رات کے اندھا دھند سفر کے بعد وادئی کیلاش کی تینوں وادیوں میں سے سب سے بڑی وادئی بمبوریت میں موجود ہمارے پرانے دوست بابا شکور ولی کے فرنٹیئر ہوٹل کے لان میں صبحِ نو کے نور کی چاشنی میں گھلے چاند چہرے دیکھیں، خوشی سے کیسے چمک رہے ہیں! 28 جون سنہ 2024ء کی بات ہے کہ ہم وادئی مڈگلاشٹ سے نکلتے نکلتے کافی لیٹ ہوگئے تھے۔ کیا کرتے کہ یہ وادی مقناطیسی کشش رکھتی تھی۔ ہم نے جلد از جلد نکلنے کی بہتیری کوشش کی، مگر پھر بھی خاصے لیٹ ہو گئے تھے۔ بمبوریت تک پہنچتے پہنچتے رات کے 12 بج گئے۔ رات کے اس پہر آپ ان کے چہرے دیکھتے، تو ڈر جاتے کہ یہ خود اپنے آپ سے ڈرے ہوئے ایک دوسرے کو کھا جانے والی نظروں سے دیکھ رہے تھے۔
پہاڑی سفر پر جائیں، تو کبھی اپنے نئے ساتھیوں کو سفر کی خطرناکی اور دوری کا درست نہ بتائیں۔ ورنہ وہ وہیں پر ڈھیری ڈھا کر بیٹھ جاتے ہیں۔ عین اس بچے کی طرح جو زمین پر اپنی ٹانگیں پسار کر مٹی میں تشریف فرما ہوجاتا ہے، اور پھر زور و شور سے اپنی ٹانگوں کو روتا چیختا کر لاتا آگے پیچھے گھسیٹ کر کہتا ہے: ’’بے بے مینوں چک لے!‘‘ یعنی ماما، مجھے گود میں اُٹھا لو۔ مجھ سے اتنا پیدل چلا نہیں جاتا۔
ہم بھی اُنھیں ’’بس تھوڑا رہ گیا ہے، بس تھوڑا سا ہی رہ گیا ہے!‘‘ کہتے کہلاتے بڑی مشکلوں سے رات 12 بجے کے بعد بمبوریت میں فرنٹیئر ہوٹل پہنچے تھے۔
کیوں کہ مجھے پتہ تھا کہ وہاں بابا شکور ولی نہ بھی ہوا، تو اخلاق ہوگا جو اُن کا سب سے چھوٹا بیٹا ہے۔ کیوں کہ بنیادی طور پر وہی ہی تو ہوٹل کے معاملات دیکھتا ہے۔ بابا شکر ولی یا شکور ولی کا بڑا بیٹا حسین تو وہاں پر وادی میں محکمہ ایری گیشن میں کوئی جاب کرتا ہے، اور وہ ڈیوٹی سے فراغت کے بعد آتا ہے۔
فرنٹیئر ہوٹل کی انتظامیہ سے میری 25 سالہ پرانی شناسائی ہے۔ میرا اس جگہ پر پانچواں چھٹا چکر تھا۔ مجھے اچھی طرح اندازہ تھا کہ ہوٹل انتظامیہ کے لوگ بہت پیار کرنے والے ہیں، جو اپنے کسٹمر کا اپنے سے بھی زیادہ خیال رکھتے ہیں۔ پھر ان سے میری پرانی شناسائی بھی تھی۔ ایک بار ہم وہاں پہنچ گئے، تو دوست سفر کی ساری صعوبتیں بھول جائیں گے اور ایسا ہی ہوا کہ صبحِ نو میں دریائے بمبوریت کنارے فرنٹیئر ہوٹل کے سرسبز لان میں کھلے رنگ بہ رنگے پھولوں اور پھل دار درختوں کی شاخوں پہ لہلہاتے قسم ہا قسم کے پھلوں کے بیچ وہ بھی کھلکھلا اُٹھے۔
دراصل رات کے تقریباً 10 بجے جب ہم دیر چترال روڈ پر ایون موڑ پہنچے، تو وہاں پر ہمیں رُکا ہوا دیکھ کر ایک لوکل نے اپنی گاڑی روکی۔ وہ اُتر کر ہمارے پاس آیا اور کہنے لگا کہ مَیں آپ کو مشورہ دیتا ہوں کہ آپ اس وقت کیلاش نہ جائیں۔ مَیں یہاں کا مقامی ہوں، مجھے سارے راستے کا بہ خوبی علم ہے۔ یہ رستہ رات کو سفر کرنے والا نہیں۔ آپ ایسا کریں کہ ابھی آپ لوگ تھوڑا آگے چترال شہر چلے جائیں۔ وہاں کسی ہوٹل میں رات بسر کریں اور کل صبح ناشتہ واشتہ کرکے کیلاش آجائیں۔
مشورہ تو اس کا اچھا تھا، مگر ہم چوں کہ کیلاش ٹارگٹ کرکے چلے تھے۔ اس لیے ہم نے اس کے مشورے کو ’’اِگنور‘‘ کر دیا۔ یہ رستہ میرا دیکھا بھالا تھا۔ میرا اس طرف کو چوتھا، پانچواں چکر تھا۔
چترال شہر میں ان دنوں میں کافی گرمی ہوتی ہے۔ ان دنوں یہاں کا درجۂ حرارت 41، 42 ڈگری سینٹی گریڈ تک چلا جاتا ہے۔ یہاں پر بجلی کا نظام بھی کچھ ایسا ویسا ہی ہوتا ہے۔ آئی آئی نہ آئی۔ بعض اوقات دو دو دن تک بجلی بند رہتی ہے۔ چترال کے ہوٹلوں میں پنکھے اور اے سی تو لگے ہیں، مگر جب بجلی نہ ہوئی، تو ان کا کیا فائدہ!
ہاں، رات کو گرمی کی وہ کاٹ نہیں رہتی جو اِدھر ہمارے ہاں پنجاب میں ہوتی ہے۔ فریج بند ہو جائے، تو بھی گزارا چل جاتا ہے۔ اِدھر ہمارے ہاں پنجاب میں بجلی بند ہوجائے، تو سب سے بڑا مسئلہ پانی کا بن جاتا ہے۔ لوگوں نے اپنے گھروں میں لگے نلکے اُکھاڑ پھینکے ہیں اور ان کی جگہ بجلی سے چلنے والے پمپ لگوا لیے ہیں۔ لوہے کی قیمت بڑھنے سے نلکے بہت مہنگے ہوگئے ہیں۔ جب کہ اس کے مقابلے میں بجلی سے چلنے والے پمپ بہت سستے پڑتے ہیں۔ دوسرا انھیں چلانے کے لیے کوئی مشقت نہیں کرنا پڑتی۔ ایک بٹن دبایا اور پانی ہی پانی، جب کہ نلکا گیڑ گیڑ کر بندہ پھاوا ہوجاتا ہے۔ خاص طور پر تب جب کبھی مویشیوں کو پانی پلانا ہو، یا اپنے گھر میں کسی شادی بیاہ کے خاص موقعے پر مہمانوں کا اکٹھ ہو، تو اُن کے لیے نہانے دھونے کا بندوبست کرنا، پودوں کو پانی دینا یا کسی کیاری کو بھرنا۔ پرانے وقتوں میں جب کچے گھر ہوا کرتے تھے۔ موسمِ برسات سے قبل ان مکانات کی لیپا پوتی کرنا پڑتی تھی، جس کے لیے چکنی مٹی میں گندم کا بھوسا ملاکر اور پھر اُس میں ایک بڑی مقدار میں پانی ملا ملا کر اُسے گوڈیاں دے دے کر ایک خاص طریقے سے تیار کرنا پڑتا تھا، جس کے لیے وافر مقدار میں پانی کی ضرورت پڑتی تھی۔ انسان آسایش پسند ہوگیا ہے۔ اب اتنی مشقت کون کرے؟ بس ایک دفعہ بجلی سے چلنے کا پمپ لگوایا۔ کڑچ کرکے اُس کا بٹن نیچے کیا اور پھر پانی ہی پانی۔ بجلی کا کرنٹ ہماری رگوں میں خون کی طرح سرایت کرگیا ہے۔ یہ چلے، تو زندگی چلتی ہے۔ یہ رُکے تو زندگی رُک سی جاتی ہے۔ ہمارے سارے کام اَب بجلی کے مرہونِ منت ہیں۔ حکومتِ وقت کو بھی اس چیز کا احساس ہے۔ اُنھیں بہ خوبی علم ہے کہ اس کے بغیر اب عوام کا گزارہ نہیں۔ بجلی اَب اُن کی مجبوری بن گئی ہے، اور وہ آئے دن ریٹ پہ ریٹ بڑھا کر اسی مجبوری کا فائدہ اُٹھا رہے ہیں۔
اچھا، تو بات ہو رہی تھی کیلاش وادی کو جاتے رستے کی۔ مَیں، ڈاکٹر شاہد اقبال صاحب، ارشاد انجم صاحب اور سجاد بھٹی صاحب چوں کہ گاڑی پر سفر کر رہے تھے۔ اس لیے ہم منزلِ مقصود تک پہلے پہنچ جایا کرتے تھے۔ جب کہ ہمارے بقیہ ساتھی اپنی اپنی بائیکس پر ہمارے ساتھ رواں دواں تھے۔ وہ تھوڑا لیٹ پہنچتے تھے۔ خاص طور پر جب کوئی سیدھی سڑک آ جاتی، تو ہم اپنے ٹارگٹ پر اُن کے مقابلے میں کافی پہلے پہنچ چکے ہوتے تھے۔ آدھ پون گھنٹا ہم اُن سب دوستوں کا انتظار کرتے رہے۔ وہ سب دو دو چار چار کی ٹولیوں میں آہستہ آہستہ چلتے پہنچ ہی گئے۔
دیر چترال کی مین روڈ سے اُتر کر جب ہم ایون کی بستی میں پہنچے، تو وہاں جن پھر گیا تھا۔ ایسا سناٹا چھایا تھا کہ کہیں کسی بندے بشر کا نام و نشاں تک دکھائی نہ دیتا تھا۔ مجھے اتنا تو اندازہ تھا کہ یہاں سے سڑک کدھر کدھر کو جاتی ہے۔ یہاں دو ہی بڑے رستے ہیں۔
ایون موڑ سے نیچے اتر کر دریائے چترال کا پُل کراس کر کے ایون گاؤں کی پرانی اور تنگ گلیوں میں سے گزرنا پڑتا ہے۔ تھوڑا آگے جا کر یہ رستہ دو حصوں میں بٹ جاتا ہے۔ ایک رستہ سیدھا آگے کی طرف جاتا ہے، جو تھوڑا سا آگے جاکر پھر مزید دو رستوں میں بٹ جاتا ہے۔ داہنے ہاتھ والا ’’وادئی بریر‘‘ جب کہ سیدھا چلنے والا رستہ ’’گہریت پُل‘‘ کی طرف نکل جاتا ہے۔
ہم نے چوں کہ بمبوریت وادی جانا تھا۔ اُس کا رستہ ایون گاؤں کی آبادی میں تھوڑا آگے جا کر داہنے ہاتھ کو اوپر کو چڑھتا ہے۔ جس کے شروع میں چار پانچ بڑی بڑی چڑھائیاں پڑتی ہیں اور پھر اس سے آگے جا کر یہ رستہ دریائے بمبوریت کے ساتھ ساتھ چلتا جاتا ہے۔ رستے کے شروع میں پڑنے والی چڑھائیاں بڑی کتی چڑھائیاں ہیں، جو ماڑے بندے کے سارے تراہ نکال دیتی ہیں۔ خاص طور پر رات کو اُن پر سفر کرنا اور بھی دِقت آمیز اور ڈراؤنا ہوتا ہے۔ تنگ سے موڑ ہیں۔ سامنے سے کوئی گاڑی اُترتی مل جائے، تو اچھا خاصا مسئلہ پیش آسکتا ہے۔ اس پہاڑی کے اوپر بھی آبادیاں ہیں اور ان ’’زِگ زیگ‘‘ موڑوں میں سے کچھ رستے نکل کر اُن آبادیوں کی طرف بھی جاتے ہیں۔ بعض اوقات پتا ہی نہیں چلتا کہ ان دو راستوں میں سے کون سا رستہ بمبوریت کو جاتا ہے اور کون سا مقامی آبادی کی طرف؟
اور پھر رات کے سمے تو بہت دقت پیش آتی ہے کہ سجے مڑنا ہے کہ کھبے؟ تھوڑا نیچے کی طرف جاتی سڑک پر چلنا ہے یا اُوپر کو اُٹھتی روڈ پر ٹامک ٹوئیاں مار مار کے چلنا ہے؟
ہم نے اس کا حل یہ نکالا کہ موبائل پر ٹریکر لگالیا۔ ٹریکر والی بیبی جدھر کو مڑنے کا حکم کرتی ہم مڑ جاتے۔ جدھر جانے کو منع فرماتی ہم بیبے بچوں کی طرح فوراً اس کے آکھے لگ کے اُس طرف کو مڑ جاتے۔ اس پہاڑی رستے پر بڑے بڑے کھڈے تھے، جن سے بچ بچ کر چلنا بھی ضروری تھا۔ تھوڑی رفتار تیز کرتے، تو گاڑی نیچے لگنے یا کسی کھڈے میں لگنے کا خوف تھا۔ آہستہ چلتے، تو گاڑی کو چڑھائی چڑھنے میں مشکل پیش آتی۔ رات کے 11 بج رہے تھے۔ انھے وا مڑتے پتلے پتنگ تنگ موڑ، کھڈے پہ کھڈا ٹھاہ کھڈا، ساڈا کی اے اللہ ای اللہ!
ایسے راستوں پر گاڑی چلانا بھی اِک آرٹ ہے، اور پھر آدھی رات سمے…… یہ تو اس بھی بڑا آرٹ ہوا ناں۔ صرف ’’ایکسپرٹ‘‘ بندہ ہی ایسی اندھی راہوں پر اندھا دھند گاڑی چلا سکتا ہے۔ اس معاملے میں ڈاکٹر شاہد صاحب کوئی بڑے دھوش قسم کے ڈرائیور ہیں۔ نہ اکنے والا نہ تھکنے والا، نہ رُکنے والا نہ ڈرنے والا۔ ہمارا کیا تھا، ہم تو اُن کے ساتھ بیٹھے ہوئے سفر کر رہے تھے، مگر آپ کو ایک اندر کی بات بتاؤں کہ ’’ساہ ساڈے وی سکے ہوئے سن۔ تراہ ساڈے ول نکل نکل جارئے سن۔‘‘
اُن سے زیادہ زور ہمارا لگ رہا تھا۔ اُن سے زیادہ آنکھیں پھاڑ پھاڑ کے ہم دیکھ رہے تھے۔ اُن سے زیادہ ہوائی بریکیں ہم لگا رہے تھے۔ وہ تھکے تھے یا نہیں…… یہ اُنھیں پتا ہوگا، مگر مجھے پتا ہے کہ مَیں بہت اَک تھک گیا تھا۔ ایک بار دل میں آیا کہ وہ لوکل بے چارہ درست ہی کہتا تھا کہ نہ جاؤ!
کم و بیش 20، 25 سال پہلے پہلی بار میں اس وادی میں آیا تھا۔ اُس وقت تو چلو، اِس سڑک کی حالت خراب تھی۔ 20 سال کا بچہ جم کر جوان ہو کر سنبھل جاتا ہے، مگر یہ سڑک تو پہلے سے بھی زیادہ خراب حالت میں تھی۔ یہ بالکل بھی نہ سنبھلی تھی۔ بڑے بڑے ٹوئے ٹبے، اندھے موڑ، اوبڑ کھابڑ اور پلِ صراط نما تنگ رستہ اوپر سے آدھی رات کا گھپ اندھیارا۔ ہمیں ٹوہ ٹوہ کے سفر کرنا پڑ رہا تھا۔ دو تین جگہوں پر تو کچھ ایسا بھی راستہ ملا کہ جہاں اترائی کے ساتھ سڑک گھوم کر مڑ بھی رہی تھی۔ بالکل بھی اندازہ نہیں ہوتا تھا کہ آگے سڑک سیدھی ہے یا مڑ رہی ہے؟ کیوں کہ ہمارے بائیں ہاتھ پر پہاڑ تھا، جسے کاٹ کر یہ سڑک بنائی گئی تھی اور دائیں جانب عین اس سڑک کے کنارے کے ساتھ نیچے کی طرف دریائے بمبوریت بھی اینا کونڈا کی مانند شوکراں مار مار کے ہمیں کھانے کو دوڑتا ڈرا رہا تھا۔ دو تین جگہوں پر تو ایک بندے کو گاڑی سے اُتر کر نیچے رستہ دیکھنا پڑا۔ اس معاملے میں ہمارا جگاڑ سپیشلسٹ ارشاد انجم بہت ماہر تھا کہ جوں ہی حالات کی نزاکت کا احساس ہوتا، وہ جھٹ سے دروازہ کھول کر نیچے اُتر پڑتا اور پھر اشاروں ہی اشاروں میں رستہ بتا کر راہ نمائی کرتا جاتا تھا۔
اُدھر ہمارے بائیکر دوستوں کی حالت بھی کافی پتلی لگ رہی تھی۔ رانا عدنان کے بائیک کی لائٹ خراب ہو گئی تھی۔ وہ دوسروں کے بائیک کی لائٹ کے سہارے سفر کر رہا تھا۔ جب تک دو عدد بائیکر سجے کھبے چل کر اسے راستہ نہ دکھاتے، وہ چلنے سے قاصر ہوتا تھا۔ مولانا زبیر گورداسپوری صاحب کے ساتھ ایک مسئلہ ہے کہ ان کا سارا سسٹم سولر پر ہے۔ جب تک دن کھڑا رہتا ہے، وہ چل سو چل رہتے ہیں…… مگر جوں ہی سورج غروب ہو کر اندھیرا چھاتا جاتا ہے، اُن کی بس بس ہوتی جاتی ہے۔ بس بس ہوتے اب اتنی بس ہو چکی تھی کہ وہ اب بے بس ہو چلے تھے۔ اب تو ان کے یو پی ایس کی بیٹری بھی ختم ہونے کو تھی۔ سارے دوست دھکا شکا لگا کے اُنھیں ریڑھ راڑھ کے ساتھ لیے چل رہے تھے۔ بڑی مشکلوں سے وہ پولیس چوکی تک پہنچے۔ جہاں پر ان وادیوں کی طرف جانے والے سیاحوں کا اندراج ہوتا ہے اور ان سے وہاں جانے کا کچھ ٹیکس بھی فی بندہ وصول کیا جاتا ہے۔ یہاں سے بائیں طرف والا رستہ بمبوریت نالے کے ساتھ ساتھ چلتا وادی بمبوریت تک جاتا ہے۔ یہ نالہ نما دریا افغانستان کے صوبہ نورستان کی طرف سے آ کر یہاں پر وادئی ریمبور کی طرف سے آنے والے نالے کے ساتھ مل جاتا ہے اور پھر دونوں نالے مل کر ایک بڑے نالے کی شکل اختیار کرکے نیچے ایون کے قریب دریائے چترال میں جا گرتے ہیں۔
یہاں رُکے تو مولانا زبیر نے ہاتھ کھڑے کر دیے کہ مینوں کُچھڑ چک کے لجا سکدے او تے لے جاؤ۔ ہن اس توں اگے میں بائیک نئیں چلا سکدا۔ اتنا کَہ کر وہ دریا کنارے سڑک پر لم لیٹ ہوگئے۔ کہنے لگے ، پراں وڑو! تسی تے کیندے سی ادھے گھنٹے دا سفر اے۔ اک گھنٹے توں اتے ٹیم لنگھ گیا اے۔ تے حالے وی ایتھوں اٹھارہ وی کلومیٹر سفر باقی اے۔ تسی جانا اے تے جاؤ۔ میں تے ہن صبح ای آواں گا۔
آخرِکار تھوڑی ریسٹ کر کے نواز صاحب نے اُنھیں اپنی بائیک پر اپنے ساتھ پیچھے بٹھا لیا اور ان کی بائیک کسی دوسرے دوست نے سنبھالی۔ یہاں پر سڑک پر کام ہو رہا تھا۔ پہاڑ کو توڑ توڑ کر سڑک کو پہلے کی نسبت چوڑا کیا جا رہا تھا، مگر چوڑی سڑک والی عیاشی تھوڑی دیر تک چلی کہ آگے رستہ بہت ہی تنگ آمد بہ جنگ آمد والا تھا۔
یہاں پہنچ کر ہمارے جتنے تراہ نکلنا باقی تھے، وہ نکل نکل جا رہے تھے۔ آنش (Anish) گاؤں سے لے کر برون (Brun) اور پھر اس سے آگے تک کا سارا رستہ تنگ اور کیچڑ سے بھرپور ’’چکڑ و چکڑی‘‘تھا۔
اندازہ کرو یار آدھی رات گھپ اندھیرا، پتلی پتنگ گیلی کیچڑ والی تنگ سڑک، ایک طرف دریائے بمبوریت اور دوسری طرف پہاڑی دیوار۔ جائیں تو جائیں کہاں، سمجھے گا کون یہاں درد بھرے، دل کی زباں!
اس وقت ہماری زبان کیا کسی نے ہماری آہ بھی نہیں سننی تھی کہ اس وقت کوئی ہوتا، تو سنتا۔ رات کے بارہ بج رہے تھے اور ہم کیلاش یاترا پر تھے لرزیدہ لرزیدہ۔ راستے میں کئی بار اپنے کانوں کو ہاتھ لگایا۔ درودِ پاک، آیت الکرسی، چارے قل جتنا ہم پڑھ سکتے تھے، پڑھتے رہے۔
ہمارے ساتھ دو عدد مولانا سفر کر رہے تھے۔ ایک تو تھے مولانا زبیر گورداسپوری جب کہ دوسرے مولانا سجاد مصطفائی صاحب، جو پہلی دفعہ ہمارے ساتھ چل کر سفر کر رہے تھے۔ تیسرے حافظ ندیم صاحب تھے، جو ایک پی ایچ ڈی سکول ٹیچر ہونے کے ساتھ حافظِ قرآن بھی ہیں۔ اُن کے لیے تو کوئی مسئلہ نہ تھا کہ اُن کے پاس درود شریف اور قرآنی آیات کا ذخیرہ تھا۔ اُنھوں نے وہ وہ بھی سورتیں پڑھ لیں تھیں کہ جو ہمارے وہم و گمان میں بھی نہ تھیں۔
خدا خدا کرکے ہم صبح ساڑھے بارہ (12:30) بجے بمبوریت میں فرنٹیئر ہوٹل جا اُترے کہ
ہم بھٹک کر جُنوں کی راہوں میں
عقل سے انتقام لیتے ہیں
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔