(نوٹ:۔ یہ تحریر محترم فضل رازق شہابؔ کی انگریزی یادداشتوں میں سے ایک کا ترجمہ ہے ، مدیر لفظونہ ڈاٹ کام)
سنہ 1858ء میں سید مبارک شاہ (سوات کے اولین بادشاہ سید اکبر شاہ کے بیٹے) سوات سے رخصت ہوئے اور 1915ء میں عبدالجبّار شاہ کو نیک پی خیل اور سبوجنی کے جرگے نے بادشاہ مقرر کر دیا۔ سنہ 1858ء اور 1915ء کے اس درمیانی دور کو، جو کم و بیش 57 سال پر محیط ہے، ’’دَ پختو زمانہ‘‘ (پختو کا دور) کہا جاتا ہے۔
یہ 57 سالہ ’’انارکی‘‘ کا دور تھا، جس میں عملی طور پر ’’جس کی لاٹھی اس کی بھینس‘‘ کا قانون نافذ تھا۔ نسلی اور طبقاتی تفریق اپنی بدترین شکل میں موجود تھی۔ غیر پشتونوں کو معاشرے کا دوسرے درجے کا طبقہ تصور کیا جاتا تھا۔ کچھ خاندان جو مذہبی بزرگوں سے تعلق کا دعوا کرتے تھے، انھیں کچھ احترام دیا جاتا تھا۔ انھیں زمین رکھنے کا حق بھی حاصل تھا، تاہم انھیں جرگے میں شامل نہیں کیا جاتا تھا۔ البتہ وہ ’’خیلوں‘‘ کے جھگڑوں میں ثالث کا کردار ادا کرسکتے تھے اور ’’سفید چادر‘‘ لہرا کر جنگ بندی کروا سکتے تھے۔ غرض یہ کہ انھیں بھی سوات کے بے قانون معاشرے میں دوسرے درجے کا شہری سمجھا جاتا تھا۔
اس کے بعد مولویوں کا طبقہ تھا۔ مولوی مسجد میں پانچ وقت کی نماز کی امامت کرتے، قرآن کی تعلیم دیتے اور کچھ دیگر مذہبی فرائض انجام دیتے تھے۔ انھیں اگر ایک طرف احترام دیا جاتا تھا، تو دوسری طرف ان سے نفرت بھی کی جاتی تھی۔ خود کو ’’اصل نیلے خون والے پشتون‘‘ کہنے والے ان کے ساتھ اپنے رویے میں یک ساں نہیں تھے؛ کبھی انھیں صاحب کہا جاتا اور کبھی وہ ’’یا ھلکہ ملا‘‘ ہوجاتے۔ ان کی مسجد میں موجودگی اس ’’خیل‘‘ کی مرضی پر منحصر تھی، جو مسجد کی مالکیت کا دعوا کرتی تھی، جیسے کہ باس خیل مسجد، خاتون خیل مسجد وغیرہ۔ پیش امام ایک پریشان حال طبقہ تھا۔ وہ بہ مشکل گزارا کرتے تھے۔ وہ اپنے بیٹے کے لیے صرف ’’امامت‘‘ اور پشتونوں کی دی ہوئی زمین چھوڑ کر جاتے تھے۔ ایسی زمین، جس سے وہ تمتع تو کرسکتے تھے مگر، جس پر ان کا کوئی ملکیتی حق نہیں ہوتا تھا۔
متفرق پیشوں سے وابستہ افراد جیسے بڑھئی، لوہار، سنار، پراچہ اور ’’غریب‘‘، سماجی طور پر مزید نچلے درجے میں آتے تھے۔ ’’غریب‘‘ کا کوئی گھر یا زمین نہیں ہوتی تھی۔ وہ مکمل طور پر خان کے زیرِ اثر ہوتے تھے اور ہر پشتون کو خان سمجھا جاتا تھا، بل کہ در حقیقت آج بھی ایسا ہی ہے۔
میانگل خاندان کے اقتدار میں آنے سے معاشرتی اقدار میں زیادہ تبدیلی نہیں آئی۔ تب بھی طبقاتی نظام میں ایک معمولی سی خوش گوار بہتری دیکھنے کو ملی۔ ریاستی نوکریوں میں پشتونوں کو ترجیح دی جاتی اور انھیں ’’محاجب خور ملک‘‘ بنایا جاتا…… لیکن بادشاہ صاحب نے جان بوجھ کر یا پھر شاید قدرتی طور پر اعلا عہدوں پر دیگر ذاتوں کو ترجیح دی۔ اس دور کے نمایاں ناموں میں ہمیں چترال کے وزیروں، سپہ سالاروں، سیکرٹریوں، کمان افسران اور کمانڈروں کے بڑے بڑے نام ملتے ہیں، جو پشتونوں کی دانست میں ’’غیر پشتون‘‘ تھے۔
یہ تبدیلی ان غیر پشتونوں کے لیے ایک بڑی کام یابی تھی، جنھیں پہلے ذلت اور حقارت سے دیکھا جاتا تھا۔ پہلی بار انھوں نے محسوس کیا کہ وہ بھی باعزت انسان ہیں اور انھوں نے میانگل عبد الودود، بادشاہ صاحب کی طرف سے دیے گئے ہر عہدے پر بہترین کارکردگی دکھائی۔ وہ سول اور عدالتی شعبوں میں وزیر، حاکم، تحصیل دار بنے اور ریاستی فوج میں بھی اعلا عہدوں پر فائز ہوئے۔ بیش تر ’’نام نہاد غریب‘‘ بھی ریاستی انتظامیہ اور فوج میں نوکریاں پانے لگے ، جس سے جاگیردار طبقے کا ان پر کچھ اثر کم ہوگیا۔
تاہم، کم تر ہونے کا احساس اب بھی موجود ہے، اگرچہ یہ اب کافی حد تک کم ہوچکا ہے۔ خوش قسمتی سے، اکیس ویں صدی میں، سائنس اور ٹیکنالوجی سے وابستہ افراد کو زیادہ اہمیت دی جا رہی ہے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
