(نوٹ:۔ یہ تحریر محترم فضل رازق شہابؔ کی انگریزی یادداشتوں میں سے ایک کا ترجمہ ہے، مدیر لفظونہ ڈاٹ کام)
ان دنوں ’’سنگوٹینز‘‘ تقریباً روزانہ اپنے مادرِ علمی، اس کے مشنری اسٹاف، سسٹرز، خصوصاً مدر سپیریئر اور اس کے بانی، میاں گل جہانزیب، جو ریاستِ سوات کے حکم ران تھے، کے بارے میں پوسٹ کر رہے ہیں۔ یہ پوسٹس مجھے بھی ایامِ ماضی میں لے جاتی ہیں، بل کہ ’’ناسٹلجیا‘‘ میں مبتلا کر دیتی ہیں۔ مَں سکون و اطمینان کے اُن دنوں کے بارے میں سوچنے لگتا ہوں۔ اس باوقار ادارے کا میرا پہلا دورہ آج بھی میری یادوں میں تازہ ہے۔
یہ 60ء کی دہائی کے نصف کا واقعہ ہے، جب مَیں اپنے سینئر سلیم خان کے ساتھ اس سکول میں گیا۔ ہم مدر سپیریئر کی بلاوے پر وہاں پہنچے تھے۔ وہ ہم سے آڈیٹوریم کے باہر ملی۔ آڈیٹوریم سے پیانو کی مدھر دھنیں آتی سنائی دے رہی تھیں۔ انھوں نے مکھیوں کے بارے میں شکایت کی۔ ہم نے مشورہ دیا کہ کھڑکیوں پر جالیاں (وائر گوج) لگائی جائیں، جسے انھوں نے منظور کر لیا۔ اگلے دن، ہم نے ایک بڑھئی کو تاروں کے بنڈل، لکڑی کی پٹیوں اور کیلوں سمیت سکول بھیج دیا۔
پرنسپل کے نرم لہجے نے مجھ پر گہرا اثر چھوڑا، لیکن مجھے سب سے زیادہ متاثر کن چیز عمارت کی لوکیشن اور دریا کے کنارے موجود چھوٹی سی پہاڑی کی خوب صورتی لگی جو سکول کے احاطے میں شامل تھی۔ غیر ارادی طور پر میرے ذہن میں ایک خیال آیا: ’’ماؤنٹ صیہون۔‘‘
پورا منظر کسی بائبل کی کہانی جیسا محسوس ہو رہا تھا۔ زیتون کے درختوں کی کثرت، پہاڑ کی ڈھلوان پر دیودار کے درخت اور سفید گاؤن میں ملبوس سسٹرز۔ یوں لگ رہا تھا جیسے فرشتے زمین سے کچھ اوپر ہوا میں اُڑ رہی ہیں۔
والئی سوات نے شروع ہی سے سکول کے انتظام و انصرام میں گہری دل چسپی لی۔ جب انھیں چھتوں میں رساؤ کی شکایت ملی، تو انھوں نے فوری طور پر ریاستی P.W.D کے سربراہ، محمد کریم خان، کو مسئلہ حل کرنے کا حکم دیا۔ دو بلاکس کی چھتوں پر کنکریٹ کی مضبوط تہہ بچھائی گئی اور والی صاحب نے ذاتی طور پر مرمت شدہ چھتوں کا معائنہ کیا۔
طلبہ کی تعداد میں اضافے کے ساتھ، والی صاحب نے ایک نیا بلاک تعمیر کرنے کا فیصلہ کیا، جس میں بڑے کلاس رومز، دفاتر اور ایک کشادہ سٹاف روم شامل تھا۔ تعمیر کا ٹھیکہ چارباغ کے ایک نہایت شریف انسان، سید سجاول شاہ، کو دیا گیا۔ اُن کے بیٹے، جناب مبشر شاہ، ریاستی افواج میں صوبے دار میجر تھے۔ عمارت تسلی بخش انداز میں مکمل ہوئی اور والی صاحب نے حتمی معائنہ کرتے ہوئے ہدایت دی کہ اگلے دن کلاسز کا آغاز کیا جائے۔
یہ سکول ایک ’’بڑی کامیابی‘‘ ثابت ہوا، اور ریاست بھر کے اشرافیہ کے بچے اس میں داخل ہوئے۔ احاطے میں ایک 325 فٹ گہرا ٹیوب ویل نصب کیا گیا۔ جس پہاڑی کو میں نے ’’کوہِ صیہون‘‘ سے تشبیہ دی۔ اسی پہاڑی کی چوٹی پر ایک بڑا ٹینک بنایا گیا۔
تو، میرے پیارے سنگوٹینز، مجھے بھی اپنے ساتھ شامل کرلیں۔ مَیں نے ان منصوبوں کی نگرانی کی ہے ، اور مجھے اس پر فخر ہے۔
نوٹ از مترجم:
1) پبلک سکول سنگوٹہ در اصل ایک کانونٹ (یعنی عیسائی مشنری سکول) تھا۔ کانونٹ سکولوں کا انتظام عموماً عیسائی راہباؤں (نَن) کے ہاتھوں میں ہوتا ہے۔ یہ 1965ء میں بنا تھا اور والی صاحب نے اس سکول کا نام ’’سوات پبلک سکول‘‘ تجویز کیا تھا، مگر سکول انتظامیہ کانونٹ پبلک سکول نام رکھنے پر مُصِر تھی۔ بالآخر والی صاحب کی تجویز پر ’’پبلک سکول سنگوٹہ‘‘ نام پر اتفاق ہوگیا۔ (بہ حوالہ: برادرِ محترم فریدون مسعود)
2) یاد رہے کہ اس سکول میں جو پہلا بچہ داخل ہوا، وہ مجھ سے بڑے بھائی ہمایون مسعود تھے ۔ اُن کو، پہلے سٹوڈنٹ ہونے کی بنیاد پر، فیس میں خصوصی رعایت دی گئی تھی۔ اُن سے آدھی فیس لی جاتی تھی۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
