جنگ ایک کاروبار ہے۔ ایک بہت ہی منافع بخش کاروبار، بل کہ اسے ایک صنعت کَہ لیں۔ دیگر صنعتوں کی طرح اس پر بھی اُن قوتوں کی اجارہ داری ہے، جنھوں نے علم و ہنر میں امتیازی مقام حاصل کیا ہوا ہے۔ یہ کوئی راز نہیں کہ ہم عصر دنیا میں علم و ہنر کی بادشاہی کن ممالک کی ہے، ممکن ہے ماضی میں رہنے والے اس دلیل کے جواب میں درخشندہ ماضی کی کہانیوں کو سامنے لائیں، یا آج کی تاریخ میں افغانستان میں طالبان کی ’’فتح‘‘ کی بات دہرائیں کہ کس طرح بے سر و سامانی میں امریکہ اور اتحادیوں کی شکستِ پاش ہوئی…… لیکن اس طرح کہنے والے ذہنی پستی کا شکار ہوسکتے ہیں۔ کیوں کہ بہ قائمی ہوش و حواس جائزہ لیا جائے، تو پتا چلتا ہے کہ ’’افغان جنگ‘‘ میں زیادہ نقصان افغانیوں ہی کا ہوا ہے، نہ کہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کا۔چاہے نقصان انسانی جانوں کے حوالے سے ہو یا معاشی اور دیگر اُمور کے حوالے سے۔ مذکورہ 20 سالہ جنگ میں امریکہ آج بھی دنیامیں بہ ظاہر واحد ’’تھانے دار‘‘ نظر آرہا ہے، جب کہ طالبان خود ساختہ فتح کا تمغا سینے پرسجائے کوئی بھی معاملہ سلجھانے سے معذور نظر آرہے ہیں۔ خواہ وہ معاشی مسئلہ ہو ہو، یا بشری حقوق کا سنگین مسئلہ۔
امریکہ کے جانے کے بعد بہ ظاہر عام افغانی کی زندگی زیادہ مشکل ہوتی ہوئی دکھائی دے رہی ہے۔ یہ معاملہ صرف افغانستان یا کسی اور ملک تک محدود نہیں، بل کہ یہ اُس عالم گیر کاروباری ذہنیت کا جال ہے، جس میں جنگ کو ایک صنعت کا درجہ دیا گیا ہے اور بارود کو جنسِ بازار بنایا گیا ہے۔ پوری دنیا ان کاروباریوں کے لیے منڈی ہے۔ ان کے اختیارات اتنے وسیع ہیں کہ وہ خریدار بھی خود چنتے ہیں۔ کس کو کیا چیز کس قیمت پر فروخت کرنی ہے، یہ فیصلہ بھی بیچنے والا کرتا ہے، نہ کہ خریدار۔
جنگ کی اس صنعت میں ترقی اتنی ہوئی ہے کہ اَب فروخت کرنے والا، خریدار کے ساتھ یہ بھی طے کرتا ہے کہ جو اسلحہ اور بارود مَیں آپ کو بیچ رہا ہوں یہ کس کس کے خلاف استعمال نہیں کیا جائے گا؟
جیسا کہ یہ بات عام ہے کہ امریکہ سے پاکستان کوملنے والے F-16 طیاروں کی فراہمی میں ایک شرط یہ بھی تھی کہ ان طیاروں کو بھارت کے خلاف استعمال نہیں کیا جائے گا۔ اگر واقعی ایسی کوئی شرط تھی، تو یہ بیچنے والوں کی شاطر دماغی کی دلیل ہے۔ کیوں کہ پاکستان کو تاریخی طور پر خطرہ بھارت ہی سے ہے۔ اَب اگر پاکستان کے ساتھ اسلحہ ہے اور اُس کو بہ وقتِ ضرورت بھارت کے خلاف استعمال نہ کرے، تو اس کا فائدہ کیا…… لیکن عالمی جنگی صنعت میں ایسا ہوتا ہے۔ حالیہ روس یوکرائین جنگ میں جب یوکرائن نے کچھ اچھے رینج کے امریکی ساختہ میزائلوں کا استعمال کیا، تو ایک طرف روس نے اس کا بہت برا منایا اور اس کو بہ راہِ راست امریکی جارحیت کہا، جب کہ دوسری طرف امریکہ نے بھی یوکرائن کی حکومت کو متنبہ کیا کہ بغیر اجازت کے امریکی میزائل کیوں روس کے خلاف استعمال کیے؟
یوں کُل ملا کے یہ کہا جاسکتا ہے کہ بارود کے کاروبار میں ہر حوالے سے بیچنے والا ہی فائدہ مند ہوتا ہے، جب کہ خریدار کے لیے خسارہ ہی خسارہ ہے۔معاشی بھی اور جانی بھی۔
ابھی پچھلے ہفتے امریکہ نے اسرائیل کے لیے مزید کئی ارب ڈالر کی جنگی امداد کااعلان کیا ہے۔ اس کے بعد اسرائیل نے ’’گریٹر اسرائیل‘‘ کے تصوراتی نقشے کو دوبارہ جاری کیا ہے، جس میں پورا فلسطین، لبنان، اُردن، مصر، شام، ترکی، متحدہ عرب امارات اور سعودیہ تک کے کچھ علاقے شامل ہیں۔
اب ’’گریٹر اسرائیل‘‘ بنتا ہے یا نہیں…… مگر اس بہانے مذکورہ ممالک مجبور ہوں گے کہ اپنے دفاع کے لیے جدید ہتھیار خریدیں۔ ان ممالک میں ترکی کے علاوہ کوئی بھی ملک ایسا اسلحہ تیار نہیں کرسکتا، جو قابلِ ذکر ہو۔ لہٰذا ان ممالک کا اس معاملے میں حسبِ معمول مغربی جنگی صنعت پر انحصار ہوگا۔ یوں مغربی جنگی صنعت کے مالکان گھر بیٹھے کھربوں ڈالر کمالیں گے۔ وہ بھی خون کا ایک قطرہ بہائے بغیر۔ کیوں کہ اس اسلحے سے جو جنگیں لڑی جاتی ہیں، وہ میدان ان کاروباری ممالک خاص کر امریکی سرحدات سے کافی دورہیں۔ لہٰذا خون جس کا بہے گا، وہ کسی اور براعظم کا باشندہ، بل کہ کسی غریب ملک کاباشندہ ہوگا۔ لہٰذا وہ خون اتنا قیمتی نہیں ہوگا، جتنا مغرب کی عالمی جنگی صنعت قیمتی ہے۔
کچھ ماہرین کا تو کہناہے کہ میک اَپ انڈسٹری کے بعد سب سے زیادہ منافع بخش انڈسٹری جنگی سازوسامان کی ہے، جس میں ڈھیر سارا پیسا اور تنوع موجود ہے۔
دنیا بھر میں جہاں جہاں بدامنی کا راج ہے، اُس کے پیچھے ان کاروباریوں کا ہاتھ ہے۔ اپنے ملک کا بھی جائزہ لینا چاہیے۔ کیوں کہ ہر روز بدامنی کے واقعات ہوتے ہیں۔ فوج کے جوان اور عام لوگ شہید ہو رہے ہیں۔ کہیں ’’پالیسی سازوں‘‘ کی مذکورہ کاروباریوں کے ساتھ ’’شراکت داری‘‘ تو نہیں……؟
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
