دوسرے ہسپتالوں کے برعکس یہ ایک سرد، بے رحم جگہ تھی، جہاں سفید دیواریں اور تیز روشنیاں مریضوں کے بے جان چہروں پر پڑ رہی تھیں۔ ہوا میں جراثیم کُش دوا کی بُو اور مایوسی کی ایک گہری چادر تھی، جسے نرس ’’ریچڈ‘‘ اپنی پُرسکون لیکن کنٹرول کرنے والی آواز سے مزید گہرا کر رہی تھی۔ ’’چیف برومڈن‘‘، ایک طاقت ور لیکن غائب نظر آنے والا شخص ایک کونے میں کھڑا تھا، اپنے بہرے اور گونگے ہونے کے ڈرامے کے پیچھے اپنے اندر کے خوف اور شکوک کو چھپائے ہوئے۔ اُس کے ساتھ ’’بیلی بابٹ‘‘ ایک کتاب کو تھامے ہوئے تھا، جسے پڑھنے کی ہمت نہیں تھی۔ اُس کے ہاتھ کانپ رہے تھے اور اُس کی زبان پر لکنت تھی۔ ’’چیسوِک‘‘ سگریٹ کی کمی پر بڑبڑاتے ہوئے۔ اِدھر اُدھر گھوم رہا تھا، جب کہ ’’ہارڈنگ‘‘ اپنے ہی خدشات کے بوجھ تلے دبا ہوا بیٹھا تھا۔ اُس کی ذہانت بھی اُس کے اندر کے شکوک سے دھندلا گئی تھی۔ ’’مارٹینی‘‘ اپنی ہی دنیا میں کھو کر ہنس رہا تھا، جب کہ ’’سکینلون‘‘ خاموشی سے غصے میں جلتا ہوا بیٹھا تھا۔ اس کی نظریں کسی دور دراز دھماکے کے خوابوں میں گم تھیں۔ دور ایک کونے میں، ’’ایلس‘‘ اور ’’راکلی‘‘ مجسمے کی طرح کھڑے تھے۔ اُن کے دماغی آپریشن شدہ چہرے سرکشی کی قیمت کی ایک خوف ناک یاد دہانی تھے۔ کمرے میں ایک دباوو تھا، ایک نازک توازن جو اطاعت اور بغاوت کے درمیان تھا، یہاں تک کہ ’’میک مرفی‘‘ اپنی گرجتی ہوئی ہنسی اور بے فکر رویے کے ساتھ وہاں داخل ہوا۔ اُس نے خاموشی کو توڑتے ہوئے، ٹوٹے ہوئے دلوں میں اُمید کی ایک چنگاری بھڑکا دی۔
یہ ہے "One Flew Over the Cuckoo’s Nest” کی دنیا یعنی ’’کین کیسے‘‘ (Ken Kesey) کا وہ ناول، جو ہمیں معاشرے کے ’’پاگل‘‘ قرار دیے گئے افراد کی زندگی کی گہرائیوں میں لے جاتا ہے…… لیکن جیسے جیسے کہانی آگے بڑھتی ہے، یہ واضح ہو جاتا ہے کہ اصل پاگل پن مریضوں میں نہیں، بل کہ اس نظام میں ہے، جو اُنھیں کنٹرول اور دبانے کی کوشش کرتا ہے۔
ناول کا راوی ’’چیف برومڈن‘‘ جو ایک طاقت ور مقامی امریکی شخص ہے اور بہرے اور گونگے ہونے کا ڈراما کرتا ہے، اُس کی نظروں سے ہم وارڈ کو معاشرے کی ایک چھوٹی سی تصویر کے طور پر دیکھتے ہیں، یعنی ایسی جگہ جہاں انفرادیت کو کچل دیا جاتا ہے اور ہم آہنگی کو زبردستی مسلط کیا جاتا ہے۔ میک مرفی ایک شور مچانے والا، باغی آدمی ہے، جو جیل کی سزا سے بچنے کے لیے پاگل پن کا ڈراما کرتا ہے۔ وہ ایسی چنگاری ہے، جو وارڈ کو روشن کر دیتی ہے، نرس ’’ریچڈ‘‘ کے اختیار کو چیلنج کرتی ہے اور مریضوں کو اپنی انسانیت واپس لینے کی ترغیب دیتی ہے۔
ناول کا ایک انتہائی طاقت ور منظر وہ ہے، جب میک مرفی مریضوں کے لیے ماہی گیری کے ایک ٹرپ کا انتظام کرتا ہے۔ پہلی بار یہ لوگ، جن پر ’’پاگل‘‘ کا لیبل لگایا گیا ہے، آزادی محسوس کرتے ہیں۔ وہ ہنستے ہیں، ایک دوسرے کے قریب آتے ہیں اور زندگی کو محسوس کرتے ہیں۔ یہ منظر وارڈ کے جبری ماحول کے بالکل برعکس ہے، جہاں ہر حرکت پر نظر رکھی جاتی ہے، اور ہر جذبہ دبا دیا جاتا ہے۔ آج کے دور میں یہ منظر ہمارے لیے بہت گہرا پیغام رکھتا ہے۔ کتنی بار ہم اپنی زندگیوں میں معاشرتی توقعات، نوکریوں یا تعلقات کے جال میں پھنسے ہوئے محسوس کرتے ہیں؟ کتنی بار ہم حقیقی آزادی کے لمحات کی خواہش کرتے ہیں، جہاں ہم بغیر کسی خوف یا فیصلے کے اپنے آپ کو ظاہر کرسکیں؟
اگر ہم آج کے دور میں پاکستانی نظامِ تعلیم کا جائزہ لیں اور اپنے سکولوں میں زیادہ تر اساتذہ کے اپنے طالب علموں سے رویوں کو دیکھیں، تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ آج کے سکولوں میں اساتذہ طلبہ کو مکمل کنٹرول کرنا چاہتے ہیں۔ چاہے کلاس کے اندر ہو یا باہر…… ہمارے اساتذہ طلبہ کی ہر حرکت کو کنٹرول کرتے ہیں۔ کوئی بھی طالب علم نہ تو بات کر سکتا ہے، نہ ہل سکتا ہے۔ اور اگر وہ ایسا کرتا ہے، تو استادِ محترم کی انا کو ٹھیس پہنچتی ہے۔ پھر وہ اپنے شاگرد کو کسی بھی قسم کی سزا دینے سے گریز نہیں کرتے اور یہ بات تو ثابت ہے کہ ہمارے معاشروں میں اساتذہ علم پڑھاتے یا سمجھاتے نہیں، بل کہ طلبہ کو رٹواتے ہیں۔
آج کے اس جدید دور میں بھی پاکستان میں طلبہ کی ذہنی قابلیت کو پیپر میں زیادہ نمبرات حاصل کرنے پر ماپا جاتا ہے، نہ کہ ان کی سمجھ بوجھ پر۔ ہمارے اساتذہ جدید علوم اور جدید نظامِ تعلیم کی کھل کر مخالفت کرتے ہیں۔ کیوں کہ زیادہ تر اساتذہ خود بھی آج کے طلبہ کو سمجھانے سے قاصر لگتے ہیں۔ اور تو اور…… ہم آج بھی سائنس اور ریاضی کے اُصولوں، فارمولوں اور تصورات کو بورڈ پر لکھ کر بچوں سے کاپیوں میں لکھواتے ہیں اور اُن سے یاد کرواتے ہیں۔ اگر کوئی طالب علم کسی تصور کو عملی طور پر دیکھنے یا ثابت کرنے کی بات کرتا ہے، تو اسی بچے کو ٹیچر کی طرف سے ڈانٹ کے علاوہ عجیب و غریب القابات بھی ملتے ہیں۔
ویسے ہم آج بھی مارننگ اسمبلی میں بچوں سے زبردستی اسباق اور نظمیں پڑھواتے ہیں، ان کو ترانے سناتے ہیں اور دعائیں منگواتے ہیں۔ ہمارا تعلیمی نظام بس زور زبردستی اور جبر پر مبنی ہے۔ کیوں کہ ہمارا استادِ محترم اپنے آپ میں تبدیلی لانے کے لیے تیار نہیں۔ وہ خود نئی چیزیں اور جدید طریقے قبول کرنے کو تیار نہیں۔ بس رٹا لگاؤ، امتحان میں نمبرات لو اور ایک مہینا بعد سب بھول جاؤ۔
ہمارے سکولوں کا کمرائے جماعت بھی "One Flew Over the Cuckoo’s Nest” کے وارڈ کی مانند ہے، جہاں جبر ہی سے کام لیا جاتا ہے۔ طلبہ کو اپنی سوچ اور تخلیقی صلاحیتوں کا اظہار کرنے کی آزادی نہیں ہوتی اور انھیں ایک خاص ڈھانچے میں فٹ ہونے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ یہ نظام نہ صرف طلبہ کی ذہنی نشو و نما کو محدود کرتا ہے، بل کہ ان کی خود اعتمادی اور انفرادیت کو بھی کچل دیتا ہے ۔
اگر ہم اپنے تعلیمی نظام کو بہتر بنانا چاہتے ہیں، تو ہمیں بھی موجودہ دقیانوس تعلیمی نظام سے بغاوت کرنا ہوگی۔ ہمیں طلبہ کو نمبرات لینے کے لیے نہیں، بل کہ علوم سمجھانے کے لیے پڑھانا ہوگا۔ ہمیں اساتذہ کو جدید تعلیمی طریقوں کی تربیت دینے کی ضرورت ہے۔ طلبہ کو سمجھنے، سوچنے اور تخلیقی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کا موقع دینا چاہیے۔ تعلیم کا مقصد صرف نمبرات حاصل کرنا نہیں، بل کہ طلبہ کو زندگی کے چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کے قابل بنانا ہے۔ ہمیں اپنے سکولوں کو "One Flew Over the Cuckoo’s Nest” کے وارڈز کی بہ جائے، آزادی اور ترقی کے مراکز میں تبدیل کرنا ہوگا۔
مثال کے طور پر، آج کے جدید دفتری ماحول کو لیجیے۔ بہت سے ملازمین خود کو ایک مشین کا پرزہ محسوس کرتے ہیں، جو کارپوریٹ کلچر میں فٹ ہونے اور غیر حقیقی توقعات پر پورا اترنے کے لیے دباو کا شکار ہیں۔ 2021ء میں "The Great Resignation” کا ایک رجحان سامنے آیا، جہاں لاکھوں لوگوں نے بہتر کام اور زندگی کا توازن اور زیادہ معنی خیز کیریئر کی تلاش میں اپنی نوکریاں چھوڑ دیں۔ یہ بڑے پیمانے پر استعفا، ’’میک مرفی کی بغاوت‘‘ کی طرح تھا، ان نظاموں کے خلاف جو افراد کو غیر انسانی اور استحصالی بناتے ہیں۔
ناول کا ایک اور دردناک منظر وہ ہے، جب میک مرفی گروپ تھراپی کے دوران میں نرس ریچڈ کا سامنا کرتا ہے۔ وہ اس کے چالاک طریقوں کو چیلنج کرتا ہے اور شرم اور احساسِ جرم کے ذریعے مریضوں کو کنٹرول کرنے کے اس کے طریقوں کو بے نقاب کرتا ہے۔ یہ منظر آج کے دور کی طاقت کی کش مہ کش کی عکاسی کرتا ہے، یعنی چاہے وہ دفتر ہو، سکول ہو، یا خاندان۔ ہم میں سے کتنے لوگوں نے کسی اختیار والے شخص کے سامنے خاموش یا کنٹرول ہوتے ہوئے محسوس کیا ہے؟ ہم میں سے کتنے لوگوں نے میک مرفی جیسے کسی شخص کی خواہش کی ہے، جو کھڑا ہو اور کہے ، ’’بس کافی ہے؟‘‘
"MeToo” تحریک کو لیجیے، جو 2017ء میں جنسی ہراسانی اور استحصال کے خلاف ایک عالمی احتجاج کے طور پر شروع ہوئی۔ دنیا بھر کی خواتین اور مردوں نے خاموشی توڑی، طاقت ور شخصیات کو چیلنج کیا، جنھوں نے طویل عرصے سے اپنے اختیار کا استعمال دوسروں کو دبانے کے لیے کیا تھا۔ میک مرفی کی طرح ان بہادر افراد نے انصاف اور تبدیلی کا مطالبہ کرتے ہوئے سب کچھ داو پر لگا دیا۔ ان کی ہمت ہمیں یاد دلاتی ہے کہ طاقت کے سامنے سچ بولنا، چاہے کتنا ہی مشکل کیوں نہ ہو، انصاف اور ترقی کے لیے ضروری ہے۔
لیکن ناول یہ بھی دکھاتا ہے کہ بغاوت کی قیمت کیا ہوتی ہے۔ میک مرفی کی بغاوت آخرِکار اُس کے زوال کا سبب بنتی ہے۔ ایک دل دہلا دینے والے منظر میں، اُس کا دماغی آپریشن کیا جاتا ہے، ایک ایسا عمل جو اُسے اس کے سابقہ وجود کا ایک خالی خول بنا دیتا ہے۔ چیف برومڈن، اپنے دوست کو اس حالت میں دیکھ کر برداشت نہیں کر پاتا۔ میک مرفی کو اس کے دکھوں سے نجات دلانے کے لیے اسے ختم کر دیتا ہے اور پھر وارڈ سے فرار ہو جاتا ہے، اُن زنجیروں کو توڑتا ہے، جو اُسے جکڑے ہوئے تھیں۔ یہ الم ناک انجام ہمیں اس سخت حقیقت کا سامنا کراتا ہے کہ نظام کو چیلنج کرنے کی اکثر ایک بڑی ذاتی قیمت ہوتی ہے۔
حقیقی زندگی میں، ہم یہ قیمت ’’ایڈورڈ سنوڈن‘‘ یا ’’چیلسی میننگ‘‘ جیسے "Whistle-blowers” کی کہانیوں میں دیکھتے ہیں، جنھوں نے شفافیت اورانصاف کے نام پر حکومتی راز افشا کیے۔ ان کے اقدامات کی بڑی قیمت چکانی پڑی: جَلا وطنی، قید اور عوامی تنقید…… لیکن میک مرفی کی طرح، اُنھوں نے ایسی بحث کو جنم دیا، جس نے معاشرے کو اپنی اقدار اور نظاموں پر سوال کرنے پر مجبور کیا۔
تو، "One Flew Over the Cuckoo’s Nest” سے ہم کیا سیکھ سکتے ہیں؟ یہ ناول ہمیں انفرادیت کی اہمیت اور ہم آہنگی کے خطرات کی یاد دہانی کراتا ہے۔ یہ ہمیں دکھاتا ہے کہ صحت مندی کا پیمانہ یہ نہیں کہ ہم معاشرے کے سانچے میں کتنے فٹ ہوتے ہیں…… بل کہ یہ ہے کہ ہم کتنی حقیقی طور پر اپنی زندگی گزارتے ہیں؟ یہ ہم دردی اور تفہیم کی ضرورت کو بھی اُجاگر کرتا ہے۔ خاص طور پر اُن لوگوں کے لیے، جو معاشرے کے کنارے پر ہیں، یا جنھیں ’’مختلف‘‘ کا لیبل لگایا گیا ہے۔
آج کے دور میں جہاں ذہنی صحت کو اَب بھی بدنامی کا سامنا ہے، اور انفرادیت کو اکثر ہم آہنگی کے لیے قربان کیا جاتا ہے، ناول کا پیغام پہلے سے کہیں زیادہ اہم ہے۔ یہ ہمیں اُن نظاموں پر سوال اُٹھانے کی ترغیب دیتا ہے، جو ہمیں کنٹرول کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اپنے آپ کو ہونے کے حق کے لیے کھڑے ہونے کی یاد دہانی کراتا ہے۔ یہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ آزادی صرف جسمانی زنجیروں کو توڑنے کے بارے میں نہیں، بل کہ اپنے ذہن کو خوف اور فیصلے کے بوجھ سے آزاد کرنے کے بارے میں ہے۔
جب ہم "One Flew Over the Cuckoo’s Nest” کے صفحات بند کرتے ہیں، تو ہمیں اُمید کا ایک گہرا احساس اور عمل کرنے کی ترغیب ملتی ہے۔
قارئین! آئیے، ہم اپنی زندگی میں میک مرفی بنیں۔ جبر کے خلاف کھڑے ہوں اور دوسروں کو بھی ایسا کرنے کی ترغیب دیں۔ ہم چیف برومڈن کی طرح یاد رکھیں کہ اندھیرے ترین جگہوں میں بھی، روشنی تلاش کرنے اور آزاد ہونے کا ہمیشہ ایک راستہ ہوتا ہے۔
ناول ہمیں سکھاتا ہے کہ تبدیلی ہمت سے شروع ہوتی ہے، یعنی سوال کرنے، مزاحمت کرنے اور ایک بہتر دنیا کے خواب دیکھنے کی ہمت پر…… اور ایک ایسے معاشرے میں جو اکثر نرس ’’ریچڈ‘‘ کے وارڈ جتنا ہی جبری محسوس ہوتا ہے۔ یہ ہمت پہلے سے کہیں زیادہ ضروری ہے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
