کچھ لوگ پرندے پالنے کے شوقین ہوتے ہیں جن کو ’’برڈ فینسیئر‘‘ (Bird Fancier) کہا جاتا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ ہر شوق کی ایک قیمت ادا کرنی پڑتی ہے، تو پرندے پالنے کی بھی ایک قیمت ہوتی ہے۔ پرندوں کے پروں اور فضلے میں کچھ خاص زرات/ جراثیم/ ’’اینٹی جن‘‘ ہوتے ہیں جو کہ پھیپڑوں کی ایک خاص بیماری کا سبب بنتے ہیں، جس کو ’’ہائپر سینسی ٹیوٹی نمونائیٹس‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ بیماری شروع شروع میں اتنی ہلکی ہوسکتی ہے کہ نہ تو مریض کو بروقت پتا چل جاتا ہے اور نہ علاج کرنے والے ڈاکٹر کو۔ مریض اکثر ہلکی کھانسی، بخار، جسم میں درد، سانس لینے میں دشواری اور تھکاوٹ کی شکایت کے لیے ڈاکٹر سے رجوع کرتا ہے، جس کو عام نزلہ زکام کے طور پر لیا جاتا ہے۔ دوائیوں سے وقتی آرام آنے کی صورت میں مریض اور معالج دونوں مطمئن ہوجاتے ہیں، لیکن کچھ عرصہ بعد دوبارہ یہی مسئلہ سر اُٹھاتا ہے اور پھر یہ سلسلہ طول پکڑتا ہے۔ اکثر صحیح تشخیص (ڈائیگنوسس) تک پہنچنے میں اتنا وقت ضائع ہوجاتا ہے کہ مرض ناقابلِ علاج ہوجاتا ہے اور پھیپڑے سکڑجاتے ہیں۔ پھیپڑوں کے سکڑنے کی وجہ سے بدن کو آکسیجن کی سپلائی متاثر ہوجاتی ہے، جس کا اثر پھیپڑوں میں موجود خون کی شریانوں پر بھی پڑ جاتا ہے۔ خون کی شریانوں میں خون کا پریشر بڑھ جاتا ہے، جس کو ’’پلمونری ہائپر ٹینشن‘‘ (Pulmonary Hypertension) کہا جاتا ہے۔ پلمونری ہائپر ٹینشن کی وجہ سے دل کے دائیں جانب پر دباو بڑھ جاتا ہے اور آخرِکار دل کا دایاں طرف فیل ہو جاتا ہے۔ ایسی حالت کو پھر ’’کارپلمونیل‘‘ (Cor Pulmonale) کہا جاتا ہے، جو کہ اس بیماری کا آخری سٹیج ہوتا ہے۔
پرندوں کے علاوہ ’’ہائپر سینسی ٹیوٹی نمونائیٹس‘‘ کے دیگر وجوہات بھی ہیں، جس کی لسٹ وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتی جارہی ہے۔ چند قابل ذکر وجوہات / پیشہ جات درجِ ذیل ہیں:
1) زمین دارہ/ فارمنگ/ زراعت سے وابستہ شعبہ:۔ زمین داروں اور زراعت سے وابستہ دیگر افراد میں ’’ہائپر سینسی ٹیوٹی نمونائیٹس‘‘ کی سب سے بڑی وجہ فنگس زدہ گھاس پھوس اور بھوسا ہے، جس میں موجود ’’اینٹی جن‘‘ کی وجہ سے یہ بیماری لگ جاتی ہے۔ اس کے علاوہ زرعی ادویات اور کیمیکلز کی وجہ سے بھی ہائپر سینسی ٹیوٹی نمونائیٹس ہوسکتا ہے۔
2) جانوروں کے ڈاکٹر/ پیرامیڈکس اور دوسرے ورکر۔
3) غلہ/ اناج کا کاروبار کرنے والے افراد اور آٹا ملز ورکر، بیکری بنانے والے افراد۔
4) کباڑ کا کام کرنے والے لوگ، کاغذ اور وال بورڈ بنانے والے کارکن۔
5) پلاسٹک کی مصنوعات بنانے والے، پینٹر اور الیکٹرانک آلات بنانے والے ورکر۔
6) دھاتی آلات بنانے والے وہ افراد جو دھاتی پانی کے ساتھ رابطے میں رہتے ہیں۔
7) ٹیکسٹائل انڈسٹری میں کام کرنے والے افراد۔
لٹریچر میں ہائپر سینسی ٹیوٹی نمونائیٹس کے تقریباً 300 سے زیادہ وجوہات بیان کیے گئے ہیں جن میں سے چند قابل ذکر اوپر بیان کیے گئے۔
ہائپر سینسی ٹیوٹی نمونائیٹس پھیپھڑوں کی ایک ایسی بیماری ہے جس میں انسانی بدن کے اپنے ہی دفاعی نظام کی وجہ سے پھیپڑوں کی نالیوں، ہوا کی جھلیوں (الویلائی) اور انٹرسٹیشیم (پھیپڑوں کا وہ حصہ جو پھیپڑوں کو ایک دوسرے سے جوڑے رکھتا ہے) میں انفلیمیشن ہوجاتی ہے۔ یہ انفلیمیشن جن زرات کی وجہ سے ہوتی ہے ان کو اینٹی جن کہا جاتا ہے اور ان کا سائز عام طور پر 5 مائیکرو میٹر سے کم ہوتا ہے۔ یہ اینٹی جن تو تقریباً ہر جگہ موجود ہوتے ہیں، لیکن ہر وقت ہر کسی کو ان سے یہ بیماری نہیں ہوجاتی، یا تو ان لوگوں کو یہ بیماری لگ جاتی ہے، جو جینیاتی طور پر اس بیماری کے زیرِ اثر ہوتے ہیں اور یا ایک ہی وقت میں بہت زیادہ اینٹی جن سے واسطہ پڑ جاتا ہے۔
٭ علامات:۔ اس بیماری کو عام طور پر تین اقسام میں تقسیم کیا جاتا ہے: شدید (اکیوٹ)، قدرے شدید (سب اکیوٹ ) اور دائمی (کرانک)۔
٭ شدید ہائپر سینسی ٹیوٹی نمونائیٹس اینٹی جن کو ایکسپوز ہونے کے چند گھنٹوں کے بعد وقوع پذیر ہوجاتا ہے اور اگر مریض اینٹی جن سے دور ہوجائے، تو آہستہ آہستہ بیماری کے اثرات ختم ہو جاتی ہیں۔ حتی کہ 12 گھنٹوں کے بعد بالکل ختم ہوجاتی ہیں اور مریض ٹھیک ہوجاتا ہے، لیکن کبھی کبھار یہ علامات کئی دنوں تک برقرار رہتی ہیں اور اگر مریض دوبارہ ایسے ماحول میں چلا جائے جہاں یہ اینٹی جن موجود ہو، تو دوبارہ بھی شدید ہائپر سینسی ٹیوٹی نمونائیٹس ہوسکتا ہے۔
شدید ہائپر سینسی ٹیوٹی نمونائیٹس کی صورت میں مریض کو شدید کھانسی، سانس لینے میں دشواری، تیز بخار سردی کے ساتھ، جسم میں شدید درد، سر درد، سینے میں تنگی اور تھکاوٹ محسوس ہوتی ہے۔
٭ سب اکیوٹ/ دائمی ہائپر سینسی ٹیوٹی نمونائیٹس:۔ غیر محسوس طور پر/ آہستہ آہستہ وقوع پذیر ہونے والی بلغمی کھانسی، سانس کا پھول جانا اور تھکاوٹ جس میں ہفتے، بل کہ کئی مہینے لگ سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ بھوک کا نہ لگنا اور وزن کی کمی بھی واقع ہوسکتی ہے۔ ہائپر سینسی ٹیوٹی نمونائیٹس کی یہ دونوں قسمیں یا تو بار بار اکیوٹ ہائپر سینسی ٹیوٹی نمونائیٹس کے وقوع پذیر ہونے کی وجہ سے ہوسکتی ہیں اور یا غیر تشخیص شدہ اکیوٹ ہائپر سینسی ٹیوٹی نمونائیٹس کی وجہ سے ہوسکتی ہیں۔
٭ تشخیص اور علاج:۔ ہائپر سینسی ٹیوٹی نمونائیٹس کی بروقت تشخیص میں ہی اس کا علاج پوشیدہ ہے۔ جتنا جلدی اس بیماری کی تشخیص کی جائے اور متعلقہ اینٹی جن کو ہٹایاجائے، تو بیماری نہ صرف یہ کنٹرول کی جاسکتی ہے، بل کہ اس کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا جاسکتا ہے، لیکن جیسے جیسے وقت گزرتا جائے، تو بیماری کا علاج نہ صرف مشکل، بل کہ ناممکن ہوجاتا ہے، خاص طور پر پھیپڑوں کے سکڑنے کی صورت میں۔ بروقت تشخیص کے لیے مریض کی تفصیلی ہسٹری لینے کے بعد ایکسرے اور کچھ دوسرے ٹیسٹ مثلاً سپائرومیٹری اور سی ٹی سکین وغیرہ کروائے جاتے ہیں۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔