کبھی خواب نہ دیکھنا (اُننچاس ویں قسط)

Blogger Riaz Masood

یہ غالباً ستمبر 2011ء کا پہلا ہفتہ تھا۔ مجھے جناب فضل ربی راہی کا فون آیا، جس میں انھوں نے مینگورہ میں ان کے دفتر اور کتابوں کی دکان میں ملنے کو کہا۔ وہ میرے لیے اجنبی نہیں تھے۔ ان کے پبلشنگ ہاؤس نے جولائی 2007ء میں میری اور ڈاکٹر امیر فیاض پیر خیل کی مشترکہ طور پر لکھی ہوئی کتاب شائع کی تھی۔ مَیں نے سوچا کہ شاید وہ کسی اور کتاب کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔ چناں چہ مَیں نے اپنے ساتھ اپنی ڈائری لی، جس میں کچھ غیر مطبوعہ کلام تھا۔ جب مَیں اُن کے دفتر میں داخل ہوا اور اُنھیں تحریری نسخہ دیا، تو اُنھوں نے چند صفحات پر نظریں دوڑائیں اور اُردو اشعار پر مبنی میری کاوشوں کی تعریف کی۔ لیکن اُن کے اگلے فقرے نے مجھے حیرت میں ڈال دیا۔ اُنھوں نے مجھ سے روزنامہ آزادی کے لیے کالم لکھنے کو کہا۔ وہ اس وقت مذکورہ اخبار کے ادارتی صفحے کے انچارج تھے۔ مَیں نے کہا کہ مَیں نے کبھی ایسی کوشش نہیں کی۔ حالاں کہ مَیں نے روزنامہ انجام، پشاور میں ایک پشتو افسانہ اُس وقت لکھا تھا، جب میں صرف 14 سال کا تھا اور کچھ خط پاکستان ٹائمز اور خیبر میل کے ایڈیٹرز کو لکھے تھے 1969ء میں۔ لیکن اُنھوں نے اصرار کیا اور مجھے یقین دلایا کہ یہ کوئی بہت مشکل کام نہیں۔ مَیں نے موضوع کا پوچھا، لیکن اُنھوں نے کہا کہ جو میرے ذہن میں آئے، لکھوں۔
یوں مَیں نے اپنا پہلا کالم ’’یہ دل میں رہنے والے ‘‘ شہید شہزادہ اسفند یار باچا کے بارے میں لکھا ،جو ستمبر 2011ء میں روزنامہ آزادی میں شائع ہوا اور اس طرح میرے کالموں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔
راہی صاحب جب روزنامہ ’’چاند‘‘ میں شامل ہوئے، تو میرے کالم بھی وہاں شائع ہونے لگے۔ (’’روزنامہ چاند‘‘ میں فضل رازق شہابؔ کے کالم فضل ربی راہیؔ کے روزنامہ چاند میں جانے کی وجہ سے نہیں، بل کہ اُس وقت کے مدیر ادارتی صفحہ امجد علی سحابؔ کے جانے کی وجہ سے شائع ہونا شروع ہوئے تھے، مدیر لفظونہ ڈاٹ کام)
راہیؔ صاحب کے برطانیہ چلے جانے کے بعد انھوں نے اپنے ہونہار شاگرد امجد علی سحابؔ کو یہ کام سونپ دیا۔ مَیں نے ’’آزادی‘‘ میں کالم لکھنے کا سلسلہ جاری رکھا۔ اس طرح مذکورہ دونوں اخباروں میں، مَیں نے تقریباً 700 کالم اور 1100 سے زائد اُردو قطعات لکھے۔
مَیں نے زیادہ تر سوات کے بارے میں لکھا۔ پڑھنے والوں کا ’’فیڈ بیک‘‘ زبردست اور ہمارے تصور سے باہر تھا۔ یہ تحریریں ویب سائٹ www.zamaswat.com کے ذریعے دور دراز علاقوں میں رہنے والے سواتیوں تک پہنچیں۔ بدقسمتی سے میں یہ سلسلہ چند وجوہ کی بنا پر برقرار نہیں رکھ سکا۔ بہ صورتِ دیگر، میرے اندر مزید تحریریں پیش کرنے کی بہت زیادہ صلاحیت موجود ہے۔ بہ ہر حال، مجھے اس سلسلے میں کوئی افسوس نہیں۔ مجھے یہ سعادت البتہ نصیب ہوئی کہ مَیں نے کچھ بڑے لکھاریوں کے ساتھ ملاقات کی اور ان سے بہت کچھ سیکھا۔ ان میں سے کچھ اب بھی مجھے از حد احترام دیتے ہیں۔ حالاں کہ میں اس کا مستحق نہیں ہوں۔
مَیں فضل ربی راہی صاحب کا احسان مند ہوں، جنھوں نے مجھے پرنٹ میڈیا کی دنیا سے متعارف کرایا۔
2018ء میں، 117 کالموں پر مشتمل ایک جلد، جس کا عنوان تھا ’’عکسِ ناتمام۔‘‘ شعیب سنز، مینگورہ، راہی صاحب کے پبلشنگ ہاؤس نے شائع کیا، جو اعلا پائے کے مواد کی کتابیں شائع کرنے کے لیے جانا جاتا ہے۔
’’عکسِ ناتمام‘‘ میرے کالموں کا ’’لوگو‘‘ (logo) تھا۔ یہ کتاب میرے لڑکپن کے دوست جناب حبیب الرحمان جو کہ امریکہ میں مقیم ہیں، کی مالی امداد اور عطاء اللہ جان ایڈوکیٹ کی رہ نمائی میں شائع ہوئی۔ مَیں ان دونوں کا مقروض ہوں۔ (جاری ہے)
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے