(نوٹ:۔ یہ تحریر محترم فضل رازق شہابؔ کی انگریزی یادداشتوں میں سے ایک کا ترجمہ ہے ، مدیر لفظونہ ڈاٹ کام)
ریاستِ سوات کے دور میں جرائم اور کمیونٹی کی اجتماعی ذمے داری کے بارے میں واضح تصویر پیش کرنا میرے لیے ممکن نہیں، مگر چند بنیادی باتیں ضرور چاہوں گا کہ آپ سے شیئر کروں۔
زیادہ تر جرائم کا جلد ہی سراغ لگایا جاتا اور ان کے مقدمات کو ممکنہ طور پر مختصر وقت میں نمٹا دیا جاتا۔ ریاست میں رائج نظام نے کسی مجرم کے بچ نکلنے کو ناممکن بنا دیا تھا۔ حتی کہ ریاستِ سوات کے قیام سے پہلے بھی، جسے ’’د پختو دور‘‘ (پختو کا دور) کہا جاتا تھا، زمین کی حدود کی معمولی خلاف ورزی یا کھیتوں سے اناج چوری کرنے کے معاملات کو فوری طور پر ’’ٹریس‘‘ کیا جاتا تھا اور مشران (اکابرین) اپنی دانش و حکمت کے مطابق موقع پر ہی ان امور کو نمٹا دیتے تھے۔
عجیب بات یہ ہے کہ ہر گاؤں میں چند بزرگ ایسے ضرور ہوتے کہ اس قبیل کے مجرموں کو پہچان جاتے اور حتیٰ کہ یہ بھی جانتے تھے کہ وہ اس طرح کی غیر اخلاقی سرگرمیوں میں کس قدر ملوث ہیں۔ لوگوں میں بھی اتنی اخلاقی ہمت تھی کہ وہ بڑے جرائم کو بھی قبول کر جاتے تھے۔ مثلاً: اگر کسی پر زنا کا الزام لگایا جاتا، یا وہ رنگے ہاتھوں پکڑا جاتا، تو متاثرہ فریق اسے اور متعلقہ عورت کو مار دیتا اور یہ سب طرفین کے لیے فطری طور پر قابلِ قبول ہوتا۔
مَیں زنا کے کسی کیس کا حوالہ نہیں دوں گا، تاکہ تنازعات سے بچا جا سکے، جیسا کہ میرے گاؤں میں ایک ایسا معاملہ ہوا تھا، لیکن مَیں چاول کی کھیت سے چوری ہونے کا واقعہ ضرور ذکر کرنا چاہوں گا۔
میرے والد اور چچا یتیم تھے اور اپنے والد (میرے دادا) حبیب اللہ کی جنگ میں شہید ہونے کے وقت وہ بہت چھوٹے تھے۔ ان کی عمریں 9 سے 5 سال کے درمیان تھیں، لیکن میرے دادا نے وراثت میں ان کے لیے 5 مختلف جگہوں پر چند ایک بڑے قطعاتِ زمین چھوڑے تھے۔ ایک دفعہ کسی نامعلوم شخص نے ان کے کھیت سے دھان کی فصل چوری کرلی۔ جب انھیں چاول کی گم شدگی کی خبر ملی، تو وہ دونوں گاوؤں کے ایک بزرگ کے پاس گئے اور اپنے مسئلے کے بارے میں بتایا۔ بزرگ پہچان گئے کہ یہ چوری کس نے کی ہوگی۔ انھوں نے بھائیوں کو کہا کہ انھیں ایک دن کا وقت دیں۔ اگلی صبح جب بچے جاگے، تو انھوں نے پورے کا پورا دھان اپنے گھر کے بڑے احاطے میں پڑا پایا۔ وہ کبھی جان نہ سکے کہ یہ کس نے کیا اور انھیں کیسے واپس ملا؟
اجتماعی ذمے داری کا ایک کیس بادشاہ صاحب کے دور میں پیش آیا۔ ایک گاؤں میں ایک بدنام، بل کہ بری عورت کو ایک رات قتل کر دیا گیا اور اس کی لاش سڑک پر پھینک دی گئی۔ والی صاحب (حکم رانِ سوات) اس سے بہت ناخوش ہوئے۔ اسے عورت کے قتل کی زیادہ فکر نہیں تھی، کیوں کہ گاؤں والوں نے اسے اس کی غیر اخلاقی حرکتوں کے بارے میں بتایا تھا، لیکن وہ اس بات سے بہت غصے میں تھے کہ لاش ریاستی زمین پر پھینکی گئی تھی۔ انھوں نے اس جرم کے لیے پورے گاؤں پر ایک لاکھ روپے (1,00,000) کا جرمانہ عائد کیا۔ جرمانے سے بچنے لے لیے گاؤں والوں کو مجرم حوالے کرنے کی متبادل آپشن بھی دی گئی، مگر گاؤں والوں نے اجتماعی طور پر وہ جرمانہ ادا کر دیا۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔