نوجوانوں کی پریشانیاں اور معاشرتی بے حسی

Blogger Shafiq ul Islam

ہمارے معاشرے میں نوجوان مختلف قسم کے مسائل کا سامنا کر رہے ہیں، جن میں تعلیمی دشواریاں، ملازمت کی جد و جہد، شادی کا دباو اور شادی کے بعدگھریلو مسائل شامل ہیں۔ یہ تمام مسائل نوجوانوں کی ذہنی صحت پر گہرے اثرات ڈالتے ہیں اور انھیں کم عمری ہی میں ذہنی دباو اور پریشانی کا شکار بنا دیتے ہیں۔
جب ایک نوجوان اپنی عملی زندگی کا آغاز کرتا ہے، تو اسے کئی چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ شوہر کے طور پر نئے کردار کو نبھانے کی کوشش، گھر کے بڑوں کی توقعات اور مالی استحکام کے دباو میں وہ اکثر ذہنی بیماریوں اور ڈپریشن کا شکار ہوجاتا ہے۔ ایسے حالات میں والدین اور خاندان کے افراد کا کردار بہت اہم ہو جاتا ہے۔ کیوں کہ ان کی مدد اور حمایت نوجوان کی زندگی کو بہتر بنا سکتی ہے۔
تاہم، اکثر اوقات نوجوانوں کو بڑوں کی طرف سے مدد کے بہ جائے دباو کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جب ایک نوجوان لڑکا یا لڑکی نئے رشتوں کا آغاز کرتے ہیں، تو انھیں ان تعلقات کو سمجھنے اور ان میں توازن پیدا کرنے کی مکمل سمجھ بوجھ نہیں ہوتی۔ اس دوران میں خاندان کے بڑے ان کی مدد کرنے کے بہ جائے ان پر سختیاں کرنا اور ان سے بہت زیادہ توقعات شروع کر دیتے ہیں، جس کے نتیجے میں مسائل کم ہونے کے بہ جائے مزید بڑھ جاتے ہیں۔
ایسی صورتِ حال میں نوجوانوں اور بڑوں کے درمیان غلط فہمیاں جنم لیتی ہیں، جوزیادہ ترزندگی بھر قائم رہتی ہیں۔ یہ غلط فہمیاں نوجوانوں کو بڑوں سے دُور کردیتی ہیں اور شدید ذہنی دباو اور ڈپریشن میں بھی مبتلا کردیتی ہیں، جو ان کی زندگی پر منفی اثرات ڈالتی ہیں، جن سے تاحیات نکلنا ناممکن ہوتا ہے۔
ایسے مسائل کے حل کے لیے ضروری ہے کہ خاندان کے بڑے اپنی توقعات اور رویوں کا جائزہ لیں اور نوجوانوں کو ان کے تجربات کے ذریعے سیکھنے کا موقع دیں۔ اگر نوجوانوں کی حوصلہ افزائی اور مدد کی جائے، تو وہ نہ صرف اپنے تعلقات کو بہتر بنا سکتے ہیں، بل کہ خود کو ایک کام یاب اور متوازن زندگی کے لیے تیار بھی کرسکتے ہیں۔
خاندان کے بڑوں کو چاہیے کہ وہ نوجوانوں کو جذباتی اور مالی حمایت فراہم کریں، ان کے مسائل کو سمجھیں اور ان کے لیے ایسے مواقع پیدا کریں جو انھیں ذہنی دباو سے نکال سکیں۔ ایک مُثبت اور معاون ماحول نہ صرف نوجوانوں کی ذہنی صحت کو بہتر بناتا ہے، بل کہ خاندان کے تمام افراد کے درمیان مضبوط رشتے بھی قائم کرتا ہے۔
قارئین! جنوبی ایشیا میں نوجوانوں کی ذہنی صحت کے مسائل کے بارے میں کیے گئے سروے حیران کن حقائق سامنے لاتے ہیں۔ ایک حالیہ سروے کے مطابق، پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش میں نوجوانوں کو تعلیمی، مالی اور ذاتی مسائل کا سامنا ہے۔ 2019ء میں ایک رپورٹ کے مطابق، پاکستان میں 36 فی صد نوجوان ڈپریشن کی علامات کا سامنا کر رہے ہیں۔
ایک اور تحقیق کے مطابق، پاکستان میں ذہنی بیماریوں کے شکار افراد کی تعداد تقریباً دو کروڑ سے زائد ہے، جن میں نوجوانوں کی تعداد نمایاں ہے۔
کنگز کالج کی 2022ء کی تحقیق ظاہر کرتی ہے کہ یونیورسٹی طلبہ میں ذہنی صحت کے مسائل کا پھیلاو تین گنا بڑھ چکا ہے۔
’’پاکستان انسٹیٹیوٹ آف لیونگ اینڈ لرننگ‘‘ (PILL) کے مطابق، خودکشی پاکستان میں موت کی چوتھی بڑی وجہ بن چکی ہے اور خودکشیوں میں نوجوانوں کا حصہ تقریباً 30 فی صد ہے۔ یہ اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ نوجوانوں میں ذہنی صحت کے مسائل ایک خطرناک سطح تک پہنچ چکے ہیں۔
ان مسائل کو حل کرنے کے لیے سب سے اہم کردار والدین اور خاندان کے افراد کا ہے۔ نوجوانوں کو جذباتی، معاشی اور سماجی طور پر سپورٹ فراہم کرنا ضروری ہے۔ ان کے مسائل کو سمجھنا، ان کی بات سننا اور ان کے خوابوں کی تکمیل میں ان کی مدد کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ، حکومت اور سماجی تنظیموں کو بھی نوجوانوں کی ذہنی صحت پر توجہ دینا ہوگی۔ تعلیمی نظام میں ذہنی صحت کے بارے میں آگاہی پیدا کرنے والے پروگرام شامل کیے جائیں اور نوجوانوں کے لیے مشاورت کے مواقع فراہم کیے جائیں۔
قارئین! نوجوان کسی بھی قوم کا مستقبل ہوتے ہیں۔ اگر ان کی ذہنی صحت کا خیال نہ رکھا جائے، تو یہ مسائل نہ صرف انفرادی سطح پر، بل کہ معاشرتی سطح پر بھی تباہ کن نتائج پیدا کرسکتے ہیں۔
آئیں، ہم سب مل کر ان مسائل کے حل کی طرف قدم بڑھائیں اور اپنے نوجوانوں کو ایک روشن اور خوش حال مستقبل کی طرف گام زن کریں۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے