کبھی خواب نہ دیکھنا (بیالیس ویں قسط)

Blogger Riaz Masood

1985ء میں دریائے سوات میں شدید سیلاب آیا۔ سیلاب کے نقصانات کے خلاف یہ میرا پہلا مقابلہ تھا۔ میرا سیکشن خاص طور پر بہت زیادہ متاثر ہوا۔ ایوب پل کو بچانے والے پشتے بہہ گئے اور آدھی رات کو سیلابی پانی پولیس لائنز میں داخل ہوگیا۔ پولیس والے ریاستی دور کے ریسٹ ہاؤس کی چھتوں پر چڑھ گئے اور اپنی جان اور کاغذات کا کچھ حصہ بچانے میں کام یاب رہے۔ میرا "S.D.O” اُس وقت مردان کا ایک عبدالاحد خان تھا، جو ایک بہت ہی قابل اور باصلاحیت انجینئر تھا۔ اسے اپنے دائرۂ اختیار میں آنے والے علاقے میں دیگر نقصانات کا بھی سامنا تھا، اس لیے اس نے جیپ خود سنبھال لی اور مجھ سے یومیہ اجرت پر سوزوکی وین کرایہ پر لینے کو کہا۔
وائٹ پیلس سے کچھ فاصلے پر آخری کلومیٹر میں مرغزار روڈ کو بھی نقصان پہنچا۔ مَیں نے اپنے سیکشن کے ورکر اور روڈ عملے کو جمع کیا اور گائیڈ بند کے تاروں کے کریٹس کو بھرنے کے لیے پتھر وغیرہ جمع کرنے لگے۔ "C&W” چیف نے ہنگامی بنیادوں پر 100 ملین روپے کے گیبئن (Gabions) خریدے۔ انھوں نے سپلائی کرنے والے سے کہا کہ وہ سوات کو 10 ملین روپے کے گیبئن فراہم کرے اور اس کی رقم ہمارے دفتر سے وصول کرے۔
مَیں نے ایک وکیل صاحب کے ایک پلاٹ میں ذاتی تعلق کی بنا پر بغیر کسی کرائے کے ان گیبئنز کو ذخیرہ کرلیا اور قیمت کی ادائی کر دی۔ یہ گیبئن بہتے سیلابی پانی سے لڑنے میں بہت مدد گار تھے۔ جیسا کہ ان میں سے کچھ کو 1985ء کے سیلاب میں بہت سے نقصانات میں استعمال کیا گیا تھا اور کچھ کو ہنگامی طور پر استعمال کے لیے ذخیرہ کرلیا گیا۔
یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ سپلائر نے ہمارے دفتر کو کوئی کمیشن نہیں دیا، جو اس وقت کم از کم 1,80,000 روپے بنتا تھا۔ بہ ہر حال، یہ پہلے سے تیار گیبئن مون سون کے سیلابوں میں بہت مددگار ثابت ہوئے۔
اس دوران میں ہم رشتہ داروں کے گھر رہتے ہوئے بڑی پریشانیوں کا سامنا کر رہے تھے۔ ہمارے آبائی گھر میں کچھ چار کمرے تعمیر کیے گئے، لیکن پورے خاندان کے رہنے کے لیے تب بھی کافی نہیں تھے۔ میرے بڑے بھائی نے گاؤں کے دوسرے سرے پر چار ہزار مربع فٹ پر اپنا گھر بنایا تھا۔ مَیں اپنا گھر بنانا چاہتا تھا، لیکن اصل مسئلہ مناسب زمین کا تھا۔ مین روڈ پر ہمارا دو کنال کا پلاٹ تھا۔ باقی زمینیں سڑک سے بہت دور تھیں۔
میری والدہ نے میرے دوسرے بھائیوں سے مطالبہ کیا کہ وہ اس دو کنال کے پلاٹ میں اپنا حصہ میرے لیے چھوڑ دیں۔ چناں چہ مَیں نے اس پلاٹ پر دو بیڈ رومز، ایک گیسٹ روم، ٹی وی لاؤنج اور کچن کی تعمیر شروع کی۔ گھر کا نقشہ غیر کتابی اور عام لوگوں کے لیے عجیب تھا۔ مَیں نے اسے اگست 1987ء میں مکمل کرایا اور ہم فوراً اس میں شفٹ ہوگئے۔ ہم نے اپنے پرانے گھر سے اپنے ساتھ کچھ بھی نہیں لیا اور صرف اپنے کپڑے لے کر نئے گھر شفٹ ہوگئے۔ مَیں نے اپنے نئے گھر کو اپنی مقدور بھر گنجایش کے مطابق سجایا۔
نیا مکان ہمیں بشمول فرنیچر اور کچن کے سامان، ٹی وی اور فریج سمیت، صرف 200,000 روپے میں پڑا۔ تب ہم بہت خوش تھے۔ میرے بچے بھی کھیلنے کے لیے وسیع جگہ سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔ میرے چھوٹے بیٹے احسان کو توتے پالنے کا شوق تھا، تو ہم نے ایک بڑا پنجرہ بنوایا، جس میں 20 سے زیادہ چھوٹے توتے تھے۔
ہائی وے سب ڈویژن میں میرا دور اپنے آپ میں ایک ایڈونچر تھا۔ مون سون میں، مَیں زیادہ تر وقت متحرک رہتا تھا۔ میرا ایک دن دریائے سوات میں ایوب پل کے بالائی طرف سرکش دریا کو ایک رُخ پر لانے میں لگتا، تو دوسرے دن وادئی مرغزار یا ملم جبہ ٹاپ پر۔ میرے لیے مشکل ترین دن وہ ہوتے، جب جنرل فضلِ حق سوات کا دورہ کرتے۔ وہ سوات کے لیے اجنبی نہیں تھے۔ اُن کے والد پیر فضلِ حق نے بھی سابق ریاست میں سوات کے حکم ران کے ساتھ خدمات انجام دیں۔ وہ دہرہ دون ملٹری سکول میں ولی عہد میاں گل اورنگزیب کے بیچ میٹ تھے۔ انھوں نے ایک ساتھ کئی جنگی مشقوں اور تربیتی کورسز میں حصہ لیا تھا۔ ان کی بہن کی شادی سید یوسف علی شاہ ڈائریکٹر ایجوکیشن ریاستِ سوات سے ہوئی تھی۔ مختصراً وہ سوات کے لیے ایک جانی پہچانی شخصیت تھے۔
جنرل صاحب مین روڈ سے کوئی 10 کلومیٹر دور، ایک مقامی خان کی شکارگاہ میں تیتروں کا شکار کیا کرتے۔ اُس خان نے شکار گاہ کے اوپری حصے تک جیپ کے سفر کے قابل ایک تنگ ٹریک بنایا تھا۔ یہ گہری گھاس سے ڈھکی ایک ڈھلوان پہاڑی تھی۔ خان کے سخت کنٹرول کی وجہ سے کوئی اسے کاٹنے کی جرأت نہیں کرسکتا تھا۔
مَیں صبح کے وقت روڈ ورکرز کے ایک گروپ کو جیپ میں اوزاروں کے ساتھ لے جاتا اور ہر روز شام کو ان کے گاؤں واپس چھوڑ دیتا تھا۔ خان صاحب اکثر اوقات کام کا جائزہ لینے کے لیے تشریف لاتے تھے۔ ستم ظریفی یہ تھی کہ اس نے ہم سے کبھی نہیں پوچھا کہ میں ان لوگوں کو کہاں سے کھلاتا پلاتا ہوں؟ مَیں اپنی جیپ قریبی بازار بھجواتا اور اپنے اور عملے کے لیے کباب اور روٹیاں خرید لاتا تھا۔ یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ ایک دن مین روڈ پر کام کرتے ہوئے سڑک کے کنارے رہنے والے ایک شخص نے تمام مزدوروں کو دوپہر کا کھانا کھلایا۔ کھانے کے بعد چائے بھی پلائی۔ مجھے اب بھی یاد ہے کہ جب وہ بھوکے کارکن اس کی مہمان نوازی سے لطف اندوز ہو رہے تھے، تو وہ کتنا خوش اور مطمئن تھا۔ وہ ننگولئی کا محمد امین تھا۔ اس کی روح شاد ہو۔
نوٹ از مؤلف و مترجم:۔گیبئن ایک ڈھانچا ہوتا ہے، جو تاروں کے جال سے بنے ہوئے ٹوکروں پر مشتمل ہوتا ہے۔ انھیں پتھروں یا کنکریٹ جیسے مواد سے بھرا جاتا ہے۔ یہ عام طور پر سول انجینئرنگ اور تعمیرات میں مختلف مقاصد کے لیے استعمال ہوتے ہیں، جیسے کٹاو کو روکنا، دیواروں کو سہارا دینا، دریا کے کنارے کو مستحکم کرنا اور ڈھلوان کو مضبوط کرنا۔
گیبئن کو اس کی مضبوطی، لچک اور پانی گزرنے کی صلاحیت کی وجہ سے پسند کیا جاتا ہے، جو زمین کو اپنی جگہ پر رکھتا ہے اور ارد گرد کے علاقے کو مستحکم کرتا ہے۔
یہ ماحول دوست ہے اور لاگت بھی کم آتی ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ قدرتی طور پر ماحول میں گھل مل جاتا ہے۔ کیوں کہ پودے اس کے پتھروں کے درمیان اُگ سکتے ہیں۔
آپ نے تھانوں،ضلعی و سرکاری دفاتر کے آگے یہ گیبئن دیکھے ہوں گے۔ اس میں استعمال ہونے والا جی آئی وائر موٹے گیج کا ہوتا ہے جسے 8 نمبر کہتے ہیں۔ (جاری ہے)
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے