بانیِ پی ٹی آئی عمران خان نے اپنے روپوش پارٹی راہ نماؤں کو ہدایت کی ہے کہ وہ روپوشی ختم کرکے باہر نکلیں اور گرفتاری دیں۔
اڈیالہ جیل میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے اُنھوں نے کہا کہ مَیں خود جیل میں قید ہوں، تو باقی راہ نماؤں کو بھی ڈر چھوڑ کر سا منے آنا چاہیے۔
اُنھوں نے اپنے روپوش پارٹی راہ نماؤں کو ہدایت کی کہ اُن پر جو بھی الزام ہے، باہر آ کر اُس کا سامنا کریں اور گرفتاریاں دے کر عدالتوں سے ضمانت حاصل کریں۔ یاد رہے کہ 9 مئی واقعات کے بعد پی ٹی آئی کے متعدد راہ نما زیرِ زمین چلے گئے تھے اور تاحال اُنھوں نے اپنی روپوشی ختم نہیں کی۔ ان راہ نماؤں میں حماد اظہر، مراد سعید اور میاں اسلم اقبال سمیت دیگر راہ نما بھی شامل ہیں۔ بانیِ پی ٹی آئی عمران خان گذشتہ 13 ماہ سے جیل کی صعوبتیں برداشت کر رہے ہیں، جب کہ ان کے دورِ حکومت میں اقتدار کے مزے لوٹنے والے چند لیڈر مشکل وقت میں پتلی گلی سے نکل گئے۔ عمران خان سے عشق کے دعوے دار ان مجنوؤں نے جی بھر کر اقتدار کی گائے کا دودھ پیا اور رانجھے کی طرح دیسی گھی کی خالص چوری کھائی، لیکن جب قربانی دینے کا وقت آیا، تو یہ نظر بھی نہیں آئے۔ اب ان مجنوؤں سے دودھ پینے کے عوضانے میں خون کا پیالہ طلب کرلیا گیا ہے۔
رؤف حسن کی گرفتاری کے بعد پی ٹی آئی بہت مشکلات کا سامنا کر رہی ہے۔ اس 75 سالہ بوڑھے نے جب تک گرفتاری اور سختی کا سامنا نہیں کیا تھا، تب تک پی ٹی آئی ورکر اور اس کی سوشل میڈیا ٹیم کے لیے یہ مردِ آہن تھا، لیکن گرفتار ہوتے ہی یہ ریت کی دیوار ثابت ہوا اور رٹو توتے کی طرح فرفر بولنے لگا۔ اس نے پی ٹی آئی اور عمران خان سمیت تمام لیڈر شپ کے بارے میں انکشافات کے انبار لگا دیے۔
اَڈیالہ جیل میں عمران خان کے نیٹ ورک اور اس کے سہولت کاروں کی مخبری بھی رؤف حسن ہی نے کی تھی، جس کے نتیجے میں ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ محمد اکرم سمیت 10 افراد کو پہلے فیز میں، جب کہ چھے خواتین اور مرد ملازمین کو دوسرے فیز میں گرفتار کیا گیا، جو عمران خان، بشریٰ بی بی، شاہ محمود قریشی اور چوہدری پرویز الٰہی کے درمیان رابطوں کا ذریعہ بنے ہوئے تھے۔ عمران خان کے انٹرویوز اور آرٹیکلز بھی اسی نیٹ ورک کے ذریعے جیل سے باہر آ رہے تھے اور اعلا حکام سر پکڑے بیٹھے تھے کہ یہ سب کیسے ہو رہا ہے؟
رؤف حسن نے نہ صرف اس نیٹ ورک کی نشان دہی کی، بل کہ فیض حمید کے بارے میں تمام حقائق بھی بتا دیے۔ فیض حمید کے بارے میں پہلے سے ہی تحقیقات چل رہی تھیں۔ گم شدہ کڑیاں رؤف حسن نے ملا دیں اور یوں فیض حمید بھی گرفتار ہو گئے۔
تمام حقائق سامنے آنے کے بعد اعلا حلقوں نے محسوس کیا کہ عمران خان کی لگژری قید حکومت اور اداروں کے لیے بہت سے مسائل پیدا کر رہی ہے۔ وہ دنیا کے واحد ایسے قیدی ہیں جو جیل میں انڈر ٹرائل ہیں اور ان کی رسائی میڈیا تک ہے۔ وہ نت نیا بیانیہ بناکر میڈیا کے ذریعے عوام تک پہنچا رہے ہیں۔ انٹرویو اور بیانات دے رہے ہیں۔
عمران خان کا نیٹ ورک پکڑے جانے اور اس سے معلومات حاصل کرنے کے بعد حکام نے سوچا ہے کہ اَب اُنھیں مزید خصوصی مراعات نہ دی جائیں۔ چناں چہ اَب اُنھیں فلٹرشدہ یا صاف پانی مہیا کرنے کی بہ جائے عام پانی دیا جا رہا ہے۔ اُنھیں اخبارات اور کتابوں کی فراہمی بند کر دی گئی ہے۔ اُن کی نگرانی پر مامور عملہ اُن سے بہت فاصلے پر رہ کر ڈیوٹی دیتا ہے اور اس عملے کی سی سی ٹی وی کیمروں کے ذریعے سخت نگرانی کی جاتی ہے۔ پانی پینے کے لیے عمران خان کو اس میں ملی ریت کے ذرات کے برتن کے پیندے میں بیٹھ جانے کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔ جیل کے دیگر قیدی بھی یہی پانی پیتے ہیں۔ ممکن ہے پی ٹی وی دیکھنے اور ورزش کے آلات کی سہولت بھی ان سے واپس لے لی جائے۔
عمران خان کو مکمل طور پر تنہا کر دیا گیا ہے اور اُن کا سٹیٹس ایک عام قیدی کا رِہ گیا ہے۔ اُنھیں صحیح معنوں میں اَب محسوس ہو رہا ہے کہ قید دراصل ہوتی کیا ہے؟ وہ اس وقت سخت مشکل میں ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ جیل عدالت میں ان کی آیندہ پیشیوں پر میڈیا نمایندگان کو کوریج سے روکنے کا فیصلہ کرلیا گیا ہے۔ دنیا بھر میں ایسا کہیں بھی نہیں ہوتا۔ یہ صرف عمران خان ہی کے لیے خصوصی رعایت دی گئی تھی، جسے واپس لیا جا رہا ہے۔
قیدِ تنہائی حقیقتاً بڑی سخت سزا ہے۔ بندہ دیواروں سے باتیں کرتا رہتا ہے۔ وہ کسی ذی روح سے بات کرنے کو ترس جاتا ہے۔ عمران خان کے گرد گھیرا تنگ ہوا ہے، تو اُنھیں شدت سے احساس ہوا ہے کہ بہ ظاہر اُن کی خاطر روپوشی اختیار کرنے والے اُن کی پارٹی کے لیڈرز تو تعیش بھری زندگی گزار رہے ہیں۔ اُن کی پُراَسرار روپوشی پر بھی سوالیہ نشانات ہیں کہ حماد اظہر کبھی روپوش اور کبھی منظرِ عام پر آ جاتے ہیں۔ وہ کے پی میں جا کر جلسے میں تقریر کر کے آ جاتے ہیں، مگر کوئی ادارہ اُنھیں گرفتار نہیں کرتا۔ میاں اسلم اقبال اپنی بیٹی کی شادی میں شرکت کرتے ہیں، مگر کوئی اُنھیں پوچھتا بھی نہیں۔ اس خودساختہ روپوشی نے اُنھیں عمران خان کی نظروں میں غالباً مشکوک بنا دیا ہے۔ البتہ مراد سعید کسی ایسی پاتال میں اُترے ہیں کہ واپسی کا رستہ ہی بھول گئے ہیں۔
اَب عمران خان نے روپوش لیڈرشپ کو گرفتاری کا حکم دیا ہے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اپنے قائد کے حکم پر لبیک کہتے ہوئے یہ لوگ گرفتاری دے دیں گے یا روپوشی قائم رکھیں گے؟ یہ اُن کی وفاداری کے امتحان کا وقت ہے۔ اگر اُن لوگوں نے مستقبل میں عمران خان کے ساتھ چلنا ہے، تو اُنھیں اس امتحان میں سرخ رُو ہونا ہوگا۔ ورنہ پی ٹی آئی کے میڈیا ورکروں کی طوفانی ٹرولنگ اُنھیں کہیں کا نہیں چھوڑے گی۔ منھ میں سونے کا چمچ لے کر پیدا ہونے والے یہ امیرزادے کیا منظرِ عام پر آ کر فوری گرفتاری دے دیں گے؟ بہ ظاہر تو یہ کافی مشکل لگتا ہے۔ گرمی کا موسم ابھی ختم نہیں ہوا۔ ہوسکتا ہے کہ اکتوبر کے آخر میں یہ لوگ اپنی پناہ گاہوں سے باہر آ جائیں، لیکن پھر دسمبر، جنوری کی سخت سردی بھی سر پہ کھڑی ہوگی، جو قیدیوں کے لیے سخت اذیت ناک ہوتی ہے۔
دیکھتے ہیں کون روپوش لیڈر اپنے قائد کے حکم کی تعمیل کرتا ہے، اور کون اپنی جان بچانے کو فوقیت دیتا ہے کہ ’’جان ہے تو جہان ہے!‘‘
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔