2005ء کے تباہ کن زلزلے کے دوران میں پاکستان کو دنیا بھر سے امداد ملی، لیکن امریکی امداد اپنی وسعت اور اثرات کے اعتبار سے نمایاں رہی۔ امریکی حکومت نے نہ صرف مالی امداد فراہم کی، بل کہ اپنی فوجی اور طبی ٹیموں کو بھی متاثرہ علاقوں میں بھیجا۔ امریکی ہیلی کاپٹروں نے دور دراز علاقوں تک امدادی سامان پہنچایا، فیلڈ ہسپتال قائم کیے اور لاکھوں متاثرین کو فوری مدد فراہم کی۔ یہ تمام اقدامات انسانی ہم دردی کے جذبے کے تحت کیے گئے، مگر اس کے ساتھ ساتھ یہ عمل دونوں ممالک کے تعلقات کو بہتر بنانے کی سفارتی حکمت عملی کا حصہ بھی تھا۔
آج، 2025ء میں، جب امریکہ خود قدرتی آفات جیسے جنگلاتی آگ کا شکار ہے، تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا امریکہ اپنی داخلی مشکلات سے نمٹنے کے لیے وہی شدت دکھا رہا ہے، جو اُس نے 2005ء میں پاکستان کے لیے دکھایا؟ اور کیا دنیا، جو کبھی امریکہ سے مدد کی امید رکھتی تھی، اَب اس کے لیے اسی طرح کا کردار ادا کر رہی ہے؟
یہاں ایک اور پہلو بھی اہم ہے: مسلم دنیا میں امریکہ کے خلاف بڑھتے ہوئے جذبات۔ 2005ء میں امریکی امداد کو انسانی ہم دردی اور تعلقات کی بہتری کی کوشش سمجھا گیا تھا، لیکن فلسطین، عراق اور افغانستان میں امریکی مداخلتوں نے ان مثبت جذبات کو ختم کر دیا۔ یہی وجہ ہے کہ آج جب امریکہ قدرتی آفات کا سامنا کر رہا ہے، تو مسلم دنیا کے کچھ حلقے ان واقعات کو ایک طرح کی ’’مذہبی یا سیاسی سزا‘‘ کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔
یہ تضاد ایک اہم سوال کو جنم دیتا ہے کہ کیا انسانی ہم دردی واقعی غیر مشروط ہوتی ہے یا یہ سیاسی ایجنڈوں اور ماضی کے تنازعات سے جڑی ہوتی ہے؟
٭ ماضی کے سبق اور حال کا تناظر:۔ 2005ء کے زلزلے نے جہاں عالمی برادری کو متحد کیا، وہاں اس نے امریکہ کو پاکستان جیسے ممالک کے قریب لانے میں مدد دی، لیکن اس کے بعد کی امریکی پالیسیاں، خاص طور پر مسلم دنیا میں فوجی مداخلتیں، ان مثبت اثرات کو زائل کرگئیں۔ نتیجتاً، آج جب امریکہ خود ایک بحران میں ہے، تو اسے ہم دردی کے بہ جائے تنقید اور بے حسی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اسی طرح، 2005ء کے زلزلے کے دوران میں پاکستان میں تحریکِ طالبان سوات نے بھی قدرتی آفت کو اپنے نظریات کے فروغ کے لیے استعمال کیا۔ فضل اللہ نے اس زلزلے کو ’’عذابِ خداوندی‘‘ قرار دے کر عوام میں خوف اور مذہبی شدت پسندی کو بڑھاوا دیا۔ اس کی قیادت میں طالبان نے متاثرہ علاقوں میں امدادی سرگرمیاں انجام دیں، مگر اس کا مقصد اپنی سیاسی اور نظریاتی گرفت مضبوط کرنا تھا۔ نتیجتاً، یہ زلزلہ ایک انسانی المیے کے ساتھ ساتھ شدت پسندی کے فروغ کا بھی سبب بنا۔
٭ انسانی ہم دردی کا دوہرا معیار:۔ 2005ء کا زلزلہ اور 2025ء کی جنگلاتی آگ ہمیں یہ سکھاتی ہیں کہ انسانی ہم دردی اکثر سیاسی ایجنڈوں سے متاثر ہوتی ہے۔ جہاں 2005ء میں امریکی امداد ایک مثبت تاثر پیدا کرنے میں کام یاب رہی، وہیں بعد کی پالیسیاں اس تاثر کو ختم کرگئیں۔ دوسری جانب، مسلم دنیا کے لیے یہ موقع ہے کہ وہ ماضی کی تلخیوں سے بالاتر ہو کر انسانی ہم دردی کا مظاہرہ کرے۔ اگر امریکہ اور مسلم دنیا دونوں ان مواقع سے سیکھ کر اپنی پالیسیوں کو زیادہ انسانی اور غیر سیاسی بنائیں، تو یہ نہ صرف باہمی تعلقات، بل کہ عالمی امن کے لیے بھی بہتر ہوگا۔
یہ واقعات ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ انسانی ہم دردی اور تعلقات کی بنیاد سیاست کے بہ جائے اخلاقیات اور حقیقی ہم دردی پر ہونی چاہیے۔ صرف اسی طرح دنیا حقیقی معنوں میں قدرتی آفات اور بحرانوں کا مقابلہ کرسکتی ہے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
