پاکستان اس وقت معاشی تباہی کے دہانے پر ہے۔ سوال یہ نہیں کہ معاشی تباہی کا ذمے دار کون ہے؟ زبوں حالی کس کے دستِ کمال کا تحفہ ہے؟کون ہے جس نے اس ملک کو اس مقام تک پہنچایا ہے؟ کون ہے جس نے اس کے خزانوں کو خالی کیا ہے؟
طارق حسین بٹ کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/butt/
میری ذتی رائے ہے کہ ساری سیاسی جماعتیں اپنے اپنے دورِ حکومت میں معاشی تباہی کی قصور وار ہیں۔ اقتدار کے خاتمے کے بعدسب تسلیم کرتے ہیں کہ ان کے پاس اختیار نہیں تھا۔ اُنھیں فیصلوں کی آزادی نہیں تھی۔ اُن کے ہاتھ بندھے ہوئے تھے ۔ وہ جو کچھ کرنا چاہتے تھے کر نہیں پاتے تھے۔ اُنھیں مجبور بناکر رکھا جاتا تھا۔ اسٹیبلشمنٹ اُن پر اپنے فیصلے مسلط کرتی تھی۔ حالاں کہ جب سیاست دان اقتدار میں ہوتے ہیں، تو اُن کا دماغ ساتویں آسمان پر ہوتا ہے اور وہ کسی کی بات کو وزن نہیں دیتے۔ وہ خود کو عقلِ کل سمجھ کر اپنی من مانیاں کرتے ہیں۔ اُنھیں ہر مشورہ ناگوار گزرتا ہے۔ وہ مشورہ سننے کی زحمت گوارا نہیں کرتے۔ کیوں کہ وہ خود کو عقل و دانش کا پیکر سمجھتے ہیں، جس کا منطقی نتیجہ ملکی معیشت کی تباہی کی صورت میں بر آمد ہوتا ہے۔ اس وقت انھیں ہر مشورہ نا گوار گزرتا ہے۔ وہ مشورہ سننے کی زحمت گوارا نہیں کرتے۔ کیوں کہ وہ خود کو عقل و دانش کا پیکر سمجھتے ہیں۔
اسٹیبلشمنٹ ایک حقیقت ہے اور ساری سیاسی جماعتیں اقتدار کی خاطر ان کے درِ اقدس پر سجدۂ سہو بجا لاتی ہیں۔ پی پی پی جیسی انقلابی جماعت کو بھی آخرِکار اس حقیقت کو تسلیم کرنا پڑا تھا کہ اسٹیبلشمنٹ کو رام کیے بغیر کچھ ہاتھ نہیں آتا۔ اسٹیبلشمنٹ کی قوت کا اندازہ لگانا ہو، تو پھر 1988ء میں پی پی پی کے ساتھ جو کچھ ہوا تھا، اُسے یاد کیجیے۔ جنرل حمید گل کی زیرِ سرپرستی میں ’’اسلامی جمہوری اتحاد‘‘ کا قیام پی پی پی کا راستہ روکنے کے لیے بنایا گیا تھا۔ اسٹیبلشمنٹ نے محترمہ بے نظیر بھٹو کو حقِ حکومت تفویض کرنے سے قبل اپنا صدر، وزیرِ خارجہ اور وزیرِ خزانہ ادھار دیا تھا۔ اختیارات کی منتقلی توبہت بعد کی بات ہے۔ انتقالِ اقتدار تو ہوجاتا ہے، لیکن انتقالِ ا ختیار نہیں ہوتا۔ جو مکمل اختیارات کا سوچتا ہے، وہ سڑکیں ناپتا رہتا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ 18 ما ہ کے بعد بے نظیر حکومت تاریخ کا حصہ بن چکی تھی۔ 11 سالوں کی صعوبتوں اور جَلا وطنی کے بعد حکومت ملی بھی تو لنگڑی لولی، جسے 18 ماہ سے زیادہ اقتدار میں رہنے کی اجازت نہیں تھی۔ اُس وقت تو سارے ’’نام نہاد جمہوریت پسند‘‘ بی بی کے خلاف متحدہ محاذ بنائے ہوئے تھے اور اُنھیں سیکورٹی رسک قرار دے رہے تھے۔ اقتدار کی خاطر وہ پاگل پن کا شکار ہوچکے تھے۔ جن کی منزل اقتدار ہو، وہ کسی کی قربانیوں کو کبھی اہمیت نہیں دیتے۔ کیا کہیں پر اپنے ملک کی خاطر جان لڑانے والوں کے ساتھ ایسا رویہ اپنایا جاتا ہے؟
دیگر متعلقہ مضامین:
پولی ٹیکل انجینئر، سیاست دان اور عوام 
بنیادی اقدار سے انجان سیاست دان 
یہ ہے ہماری سیاست 
مخاصمت کی سیاست میں کسی کا بھلا نہیں 
غیر منطقی طور پر سیاست زدہ معاشرہ 
ایٹم بم کے خالق اور اُس کی جماعت کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ ناقابلِ یقین ہے۔ جیلوں، زِندانوں، آزمایشوں اور مشکلات کے طویل سفر کے بعد تو اعزازات سے نوازا جاتا ہے، لیکن پاکستان میں جد و جہد کا انعام اعزازات نہیں، بلکہ رسوائی، جیلیں اور مرگِ بے شرف ہوتا ہے۔ عدلیہ اور تمام ریاستی ادارے زور آوروں کے قدم سے قدم ملا کر چلتے ہیں، اور یوں ظلم کی نئی داستان رقم کرتے چلے جاتے ہیں۔ معتوب ہونے والوں کی کہیں شنوائی نہیں ہوتی، کہیں سے کوئی ریلیف نہیں ملتا، بس ایک اندھیری رات اُن پر مسلط کر دی جاتی ہے اور اُنھیں اس میں جینے کے لیے مجبور کر دیا جاتا ہے۔ الزامات کی ایک نا ختم ہونے والی کہانی شروع ہوجاتی ہے۔ اقتدارسے رخصتی کے بعد بی بی شہید کی کرپشن اور غداری کے مقدمات سے جس طرح کردار کُشی کی گئی، اُسے پڑھ کر گن آتی ہے۔
اس ملک کا ایک ہی سچ ہے کہ ’’ہا تھی کے پاؤں میں سب کا پاؤں‘‘۔ سوشل میڈیا اور پریس کی آزادی کے بعد حالات میں کچھ بدلاو تو محسوس ہو رہا ہے، لیکن ہنوز دلّی دور است۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اب بھی دلوں میں منافقت اور بدنیتی کا راج ہے۔ اندر اور باہر میں تضاد ہے۔ اب بھی پسِ پردہ زور آوروں سے مفاہمت اور سودے بازی کی کوششیں ہو رہی ہیں۔ اقتدار کی واپسی کے لیے منتیں کی جا رہی ہیں۔
اُندلس کے ساحل پر طارق بن زیاد کی طرح کشتیاں جلانے والے پیدا ہوجائیں گے، تو سارا منظر بدل جائے گا۔ جمہوری منزل کی جانب اُٹھنے والے قدم جان لیوااذیتوں سے گزریں گے، تو تب کہیں جاکر اس سحر کا ہیولہ سامنے آئے گا، جس کے لیے دلیر، نڈر، جرات مند اور بے خوف قائدین نے اپنے لہو کا خراج دیا تھا۔ سچی جمہوری منزل تک پہنچنے کے لیے آگ و خون کے دریا کو عبور کرنا ہوگا، لیکن پہلے دل کے اندر مو ج زن فکر کو واضح سمت دینا ہوگی۔ جھوٹے اور جعلی نعروں کی بجائے سچے اور کھرے افکار کا پیرہن زیبِِ تن کرنا ہوگا۔ خالی نعروں اور بڑھکوں سے منظر نہیں بدلتا۔ کچھ قائدین جھوٹ، مکر، فریب اور غلط بیانی کو اپنی زندگی کا اُوڑھنا بچھونا بناتے ہیں، لیکن خود کو انقلابی بھی قرار دیتے ہیں، جو کہ خود فریبی کے سوا اور کچھ نہیں ہوتا۔ یہ ہمارا مشاہدہ ہے کہ جھوٹ کی سیاست کرنے والے خود کو سچائی کا پیکر اور امانت و دیانت کا استعارہ بتاتے نہیں تھکتے۔ اُنھیں خود بھی علم ہوتا ہے کہ اُن کی سیاست جھوٹ اور مکر و فریب پر کھڑی ہے، لیکن اس کے باوجود وہ اپنی پارسائی کا علم بلند کیے رکھتے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ عزم و ہمت اور کمٹمنٹ پر جم کر کھڑے ہونے والوں کی آواز ہی تسخیرِ قلب ونظر ہوتی ہے، لیکن ایسی آواز ہے کہاں پر……؟ جب تک ایسی آواز فضاؤں میں ارتعاش پیدا نہیں کرتی، تبدیلی ایک خواب ہی رہے گی۔ علامہ اقبالؔ نے اس ساری کیفیت کو اپنے رنگ میں کچھ یوں بیان کیا تھا:
نالہ ہے بلبلِ شوریدہ ترا خام ابھی
اپنے سینہ میں اسے اور ذرا تھام ابھی
جبرِ مسلسل کی چوٹوں کو سہنے اور اپنے نظریات پر ڈٹ جانے کے بعد ایسا مقام آتا ہے، جہاں طالع آزماؤں کو مکمل حزیمت سے ہم کنار ہونا پڑتا ہے۔ سچ کا اپنا جہاں ہوتا ہے۔ سچائی کی اپنی دنیا ہوتی ہے۔ حق کی اپنی اثر آفرینی ہوتی ہے، جب کہ جھوٹ کی آبیاری کبھی ثمربار نہیں ہوسکتی۔
وقت کی بے رحم کٹھالیوں سے گزرے بغیر صدف کے اندر پانی موتی کا روپ اختیار نہیں کرتا۔ موتی بننا ہے، تو پھر گردشِ فلک کا سامنا ناگزیر ہوتا ہے۔ جب سچائی کی قدر و قیمت عوام پر آشکار ہوجاتی ہے، تو پھر اُن کے دلوں سے موت کا خوف ہوا ہوجاتا ہے، اور وہ سچ کی خاطر جان دینے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ اُنھیں کوئی دبا نہیں سکتا، کوئی ڈرا نہیں سکتا اور نہ کوئی اُنھیں ہراساں ہی کرسکتاہے۔ وہ سرِ دار موت کے پھندے کو یوں چومتے ہیں، جیسے ممتا اپنے لختِ جگر کا منھ چومتی ہے۔ تاریخ کے پنوں میں یہی راز دفن ہے کہ سچ کی خاطر موت کو گلے لگانے والوں کا مقام عرشِ معلی پرہوتا ہے۔ گلی گلی، قریہ قریہ، شہر شہر اور بستی بستی ایسے سر فروش منظرِ عام پر آ جاتے ہیں جو سچ کی خاطر زہر کا پیالہ پینے کو فخر سمجھتے ہیں۔ یہ سب کچھ اس وقت ممکن ہوتا ہے جب قیادت سچی، صالح، ایمان دار، مخلص اور دیانت دار ہو۔ اس کے دامن پر کرپشن، لوٹ مار اور ذاتی حرص و ہوس کے داغ نہ ہوں، جب کہ مخالفین بھی اس کی اصول پسندی کی گواہی دیں۔ ہر بات پر مکر جانا، ہر بات سے پھر جانا، ہر بات کو ہوا میں اُڑا دینا، ہر بات کا تمسخر اُڑانا، وعدوں کو غیر اہم سمجھنا، وعدہ ایفائی کو مذاق بنانا اور دوسروں کی ذات کو کسی ایسی بات پر ہدفِ تنقید بنانا جو ان سے منسوب ہی نہ ہو، قیادت کو پستی کی جانب دھکیلتی ہے۔
امام خمینی کی ذات میں اعلا قیادت کے وہ سارے عناصر موجود تھے، جن کا مَیں نے ذِ کر کیا ہے۔ قائدِ اعظم محمد علی جناح اُصول پسندی کی درخشندہ مثال تھے۔ ان کے کردار کی عظمت کے سامنے مہاتما گاندھی بھی سرِ تسلیم خم کرتے تھے۔ اُن کا کہنا تھا: ’’محمد علی جناح نے اپنے اعلا کردار کی عظمت سے اپنی زندگی کے سب سے بڑے مرحلے کو طے کیا تھا۔ مَیں ذاتی طور پر اس کے کردار کی عظمت کا قائل ہوں۔‘‘
قومی قیادت کردار کی عظمت کا استعارہ بنے گی، تو پاکستان کی ناو ساحل سے ہم کنار ہوگی۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔