(نوٹ:۔ یہ تحریر محترم فضل رازق شہابؔ کی انگریزی یادداشتوں میں سے ایک کا ترجمہ ہے ، مدیر لفظونہ ڈاٹ کام)
فوج ریاست کی قوت کا بنیادی ذریعہ اور طاقت کی علامت ہوتی ہے۔ بادشاہ صاحب (میانگل عبدالودود) بھی مستقل اور باقاعدہ فوج کے قیام میں خصوصی دل چسپی رکھتے تھے، لیکن انھیں عبد الجبار شاہ (سوات کے خود ساختہ بادشاہ) کے خلاف جد و جہد میں ’’قامی لشکر‘‘ (قومی لشکر) پر انحصار کرنا پڑا۔ ’’قامی لشکر‘‘ نے اپنے ذاتی ہتھیاروں اور گولہ بارود کے ساتھ لڑائیاں لڑیں۔ عام لوگوں نے نہ صرف افرادی قوت فراہم کی، بل کہ لشکر کے لیے گدھوں اور خچروں پر راشن بھی محاذوں تک پہنچایا۔ عبدالجبار شاہ کو ہٹانے کے بعد، بادشاہ صاحب نے مستقل فوج کے قیام کا آغاز کیا۔ انھوں نے وزیر (حضرت علی) کے چھوٹے بھائی احمد علی کو سپہ سالار یعنی فوج کے سربراہ کے طور پر منتخب کیا۔ انھیں سردار کا خطاب دیا گیا اور اس کے بعد انھیں ’’سردار احمد علی خان‘‘ کے نام سے جانا جانے لگا۔ رینک کی درجہ بندی درجِ ذیل ترتیب میں کی گئی:
٭ سپہ سالار۔
٭ نائب سالار۔
٭ کمان افسر۔
٭ صوبیدار میجر۔
٭ صوبیدار۔
٭ جمعدار۔
٭ حوالدار۔
٭ سپاہی۔
بادشاہ صاحب نے تمام طبقات سے قابل اور بہادر لوگوں کا انتخاب کیا اور رینک کو صرف معززین تک محدود نہیں رکھا۔ نچلے طبقے کے پُرجوش اور ذہین لوگوں کو بھی اعلا رینک سے نوازا گیا، جیسے مختلف خیلوں کے خاندانی سردار۔
ہم دیکھتے ہیں کہ اعلا رینک کے افسروں میں موسیٰ خیل، ابا خیل، نیکپی خیل، شموزئی، بابوزئی اور دوسرے قبیلوں کے سرداروں کے ساتھ ساتھ سید، میاں، جولاہوں اور دیگر ذاتوں کے لوگ بھی شامل تھے۔ بھرتی کے لیے کسی تربیتی کورس یا تعلیم کی ضرورت نہیں تھی۔ لوگ اپنی باپ دادا کے زمانے سے لڑائیاں لڑتے پروان چڑھے تھے اور ہر ایک، بہ شمول خواتین، ہتھیاروں کے استعمال سے واقف تھے۔ یہ ہتھیار سادہ، اور سنگل فائر پستول تھے۔ عام لوگوں کے پاس خودکار ہتھیار نہیں تھے۔ البتہ بادشاہ صاحب نے کسی نہ کسی طرح خودکار غیر ملکی پستول، چند مشین گن، فیلڈ آرٹلری، سگنل اور وائرلیس کے آلات وغیرہ فراہم کروائے۔ یوں ان ہتھیاروں کی شروعات ہوئی اور وقت کے ساتھ ساتھ جدید ہتھیار جیسے کاربین، سٹین گن، تھری ناٹ تھری، مارک 5 رائفلیں اور جرمن ساختہ پستول حاصل کیے گئے۔ ہلکے 25 اور 38 بور کے پستول سپین، اٹلی اور برطانیہ سے درآمد کیے گئے۔ شکار کے لیے برطانوی کمپنی ’’ویبلی اینڈ سکاٹ‘‘ کی تیار کردہ چھری دار دو نالی بندوقیں (شارٹ گن) بھی خریدی گئیں اور افسران اور وفادار سرداروں میں تقسیم کی گئیں۔
جب والی صاحب کو پہلی بار سپہ سالار مقرر کیا گیا، تو انھوں نے ریاستی فوج میں بنیادی تبدیلیاں شروع کیں۔ رینک اور فائلز کے لیے مناسب یونیفارم متعارف کرائے گئے، جن کے کندھوں پر نشانات لگے تھے۔ دفتری ٹوپیاں برطانوی طرز پر دوبارہ ڈیزائن کی گئیں۔ ان پر بھی ریاستی نشان تھے۔ ہر ایک فرد کا مکمل ریکارڈ بڑے رجسٹروں میں رکھا جاتا تھا۔ افسران اب بھی زیادہ تر بااثر خاندانوں سے تھے، جو کیپٹن سے صوبیدار کی رینک تک تھے۔
جب مستقل امن ہوگیا، تو والی صاحب نے بھاری فوج کو سڑکوں اور پلوں کی تعمیر وغیرہ کے لیے استعمال کیا اور اپنی حکومت کے آخری دن تک فوج کو برقرار رکھا۔ ممکنہ طور پر 1958/1960ء میں، کچھ اعلا رینک کے افسران کو پاکستانی فوج کے افسران کے ساتھ کورس کرنے کے لیے ’’آرمی آفیسرز ٹریننگ سکول، کوہاٹ‘‘ (O.T.S) بھیجا گیا۔ جن افسران کے نام مجھے یاد ہیں، وہ ہیں: عمرا خان، نائب سالار کوکارئی، کمانڈر شجاع الملک خان، کمانڈر فاروق خان اوڈیگرام، کمانڈر حاجی نواب خان غالیگے اور کمانڈر سرفراز خان مینگورہ۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
