مَیں نے زندگی کے صرف 5 سال کرایہ کے گھر میں گزارے۔ اس دوران میں 3 مرتبہ سامان اُٹھا کر ہجرت کرنی پڑی۔ مَیں مسلمانوں کے درمیان رہا ہوں، جو مقدس انسانوں کی پیدایش اور موت پر خوشی اور غمی منا کر ثواب کماتے ہیں…… لیکن حال یہ تھا کہ اکثر پانی کی موٹر نہیں چلاتے تھے کہ بجلی کا بِل زیادہ آرہا ہے، چاہے کرایہ دار واش روم جانے کو بیٹھا ہو۔ موٹر کی خرابی کا بتا کر پیسے اینٹھا کرتے تھے۔ پانی بند کردیتے تھے۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ ایسا اُس علاقے کے مکین کرتے تھے، جہاں ہر سال حضرت امام حسین کی پیاس کا نعرہ لگا کر غم منایا جاتا تھا اور مالکِ مکان خود کو امام کے بھگت کہلاتے نہیں تھکتے تھے۔
ایک فلیٹ میں جہاں میں رہا، اُس کی چھت خراب تھی۔ بارش میں پانی فلیٹ میں ٹپکا کرتا تھا۔ مالکِ مکان سے لاکھ کہو، اُس کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی تھی۔ اگر فلیٹ کا اسٹرکچر پرانا ہے، اوپر والے فلیٹ کی نالی خراب ہے اور آپ کے واش روم میں گندہ پانی قطرہ قطرہ گر رہا ہے، تو اوپر والے فلیٹ میں رہنے والوں کو کوئی فکر نہیں ہوگی کہ اس کی وجہ سے نیچے والوں کو اذیت کا سامنا ہے۔
مَیں اُس اذیت کو جانتا ہوں جو کرایہ کے گھروں میں تیسرے درجے کے ممالک میں لوگوں کو اٹھانی پڑتی ہے۔ ہر آہٹ ، ہر ڈور بیل پر دل اُچھل کر حلق میں آجاتا ہے کہ کہیں مالکِ مکان تو نہیں آیا؟ کرایہ بڑھائے گا یا مکان خالی کرنے کا کہے گا؟
اچھے بھلے علاقوں میں فلیٹس میں گاڑیوں کی غلط پارکنگ پر جھگڑے لڑائی یہاں تک مار پیٹ ہوتی مَیں نے دیکھی ہے…… لیکن اِس ملک کے لوگوں کا خدا اِن پر اتنا مہربان ہے کہ اِن کی لاکھ بری حرکتیں ہیں، مگر اِن کو وہ جنت ہی دے گا اور لاس اینجلس میں جہاں 5 لاکھ مسلمان رہتے ہیں، مساجد ہیں، یہودی ٹیمپل ہیں، چرچ ہیں، جہاں صبح شام خدا کا نام لیا جاتا ہے، وہاں آگ لگا کر لوگوں کو ناراحت کرے گا۔
گجرات میں اسکول وین میں آگ لگی، بچے جل گئے، احمد پور شرقیہ میں ڈیزل کو مالِ غنیمت کی طرح سمیٹتے اہلِ ایمان جل گئے، لیکن وہ خدا کا عذاب نہیں تھا۔ لاس اینجلس کی آگ خدا کا عذاب ہے۔
آفت کو شعور نہیں ہوتا، انسان کے پاس شعور ہے، وہ آفت کے بعد ایک نئے عزم سے کھڑا ہوتا ہے اور ایسی آفت کو دوبارہ ہونے سے روکتا ہے، جیسے جاپان میں زلزلوں کی وجہ سے زلزلہ پروف گھر بنائے گئے۔
لاس اینجلس میں لگی آگ ٹھنڈی ہوجائے گی، مکان دوبارہ بن جائیں گے، قوانین بنا کر مستقبل میں ایسے واقعات کو روکا جائے گا، لیکن میں سوچتا ہوں کہ ’’وہ آگ جو بے شعور لوگوں کے دلوں میں لگی ہے، وہ کیسے ٹھنڈی ہوگی؟‘‘
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
