’’کلٹ‘‘ (Cult) انگریزی زبان کا لفظ ہے، جو معنوی اعتبار سے بہت جامع ہے۔ اس کا مطلب دین دار سے لے کر مرید تک، مقلد سے لے کر پرستار تک موقع کی مناسب سے کیا جا سکتا ہے…… لیکن بہرحال یہ اپنے اندر ایک شدید کیفیت کا مظہر ہے، اور کسی بھی لحاظ سے مثبت کردار نہیں مانا جاسکتا۔
سید فیاض حسین گیلانی کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/fayaz/
ہمیشہ ہی سے انسانی تاریخ نے اندھی تقلید کو کبھی تسلیم نہیں کیا۔ حتی کہ دینی نکتۂ نظر سے بھی اگر دیکھا جائے، تو دینی عقائد خدا کے پیغمبروں بارے یہ عقیدہ دیتے ہیں کہ یہ مقدس ہستیاں تعینات منجانب اﷲ ہیں اور اُن کے احکام و تعلیمات اُن کی ذاتی نہیں بلکہ خدا کی ہیں، لیکن اِس کے باجود کبھی کسی بھی پیغمبر نے کسی شخص یا گروہ کو ’’کلٹ‘‘ بنانے کی کوشش کی نہ تبلیغ۔ حتی کہ خدا کے آخری رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے بار بار مکالمہ کی دعوت دی۔ سوالات کی حوصلہ افزائی کی۔ اپنے پیروکار اور شاگرد بنائے، لیکن بعد میں آنے والے کچھ روحانی و مذہبی پیشواؤں نے شاگرد کے بجائے ’’کلٹ‘‘ بنانے پر زور دیا…… اور یہ عقیدہ دیا کہ ہماری بات غلط ہونا تو درکنار، ہماری کسی ہدایت پر سوال اُٹھانا بھی گم راہی ہے۔ اس لیے یا اندھی تقلید کرو یا پھر ہم سے دور ہو جاؤ۔
وقت کے ساتھ ساتھ یہی رویہ سیاست میں داخل ہوتا گیا اور سیاسی کارکنان کی جگہ ’’کلٹ‘‘ نے لے لی۔اِس جدید دور میں اول اس کی مثال ’’ایڈولف ہٹلر‘‘ کی ہے کہ جس نے جرمنی میں ایک ’’کلٹ گروہ‘‘ پیدا کیا اور اس کو جذباتی نعرے دے کر ساتھ ملایا۔ نتیجے میں جرمنی کو توڑ کر تباہ و برباد کر دیا۔ اسی طرح کی ’’کلٹ‘‘ مہاتما گاندھی اور امام خمینی کے ساتھ رہی، جو بہرحال چوں کہ شخصِ واحد تک نہ تھی بلکہ خاص نظریہ سے وابستہ تھی، شاید اسی وجہ سے بہت حد تک اس کا استعمال مثبت ہوا۔
آج بھی ڈولنڈ ٹرمپ اور نریندر مودی اسی کلٹ کی وجہ سے عوامی سطح پر مقبول ہیں۔ مستقبل کا مورخ لکھے گا کہ یہ اپنے ممالک کے لیے ’’ہٹلر ثانی‘‘ بنے یا ’’امام خمینی‘‘۔
پاکستان میں اس کلٹ کا آغاز سیاسی طور پر بابائے قوم سے بھی شروع نہ ہوا۔ کیوں کہ بابائے قوم کی شخصیت سے زیادہ ان کے نظریے خصوصاً ’’قیامِ پاکستان‘‘ کو پذیرائی ملی۔ بعد میں بابائے قوم کو زندگی نے کم مہلت دی۔
پاکستان میں اول یہ کلٹ شیخ مجیب الرحمان نے پیدا کی اور اسی کلٹ نے پاکستان کو توڑ دیا۔ دوسری کلٹ ذوالفقار علی بھٹو کی تھی اور اب تیسری عمران خان کی ہے۔
آج کی نشست میں ہم ذوالفقار علی بھٹو کے جیالوں اور عمران خان کے ٹائیگرز کا موازنہ کریں گے۔ آج جو لوگ خواہ مخواہ ذوالفقار علی بھٹو کا موازنہ عمران خان سے کرنے کی کوشش کرتے ہیں، شاید وہ کلی طور پر غلط ہیں۔ شخصی قابلیت کے حساب سے تو عمران خود بھی یہ تسلیم کرتے ہیں کہ بھٹو ایک عظیم لیڈر تھے، مگر ہمارے صحافی اس کو دونوں کے عوام میں محبت کے حوالے سے دیکھتے ہیں، مگر وہ یہ نہیں دیکھتے کہ دونوں کی مقبولیت کی اوسط جیسی بھی ہو، لیکن قابلیت میں زمین آسمان کا فرق ہے، بلکہ سچ یہ ہے کہ بھٹو کے جیالوں میں شاید صرف دس فی صد کلٹ تھی جب کہ عمران خان کے سو فی صد عاشقان ہیں۔ بھٹو کو (معاذ اﷲ) اگر چند سو اشخاص پیغمبروں کے بعد شخصیت مانتے تھے، تو عمران خان کے اکثر فالورز (معاذ اﷲ) بعد از رسول تصور کرتے ہیں…… بلکہ ایک وفاقی وزیر نے تو ٹی وی پر کَہ دیا تھا کہ اﷲکے بعد عمران خان کائنات کا سب سے عظیم شخص ہے، (استغفر اللہ!)
مذکورہ دونوں فکری طبقوں میں ایک بنیادی فرق تھا۔ بھٹو کا کیڈر وہ لوگ تھے، جو 60ء کے عشرے میں بائیں بازوں کے دانش ور تھے۔ وہ اعلا تعلیم یافتہ تھے۔ تاریخ، سیاست اور معاشرت کے علوم کے ماہر تھے، لیکن بدقسمتی سے اُن کے پاس کوئی عوامی سطح پر چارمنگ مقبول شخصیت نہ تھی۔ بابائے سوشلزم لاہور والے شیخ رشید، ڈاکٹر مبشر حسن، این ڈی خان، یحییٰ بختیارا ور معراج محمد خان جیسے لوگ اپنا پروگرام لے کر شہر شہر خجل خوار ہو رہے تھے، لیکن عوام میں پذیرائی نہ تھی، نہ پہنچان ہی تھی…… لیکن جب ذوالفقار علی بھٹو، ایوب کی حکومت سے نکل کر آئے اور آیندہ کا لایحۂ عمل سوچ رہے تھے، اُن کے پاس دوسری جماعتوں کی آفر تھی، بلکہ مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناح نے اُن کو کنونشن لیگ میں شامل ہونے کا مشورہ دیا تھا، تبھی بائیں بازوں کا یہ گروہ بھٹو صاحب سے لاہور ملا اور اُن کو قائل کیا کہ وہ ایک علاحدہ جماعت بنائیں۔ سو تاریخی حقیقت یہی ہے کہ پیپلز پارٹی بھٹو صاحب نے نہیں، بلکہ ڈاکٹر مبشر حسن، معراج خالد، شیخ رشید لاہور والے، معراج محمد خان اور طارق عزیز جیسے دانش ورانِ ملت نے بنائی تھی کہ جس کے قائد بھٹو صاحب اپنی عوامی مقبولیت اور پُرکشش شخصیت کی وجہ سے بنے تھے ۔ سو اسی وجہ سے یہ جماعت آج تک سیاسی کارکنان کی نرسری کا کام کر رہی۔
دیگر متعلقہ مضامین:
سیاست دانوں کو بدنام کرنا مسئلے کا حل نہیں
انٹرا پارٹی الیکشن، قانونی تقاضے اور غیر جمہوری رویے
پی ٹی آئی کی ڈی آر اُوز پر تشویش بے جا نہیں
انتخابات بہر صورت 8 فروری کو ہوں گے
بلاول بھٹو زرداری کا المیہ
یہ جماعت سب سے زیادہ برداشت اور شایستگی رکھتی ہے۔ اپنے دو مقبول ترین قائدین کی زندگی کی قربانی دے کر بھی انتہا پسندی کی طرف مائل نہیں اور آج بھی اس کا مقبول ترین سلوگن ’’جمہوریت بہترین انتقام‘‘ ہے، جب کہ تحریکِ انصاف کو بنانے والے بنیادی طور پر دو عجیب الفطرت صحافی ہیں۔ مطلب اُنھوں نے ہی عمران خان کو قائل کیا کہ وہ ایک جماعت بنائیں۔ یہ دو صحافی حضرات ایک جماعت اسلامی کا دھتکارا ہوا اور دوسرا محترمہ بینظیر بھٹو سے ہزاروں روپیا ’’روزنامہ مساوات‘‘ کے نام پر کھاکر بھاگا ہوا تھا، یعنی پیپلز پارٹی کا دھتکارا ہوا تھا۔
اس کے بعد عمران خان کو باقاعدہ ہانک کر ایک گروہ دیا گیا کہ جن کا نہ سیاسی مطالعہ تھا، نہ تاریخی علم…… اُن کے دماغ میں یہ بات بٹھائی گئی تھی کہ اب تک کی تمام سیاسی قیادت فراڈ اور کرپٹ ہے۔ عمران واحد اور آخری امید ہے، سو یہی جذباتی کیڈر ’’کلٹ‘‘ بن کر عمران خان کا ٹائیگرز کہلایا۔ اسی کیڈر نے بدتمیزی اور گالی گلوچ کی انتہا کر دی۔ یہ طبقہ عمران خان کو خطاکار ماننے یا سمجھنے سے انکاری ہے اور اسی ’’کلٹ‘‘ نے ہمارے سیاسی نظام کو ہائی جیک کرکے تباہ و برباد تو کیا ہی لیکن خود تحریکِ انصاف اور عمران خان کو بھی برباد کرکے رکھ دیا۔
آج ملک کے اندر سیاسی انارکی اور محاذ آرائی کی انتہا اسی کلٹ نے پیدا کی ہوئی ہے۔ مجھے خطرہ ہے کہ اب جب کہ الیکشن سر پر ہیں، تو کہیں یہ کلٹ ہٹلر کی گسٹاپوں کا روپ دھار کر معاشرتی تناو کا باعث نہ بن جائے۔ ہم نے اپنی کم زور کوششوں سے محترم عمران خان کو اس جانب متوجہ کرنے کی بارہا کوشش کی کہ اس کلٹ کو سیاسی کارکن بنایا جائے، لیکن خان صاحب بھی شاید اس کلٹ کے رویے پر بہت خوش تھے، بلکہ اب بھی ہوں گے۔ کیوں کہ بدقسمتی سے خان صاحب کی شخصیت بھٹو صاحب کے مقابلے میں بالکل صفر ہے۔ خان صاحب کے اندر وہ صلاحیت ہی نہیں کہ وہ کوئی سنجیدہ قدم اٹھا سکیں۔ اُن کے اندر ابھی تک خود پسندی، گلیمر اور سٹار ڈم کا کھلنڈرا کھلاڑی مکمل آب و تاب کے ساتھ موجود ہے۔ وہ اس شعوری کوشش میں ہیں کہ یہ کلٹ نہ صرف تعداد میں بڑھتا جائے، بلکہ اس کے رویے میں بھی شدت زیادہ ہوتی جائے، لیکن ان کو یہ اندازہ نہیں کہ یہ رویے شاید وقتی طور پر تو خان صاحب کو کچھ سیاسی فائدہ دے دیں، لیکن یہ مجموعی طور پر ملک کی سیاست و معاشرت کے لیے زہرِ قاتل ہیں۔ کیوں کہ اب ہوگا کیا…… خدا خان صاحب کو صحت و تن درستی عطا کرے، لیکن وہ بھی بہرحال انسان ہیں اور قریب 72 سال کے ہوچکے ہیں۔ ایک دن اُنھوں نے بھی اس دنیا سے جانا ہے، تو بعد میں کیا ہوگا؟ لازم طور پر اس کلٹ کی اکثریت پھر ملکی سالمیت اور ریاست سے باغی ہوجائے گی۔ ماضیِ قریب میں جرمنی میں یہ ہوا جب ہٹلر نے جرمنی کو تباہ کروا دیا اور اتحادیوں نے ہر چیز کو درہم برہم کردیا، تو اس کلٹ نے اس کو ہٹلر کی ناکامی یا نا اہلی ماننے سے انکار کردیا۔ عوامی بغاوت برپا کر دی۔ نتیجتاً مغربی و مشرقی جرمنی بن گیا، دیوارِ برلن بن گئی، جو بہت عرصہ بعد جا کر ٹوٹی۔ یہی کام بنگال میں مکتی باہنی نے کیا اور سیاسی خلا پیدا ہوتے ہی چٹاگانک سے رنگ پور تک ہر طرف لہو کی بدبو اور لاشوں کی سڑانڈ دیکھنے کو ملی اور پھر اس کے بطن سے ایک نیا ملک پیدا ہوا۔ ڈھاکہ ڈوب گیا اور قائد اعظم کا پاکستان ٹوٹ گیا۔
مَیں پورے یقین سے کہتا ہوں کہ اگر اس کلٹ کو فوری طور پر صراطِ مسقیم پر نہ ڈالا گیا اور آیندہ الیکشن میں عوام کی رائے کو تسلیم کرنے کے بجائے کوئی جھرلو پھیرنے کی کوشش کی گئی، تو پھر ملکی سالمیت مکمل رسک پر چلی جائے گی، اور یہ عمرانی کلٹ آخری انتہا تک جاسکتی ہے۔
اس فورم سے ہم اپنی اسٹیبلشمنٹ سے بھی یہ عرض کریں گے کہ وہ بھی اپنے رویے پر غور کریں۔ مثال کے طور پر آپ نے 80ء اور 90ء کی دہائی میں بینظیر کو کارنر کرنے کے لیے ہر غیر اخلاقی اور غیر آئینی کام کیا، کیا ملا آپ کو……؟ آج جنرل اختر رحمان سے لے کر حمید گل تک کہاں ہیں؟ جہاں آج وہ ہیں، وہی کل جنرل پاشا، باجوہ اور فیض حمید نے ہونا ہے۔ جنرل سید عاصم منیر صاحب نے بھی وہی جانا ہے۔المختصر، ہم صرف یہ کہنا چاہتے ہیں کہ ہماری اسٹیبلشمنٹ سیاسی جماعتیں اور خاص کر سول سوسائٹی ایک بات کو سنجیدہ لے اور وہ یہ کہ سیاست کو مثبت کریں اور اپنے نظریہ کو پیش کرکے اپنے ووٹر، سپورٹر اور خصوصاً سیاسی کارکن بنائیں۔ سیاسی کارکن میں ایک حد تک جذباتیت کا ہونا تو فطری ہے، لیکن اس کو ’’کلٹ‘‘ یا ’’مریدین‘‘ بلکہ ’’پرستار‘‘ مت بنائیں۔ کیوں کہ اس صدی میں کوئی خدا کا نام زد نمایندہ نہیں، بعض روایات کے مطابق امام مہدی کا آنا ثابت ہے۔ سو امام مہدی کے علاوہ کسی بھی دنیاوی شخصیت کا مرید بن کر اس کو غلطیوں سے مبرا مان لینا ایک بہت بڑی حماقت ہوگی اور یہ اجتماعی حماقت آپ کو ماضی کے جرمنی یا سنہ 70ء کے پاکستان خصوصاً مشرقی پاکستان لے جائے گی۔ نتیجہ بہت ہی خوف ناک ہوسکتا ہے۔ اس لیے اس سیاسی کیڈر کو آہستہ آہستہ دھیمے مزاج سے سمجھائیں اور کوشش کریں کہ وہ اس جعلی روحانیت اور عقیدے سے باہر نکلیں۔ وگرنہ اگر تحریک انصاف کی یہ ’’کلٹ‘‘ ایسی ہی رہی، بلکہ اس میں اضافہ ہوتا گیا، تو پھر سیاست کو تو رکھ چھوڑیں، اس ملک کا خدا ہی حافظ ہوگا۔
ہم نیک و بد حضور کو سمجھائے جاتے ہیں
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔