پختو دور کی کچھ اور خصوصیات

Blogger Riaz Masood

(نوٹ:۔ یہ تحریر محترم فضل رازق شہابؔ کی انگریزی یادداشتوں میں سے ایک کا ترجمہ ہے ، مدیر لفظونہ ڈاٹ کام)
میرے مضمون بہ عنوان ’’پختو دور اور اس کی کچھ خصوصیات‘‘ کے ضمیمہ کے طور پر قارئین کی عمومی رائے کے لیے درجِ ذیل گزارشات شامل کرنا چاہتا ہوں۔
اگرچہ یہ دور معاشرے کے پسے ہوئے طبقے کے لیے بہت مشکل تھا، لیکن کچھ سنہری روایات پر سختی سے عمل داری کی جاتی۔ مثلاً، بزرگ اولیا جیسے پیر بابا، اخوند درویزہ بابا، مدے بابا، سیدوں اور صاحب زادوں کی نسلوں کے ساتھ غیر معمولی عزت کا سلوک کیا جاتا تھا۔
میرے گاؤں میں اخوند خیل کے میاں خاندان کو بہت عزت دی جاتی تھی۔ ان کے ہاں پردے کا سخت رواج تھا حتیٰ کہ ان کی خواتین رشتے داروں کے غمی شادی وغیرہ کے مواقع پر رات کی تاریکی میں اپنے گھروں سے باہر نکلتی تھیں۔ جب وہ نکلتیں، تو گاؤں کے مرد منھ پھیر کر ایک طرف ہوجاتے، تاکہ ان پر نظر نہ پڑجائے۔ یہاں تک کہ 7 سال سے بڑے لڑکے بھی ان لوگوں کے گھر، جنھیں ’’ستنہ دار‘‘ کہا جاتا تھا، میں داخل نہیں ہوتے تھے۔ اس خاندان کے بڑے محض اپنی سفید چادر یا پگڑی لہرا کر متحارب فریقین کے درمیان فائرنگ اور لڑائی کو رُکوا سکتے تھے۔ اگرچہ انھیں جرگے میں مدعو نہیں کیا جاتا تھا، لیکن خیر و برکت کے لیے ان کی رائے، طلب کی جاتی تھی۔ غیرت کے نام پر قتل کو برا نہیں سمجھا جاتا تھا اور یہ دشمنی کا سبب نہیں بنتا تھا۔
یہاں مَیں ایک واقعہ بیان کرنا چاہوں گا، حالاں کہ یہ میرے گاؤں سے متعلق نہیں ہے۔
ایک آدمی کی بیوی کی ایک نوجوان مرد کے ساتھ ناجائز تعلقات تھے۔ وہ اکثر چھپ چھپ کر ملتے تھے۔ کسی طرح یہ معاملہ لیک ہوگیا اور بالآخر بیوی کے شوہر تک بھی خبر پہنچ گئی۔ یہ جان کر اسے گہرا صدمہ ہوا۔ کیوں کہ وہ اپنی بیوی سے بے حد محبت کرتا تھا اور ہمیشہ اسے آرام، توجہ اور محبت فراہم کرنے کی کوشش کرتا تھا۔ ایک دن، گرمیوں کی دوپہر، اس نے اپنے داڑھی پر ’’حنا‘‘ لگائی۔ وہ آرام کے لیے ’’حجرے‘‘ میں چلا گیا۔ بیوی نے اس کے پیچھے دروازہ بند کرلیا۔ وہ شخص بہت بے چینی محسوس کر رہا تھا اور اچانک اپنے گھر واپس لوٹا۔ دروازہ کھولتے ہوئے وہ جیسے ہی صحن میں داخل ہوا، تو اپنی بیوی کو ایک نوجوان کے ساتھ ناپسندیدہ حالت میں پایا۔ نوجوان بھاگ گیا اور مویشی خانے میں چھپنے کی کوشش کی۔ آدمی نے دیوار پر لٹکی ہوئی رائفل اٹھائی اور نوجوان کے پیچھے داخل ہوا۔ اس نے اسے باہر کھلی جگہ میں گھسیٹ لیا اور اس کی کندھوں کے درمیان گولی مار دی۔ پھر وہ اپنے سسر کو بتانے گیا، جو بہت بااثر شخص تھا۔ اسے بھی معاملہ سن کر بھی بہت غصہ آیا اور اس سے کہا کہ اس نے اسے (اس کی بیٹی کو) فوراً مار کیوں نہیں دیا؟ وہ اس کے ساتھ آیا اور بیٹی کو اپنے سامنے مارنے کا حکم دیا۔ مردہ نوجوان کے خاندان نے بھی اس آدمی کو معاف کر دیا۔
اس تحریر کا پہلا حصہ پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے عنوان پر کلک کیجیے:
’’پختو دور اور اس کی خصوصیات‘‘
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے