نان کسٹم پیڈ اشیا کے نام پر آن لائن فراڈ

Blogger Rafi Sehrai

ایک بات ذہن نشین کرنے کی ہے کہ ڈیجیٹل فراڈ زیادہ تر ایسے افراد کے ساتھ ہوتا ہے، جو لالچ میں آتے ہیں۔ کبھی یہ لالچ کسی انعامی اسکیم کے نام پر دیا جاتا ہے۔ کبھی آن لائن کام کرنے کے نام پر اور کبھی سستی اشیا کے نام پر۔ اس سلسلے میں سوشل میڈیا کا آزادانہ استعمال کیا جاتا ہے۔
فیس بُک پر فراڈیوں نے باقاعدہ پیج اور گروپ بنا رکھے ہیں۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے یہ سب کچھ دیکھ کر بھی خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ یہ فراڈیے لوگوں کو 15 ہزار کی نئی الیکٹرک بائیک اور 25 ہزار کا الیکٹرک رکشہ یا 50 ہزار کی الیکٹرک کار آفر کر رہے ہوتے ہیں۔ لوگ بغیر سوچے سمجھے ان کے جال میں پھنستے چلے جاتے ہیں۔
آج کل پاکستان کے زیادہ تر شہریوں کے موبائل فون میں ’’نان کسٹم موبائل فون واٹس ایپ گروپ‘‘ چل رہے ہیں، جو غریب بچے بچیوں اور بے روزگار مزدور حضرات کو اپنے جال میں پھانسنے کے لیے بنائے گئے ہیں۔ ان گروپس میں ایڈمن سستے موبائل فونز، لیپ ٹاپ، ایل ای ڈی اور دستی گھڑیوں کی فوٹوز سینڈ کرتا ہے اور موبائل فون کی قیمت 10 ہزار، لیپ ٹاپ کی 15 ہزار، ایل ای ڈی کی 20 ہزار اور گھڑی کی قیمت 5 ہزار بتاتا ہے۔ اس طرح یہ فراڈیے غریب لوگوں کو سستی اشیا کے لالچ میں لاکر اپنے جال میں پھنسا لیتے ہیں۔ غریب لوگ لالچ میں آ کر ان فراڈیوں کو پرسنل میں ایس ایم ایس کرتے ہیں کہ ’’سر! مجھے یہ موبائل چاہیے۔‘‘ ایڈمن کی طرف سے جواب ملتا ہے کہ ’’آپ اس جاز کیش یا ایزی پیسا نمبر پر آدھی قیمت ادا کر دیں۔ باقی قیمت پارسل ملنے کے بعد ادا کر دیجیے گا۔‘‘
غریب آدمی سستی چیز ملنے کی خوشی میں مطلوبہ چیز کی ہاف قیمت ایڈمن کو سینڈ کر دیتا ہے۔ پھر ایڈمن اس کو ’’چند منٹ انتظار کرو‘‘ کا کہتا ہے کہ ’’مَیں آپ کا پارسل پیک کرواتا ہوں اور آپ کو ٹی سی ایس کی سلپ اور پارسل کی ویڈیو سینڈ کرتا ہوں۔‘‘ کچھ دیر بعد وہ آرڈر کرنے والے کو ٹی سی ایس کی جعلی سلپ بنا کر اور پارسل کی پہلے سے تیار شدہ ویڈیو سینڈ کرکے کہتا ہے کہ ’’آپ کو 24 گھنٹے میں پارسل مل جائے گا۔‘‘
وہ اس بات کی تاکید کرتا ہے کہ آپ نے ٹی سی ایس دفتر نہیں جانا۔ کیوں کہ ہمارا مال نان کسٹم ہوتا ہے۔ اس لیے ہم قانونی طور پر نہیں، بل کہ ٹی سی ایس کے مخصوص کارندوں کے ذریعے پرائیویٹ طور پر لین دین کرکے پارسل آپ تک پہنچاتے ہیں۔ اگر پارسل باقاعدہ ٹی سی ایس کروائیں، تو وہ پھر ہمارا پارسل نان کسٹم ہونے کی وجہ سے آگے نہیں بھیجتے۔ اس لیے ہمارا مخصوص ٹی سی ایس والا بندہ خود آپ سے رابطہ کرے گا۔
24 گھنٹے گزرنے کے بعد آپ کو ان فراڈیوں کا ٹی سی ایس والا جعلی نمایندہ ایک ایس ایم ایس کرتا ہے اور بولتا ہے کہ ’’سر! آپ کا پارسل میں لے کر آرہا ہوں۔ آپ مجھے ٹی سی ایس کی سلپ اور پارسل کی ویڈیو سینڈ کریں۔‘‘ کسٹمر اُس کو دونوں چیزیں سینڈ کرتا ہے، لیکن ٹی سی ایس والا دوبارہ ایس ایم ایس کرتا ہے کہ ’’سلپ میں سی این نمبر کراس ہے۔ آپ مجھے سی این نمبر سینڈ کریں گے، تو تبھی میں آپ کا پارسل آپ کے ایڈریس پر لے کر آؤں گا۔‘‘ اب کسٹمر اُس ایڈمن کو ایس ایم ایس کرتا ہے کہ ’’سر! مجھے سی این نمبر سینڈ کریں۔‘‘ تو ایڈمن جواب دیتا ہے کہ 2 منٹ انتظار کرو۔ مَیں اونر سے لے کر سی این آپ کو سینڈ کرتا ہوں۔
2 منٹ بعد ایڈمن کسٹمر کو میسج کرتا ہے کہ اُونر کی باقی والی ہاف قیمت ادا کرنے والی رہتی ہے۔ اونر کہتا ہے کہ میری بقایا آدھی قیمت ادا کریں گے، تو تبھی سی این نمبر ملے گا۔
غریب کسٹمر پھر لالچ میں آکر بقایا والی آدھی قیمت بھی اُن فراڈیوں کو جاز کیش یا ایزی پیسا کروا دیتا ہے۔ تب ایڈمن سی این نمبر سینڈ کرتا ہے، جسے کسٹمر آگے ٹی سی ایس والے کو سینڈ کر دیتا ہے۔ تب وہ بندہ بتاتا ہے کہ ادھر ابھی ہماری نان کسٹم والی گاڑی پر چھاپا پڑگیا ہے اور کسٹم سکواڈ والے گاڑی چیک کر رہے ہیں۔ ادھر آدھا گھنٹا لگ جائے گا۔
پھر آدھے گھنٹے بعد وہ ٹی سی ایس والا میسج کرتا ہے کہ کسٹم والوں نے ہمارا سارا مال پکڑ لیا ہے اور کسٹم والے ایک پارسل چھوڑنے کا 9 ہزار رشوت مانگ رہے ہیں۔ مَیں آپ کو جاز کیش یا ایزی پیسا نمبر سینڈ کر رہا ہوں۔ آپ فوراً اس پر 9 ہزار سینڈ کر دیں۔ پارسل والے دوسرے لوگ بھی قیمت ادا کر رہے ہیں۔
وہ آپ کو وائس میسج کرتا ہے کہ آپ سوچیں، اگر آپ کسٹم ادا کر دیں گے، تو آپ کو 10، 20 ہزار میں ملنے والا موبائل فون مارکیٹ میں 60، 70 ہزار میں فروخت ہوجائے گا۔ آپ کو 40، 45 ہزار پھر بھی بچ جائیں گے۔
اس طرح یہ فراڈیے چکنی چپڑی باتیں کر کے کسٹمر سے 15، 20 ہزار روپے ٹھگ کر رفو چکر ہوجاتے ہیں۔ پھر ان کے فون بند اور آپ سے تمام رابطے ختم ہو جاتے ہیں۔ اس طرح غریب آدمی ہاتھ ملتا رہ جاتا ہے۔
پاکستان کے تقریباً ہر شہر میں ایسے گروپ چل رہے ہیں اور یہ لوگ نہ جانے کہاں سے ہیں؟ اگر آپ اُن سے اُن کی شاپ یا گودام کا ایڈریس پوچھیں گے، تو وہ لوگ ہر شخص کو علاحدہ علاحدہ ایڈریس بتائیں گے۔ زیادہ تر بلوچستان کا ایڈریس ہوگا۔ کسی کو چمن بارڈر، کسی کو کوئٹہ، کسی کو گوادر،کسی کو قلعہ سیف اللہ اور کسی کو ایران بارڈر کا ایڈریس بتائیں گے۔ یہ لوگ آپ سے بہت پیارے اور میٹھے انداز میں بات کریں گے، قرانی آیتیں سنائیں گے۔ ڈی پی پر باریش عمامہ اور پگڑی پہنے تصاویر لگی ہوتی ہیں۔ ان سے متاثر ہو کر کئی لوگ ان کے چکر میں پھنس جاتے ہیں۔
حکومتی ادارے ان فراڈیوں کے خلاف موثر کارروائیوں کے ذریعے ان کا قلع قمع کرنے میں ناکام ہوچکے ہیں۔ لوگوں کو خود ہی ایسے نوسربازوں سے بچنا ہوگا۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے