وجہ سے جراثیم کا پھیلاو بھی زیادہ آسانی سے ہوجاتا ہے۔ اس لیے سانس کے دائمی مریضوں کو زیادہ لوگوں کے ساتھ رہنے سے اجتناب کرنا چاہیے۔
٭ ٹی بی کے مریض بھی بند کمرے میں دوسرے لوگوں کے ساتھ رہنے سے مرض کی منتقلی کا باعث بنتے ہیں۔
٭ سگریٹ نوشی کا مکمل بائیکاٹ کرنا بہت ضروری ہے۔ کیوں کہ جو لوگ سگریٹ پیتے ہیں، اُن پر دوائیوں کا وہ اثر نہیں ہوتا، جو سگریٹ نہ پینے والوں پر ہوتا ہے۔ سگریٹ نوشی نہ صرف سیگریٹ پینے والے پر اثر انداز ہوتی ہے، بل کہ اس کے نقصان دِہ اثرات ساتھ بیٹھنے والوں اور ساتھ رہنے والوں پر بھی پڑتے ہیں۔ سگریٹ نوشی کرنے والوں کے بیوی بچے سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔
اگر ایک شخص گھر سے باہر بھی سگریٹ پیتا ہے، تب بھی وہ سگریٹ کے ذرات اپنے ہاتھوں اور اپنے لباس کے ذریعے گھر لے جاتے ہیں۔ ہمارے ہاں تو زیادہ لوگ چرس کا استعمال بھی کرتے ہیں جو کہ خالی سگریٹ سے کئی گنا زیادہ نقصان دہ ہوتی ہے۔
٭ اس کے علاوہ کچھ لوگ پرندے پالنے کے بھی شوقین ہوتے ہیں، جن سے کچھ لوگوں کو سانس کا مسئلہ پیدا ہوجاتا ہے۔ خاص کر وہ لوگ جو پہلے سے سانس کی بیماری میں مبتلا ہوتے ہیں، وہ تو زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔
٭ تکلیف بڑھ جانے کی صورت میں بروقت علاج بہت ضروری ہے۔ ورنہ تھوڑی سی تکلیف بھی بڑے مسائل کا باعث بن سکتی ہے۔ بڑے کیا خوب کَہ گئے ہیں کہ تن درستی ہزار نعمت ہے۔ تن درست رہیں، سلامت رہیں!
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے