بنگلہ دیش میں طلبہ احتجاج کے بعد پاکستان میں بھی ڈھیر سارے سیاسی لوگ طلبہ کو جوش دلا رہے ہیں کہ وہ باہر نکلیں اور ملک میں تبدیلی کے لیے جدوجہد کریں۔ طلبہ کو وہ لوگ اُکسا رہے ہیں جو خود سیاسی میدان میں ڈنڈے سوٹے کھا کر اب احتجاج کی سیاست کو ترک کرکے طالب علموں سے انقلاب کی امید لگائے بیٹھے ہیں۔
ہماری طلبہ سیاست بھی سیاست دانوں کے گرد گھومتی رہی ہے اور اب بھی گھوم رہی ہے۔ ایک وقت تھا جب طلبہ قیادت موجود ہوتی تھی اور ان میں جوش اور ولولہ بھی ہوتا تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہمارے حکم رانوں نے طلبہ سیاست میں تشدد کا رنگ بھر دیا۔ غنڈوں، رسہ گیروں اور بدمعاشوں کو طلبہ یونین کا صدر بنا دیا گیا، جو خود بھی لوٹ مار کرتے اور اپنے سیاسی راہ نماؤں کے کام بھی کرتے۔ یوں طلبہ سیاست میں بڑے بڑے نام سامنے آئے، جنھوں نے ایک عرصہ غنڈا گردی کی وجہ سے حکم رانوں کے ساتھ مل کر حکم رانی کی۔ اُن کے شر سے کوئی بھی محفوظ نہیں تھا۔ ہوٹلوں سے مفت کھانے اور ’’جگا ٹیکس‘‘ عام ہونے کی وجہ سے کوئی بھی کاروباری ان سے محفوظ نہیں تھا۔ پھر ان طلبہ یونین کے بدمعاشوں کا جو حشر ہوا، وہ بھی سب کے سامنے ہے۔
یہاں تک نوبت اس لیے پہنچی کہ سیاست دانوں نے طلبہ یونین میں اپنے بندے صدر بنائے، جن کا تعلیم کے ساتھ کوئی تعلق تھا، طلبہ مسائل کے ساتھ۔ وہ جن کے ایجنڈے پر آتے تھے، انھی کے لیے کام کرتے تھے اور پھر جب ان بدمعاشوں نے ’’ہماری بلی ہمیں ہی میاؤں‘‘ والی پالیسی پر عمل شروع کیا، تو اُنھیں پولیس مقابلوں میں مروا دیا گیا، جس کے بعد ایک لمبے عرصے تک طلبہ یونین میں خاموشی چھاگئی۔ اُس خاموشی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مختلف سیاسی جماعتوں نے خانہ پری کے لیے ان افراد کو طلبہ یونین کا صدر بنا دیا جن کو تعلیم سے دور ہوئے کئی دہائیاں بیت چکی ہیں اور وہ لوگ ابھی تک طلبہ سیاست پر قبضہ جمائے ہوئے ہیں۔ ایسے افراد جان بوجھ کر طلبہ سیاست میں لائے گئے، تاکہ طالب علموں کی سیاست میں مکمل شمولیت ختم ہوسکے۔
ہمارے آج کے ڈھیر سارے ایسے سیاسی راہ نماؤں جو کئی کئی بار وزیر رہ چکے ہیں، کا آغاز طلبہ سیاست سے ہوا تھا۔ اور تو اور، قیامِ پاکستان سے پہلے ایم ایس ایف نے پاکستان کی آزادی میں بھر پور حصہ لیا تھا، لیکن آج دو ایم ایس ایف بنی ہوئی ہیں اور ان کے صدر وہ ہیں جنھیں سکول، کالج اور یونیورسٹی چھوڑے ہوئے کئی سال گزر چکے ہیں، لیکن وہ لوگ آج بھی طلبہ یونین پر قابض ہیں۔
اس وقت ملک بھر میں کوئی طلبہ یونین اپنا مقام نہیں رکھتی، بل کہ ان پر قبضہ گروپ ہی قابض ہیں۔ اَب کچھ عرصہ سے پاکستانی کی وہ نوجوان نسل جو کالجوں اور یونیورسٹیوں میں زیرِ تعلیم ہے، طلبہ یونین پر سے پابندی اٹھانے کی باتیں کررہی ہے۔ پاکستان کی 66 فی صد آبادی اس وقت 30 سال سے کم عمرکے نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ تقریباً صرف 5 فی صد آبادی کی عمر 65 سال سے زیادہ ہے، جو اپنی زندگی کے دُکھ سکھ دیکھ چکے ہیں۔ ان میں سے بہت سے لوگ ایسے ہیں جو ہر کام میں اللہ کی رضا سمجھ کر خاموشی سے ہر جبر،تکلیف اور دکھ برداشت کرتے آئے ہیں۔ کچھ نے ناانصافیوں کے خلاف آواز اٹھائی اور آگے سے بھر پور تسلی کے بعد وہ بھی توبہ تائب ہوکر کولھو کے بیل بن گئے، لیکن ہماری آج کی نوجوان نسل اپنے ساتھ ہونے والی ہر زیادتی کا اِزالہ چاہتی ہے۔ ظلم اور زیادتی کو برداشت نہیں کرتی۔ کیوں کہ اب اسے جو شعور آچکا ہے، وہ پہلے کبھی نہیں تھا، مگر وہ بھی اس حد تک نہیں پہنچ پایا کہ طلبہ اپنے حقوق کے لیے سامنے آسکیں۔ اس لیے سیاست دانوں کی ان سے امیدیں فی الحال تو پوری ہونے والی نہیں۔ کیوں کہ اس وقت ہمارے ملک میں جو دوھرا نظام تعلیم چل رہا ہے، اُس پر آج تک طلبہ نے آواز نہیں اُٹھائی۔ فیسوں میں اضافے پر طلبہ نے خاموشی نہیں توڑی۔ اور تو اور، پڑھنے کے بعد جب نوکری کی باری آتی ہے، تو وہاں پر سفارشی لوگ آجاتے ہیں۔ اس پر کسی طالب علم نے آواز نہیں اُٹھائی، تو اب مارپیٹ اور ڈنڈے کی سیاست کے سامنے کون سی طلبہ یونین ٹھہر سکے گی؟
اگر ہم اپنے تعلیمی نظام کا جائزہ لیں، تو سرکاری تعلیمی نظام کو اس وقت تین بڑے مسائل درپیش ہیں۔ اول، ملک کے اندر اساتذہ اور سکولوں کی کمی ہے۔ پاکستان میں تقریباً 33 فی صد بچے سکول نہیں جا رہے ہیں۔
دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ ہمارا تعلیمی نظام 30 سال سے زیادہ پرانا ہے۔ زیادہ تر سرکاری سکولوں میں استعمال ہونے والی نصابی کتابیں 1980ء کی دہائی میں لکھی گئی تھیں، جب کہ دنیا کہاں سے کہاں پہنچ چکی ہے۔ ہماری صورتحال یہ ہے کہ ہمارے پی ایچ ڈی ڈاکٹر بھی بانجھ ہیں، جو تخلیقی صلاحیتوں سے فارغ ہیں۔ ایسے لوگ صرف اپنے نام کے ساتھ ڈاکٹر یا تنخواہ میں اضافے کے لیے پی ایچ ڈی کرلیتے ہیں۔
تیسرے نمبر پر ہمارے نجی اور سرکاری تعلیمی نظام میں واضح فرق ہے۔ ملک میں 10 فی صد لوگ اپنے بچوں کو اُردو کی بہ جائے انگریزی بولنے والے نجی اسکولوں میں بھیجتے ہیں اور نجی تعلیمی نظام سے نکلنے والے زیادہ تر بچے اپنے اُردو بولنے والے ہم منصبوں کو مسترد کرتے ہیں۔ یہ ایک واضح تفریق پیدا ہوچکی ہے، جو نفرت کی دیواریں کھڑی کرنے کے علاوہ اور کچھ نہیں کر پارہی۔
اس طرح ہمارے تعلیمی نظام سے باہر آنے والے طلبہ کے لیے پاکستان میں نوکریوں کا برا ہی حال ہے۔ 2008ء میں بے روزگاری کی شرح کا تخمینہ 24.67 فی صد تھا، جس میں اب بہت حد تک اضافہ ہوچکا ہے۔ اس کے علاوہ تقریباً 85 فی صد پاکستانی روزانہ صرف 4ڈالر کماتے ہیں، جو کہ پاکستان میں کالج گریجویٹس کے لیے کوئی پرکشش امکان نہیں۔ اب رہی سہی کسر انٹرنیٹ کی سست سپیڈ نے پوری کردی ہے، جس کی وجہ سے پاکستان سے بہت سی کمپنیاں بند ہوگئی ہیں۔
پاکستان کی سٹوڈنٹ فیڈریشنز کو سیاسی، مذہبی، نسلی، قوم پرست اور فرقہ وارانہ اختلافات میں بھی جھونکا گیا ہے، جس کی وجہ سے وہ اپنے اصل مقاصد سے ہٹ گئی ہیں۔ ایسی صورتِ حال میں پاکستانی طلبہ خاک تیر ماریں گے!
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔