ہم سب کی ایک عجیب ’’کامن فینٹسی‘‘ ہے اور وہ یہ کہ ہم سب ایسے انسان بن جائیں جنھیں اس بات سے ہر گز کوئی فرق نہ پڑتا ہو کہ ’’لوگ اس کے متعلق کیا کہتے یا سوچتے ہیں!‘‘ ایک ایسا دماغ جو دوسروں کی رائے اور خیالات کی فکر سے بالکل آزاد ہو۔ مثبت انرجی سے بھرپور سیلف ہیلپ کتابیں اور انھیں لکھنے والے گرو اس بات پر زور دیتے ہیں کہ دنیا کا تو کام ہی تنقید کرنا یا حوصلے پست کرنا ہے، ہمیں پروا نہیں ہونی چاہیے۔ کیا ہم واقعی میں ’’لوگ کیا کہیں گے!‘‘ کی پروا کیے بغیر عملی طور پر پُرسکون زندگی گزار سکتے ہیں…… یا پھر یہ بھی ہمارے دماغ کی تیار کردہ بے شمار خوش فہمیوں اور تصورات میں سے ایک ہے جس کا حقیقی دنیا سے کوئی تعلق نہیں؟ ہم دوسروں کے متعلق کیوں سوچتے ہیں؟
سال 2003ء میں سائیکالوجسٹ ’’نومی آئیزنبرجر‘‘(Naomi Eisenberger) نے "Cyberball” کے نام سے ایک تجربہ ڈیزائن کیا۔ نومی اس بات کی کھوج لگانا چاہتی تھیں کہ آخر ہمیں دوسروں کی رائے یا ان کے ’’ری جیکشن‘‘ سے کیوں فرق پڑتا ہے؟ ’’لوگ کیا سوچیں گے!‘‘ کا ہمارے دماغ کے کن حصوں پر اثر ہوتا ہے؟ زبانوں میں ’’دل‘‘ اور ’’ٹانگ‘‘ دونوں کے لیے ’’ٹوٹنے‘‘ کا لفظ کیوں استعمال کیا جاتا ہے؟ سائبر بال کے تجربے کے دوران میں برین اسکین سے یہ بات سامنے آئی کہ ’’ایموشنل پین‘‘ کے دوران میں بھی وہی نیورل سرکٹ آن ہوتے ہیں جو ’’فیزیکل پین‘‘ ملنے پر متحرک ہوتے ہیں۔ ہمارا دماغ ٹوٹا ہوا ’’دل‘‘ اور ٹوٹی ہوئی ’’ٹانگ‘‘ میں فرق کرنے سے قاصر ہے (نیورو سائنٹسٹ کا ماننا ہے کہ فطرت نے ’’ایموشنل پین‘‘ کے لیے نیا سرکٹ بنانے کی بجائے شارٹ کٹ کا سہارا لیتے ہوتے ’’فیزیکل پین‘‘ کا نیورل سرکٹ استعمال کیا۔) تجربے میں شامل افراد کو دکھی ہونے پر پین کلر (Pain Killer) لینا تجویز کیا گیا، جسے لینے پر انھوں نے دُکھ کی شدت میں کمی کا اظہار کیا…… لیکن کیا جب بھی دنیا ہمیں لعن طعن کرے، تنقید کرے، ری جیکشن ملے، تو پین کلر انڈیل لینا یقینا مسئلے کا حل نہیں!
ایولیوشنری سائیکالوجسٹز کے مطابق ہماری "Specie” نے زیادہ عرصہ قبیلوں کی شکل میں گزارا ہے، جو عموماً 30-120 افراد پر مشتمل ہوتا تھا۔ اپنی بقا کے لیے قبیلے کا ہر فرد باقی کے افراد پر انحصار کرتا تھا۔ چیتے کے لیے اس کی رفتار، سانپ کے لیے اس کا زہر، تو انسانوں کے لیے "Social Cooperation” اپنی بقا کا سب سے اہم ہتھیار تھا۔ اگر کوئی فرد تعاون کرنے سے انکار کرتا یا قبیلے کے بنائے ہوئے اصولوں کو فالو نہ کرتا، گروپ سے نکالے جانے پر جنگلوں میں اکیلے سروائیول ممکن نہیں تھا، اس وقت ہماری "Specie” کے لیے سوشل ری جیکشن، موت کے مترادف تھی، یہ سوچنا کہ گروپ کے افراد ایک دوسرے کے متعلق کیا سوچتے ہیں، ایک "Social Specie” کی بقا کے لیے ضروری تھا۔ اُس عہد میں انسانوں کے لیے: Social Rejection= Death تھا۔
بہت ممکن ہے یہی وجہ ہے کہ ماڈرن دنیا میں بھی معاشرے یا لوگوں کا جانب دارانہ رویہ، دوست اور احباب کا ہمیں دعوتوں پر مدعو نہ کرنا، ہمارے متعلق منفی سوچنا، کوئی ہماری دوستی یا پروپوزل ری جیکٹ کردے، اس کا ہمارے دماغ پر اثر کسی کار ایکسیڈنٹ یا "Kidney Transplant” سے ملنے والے "Trauma” کے مترادف ہوتا ہے۔ جب کہ ماڈرن دنیا کی ایک خوب صورتی یہ بھی ہے کہ یہاں آپ جب چاہیں اپنا قبیلہ بدل سکتے ہیں۔ اپنے ہم خیال یا وہ لوگ جو آپ کے "Non-conformist” ہونے کو "Validate” کرتے ہیں یا پھر جن کی دلچسپیاں آپ کی دلچسپیوں سے میل کھاتی ہیں، آپ ان کے گروپ کا حصہ بن سکتے ہیں، لیکن یہ یقینا اتنا آسان نہیں۔ انسانی دماغ کے متعلق نیوروسائنٹسٹ ابھیجیت ناسکر اپنی کتاب "Seven billion gods: Humans above all” میں لکھتے ہیں: ’’آپ انسان کو اسٹون ایج سے باہر تو لا سکتے ہیں، لیکن اسٹون ایج کو انسان کے دماغ سے باہر نہیں نکال سکتے۔‘‘
ہم ’’لوگ کیا کہیں گے!‘‘ کے متعلق سوچنا کب چھوڑتے ہیں؟
ہم لوگوں کی رائے کے متعلق سوچنا کبھی نہیں چھوڑ سکتے، سوشل ری جیکشن ہمیں تکلیف پہنچائے گا، چاہے کوئی کتنی ہی بے پروائی اور بہادری کا مظاہرہ کیوں نہ کرلیں۔ کیوں کہ یہ کوئی ذہنی فطور نہیں بلکہ ہمارے دماغ میں "Wired” ہے۔
لیکن یہاں ایک "Exception” ہے، دنیا میں ایسے بہت سے افراد گزرے ہیں جو "Non-conformist” رہے ہیں، کیوں کہ لوگ عموماً تب اپنے آس پاس والوں کی رائے یا خیال سے متاثر ہونا چھوڑ دیتے ہیں جب ان کا مقصد، جس کی خاطر وہ "Non-conformist” بن جاتے ہیں، ان کے لیے اس قدر اہمیت کا حامل ہوتا ہے کہ معاشرہ اور قریبی لوگ کم اہم محسوس ہونے لگتے ہیں۔ مثال کے طور پر اگر ایک گاؤں میں لڑکیوں کی تعلیم کا رواج نہیں ہے، لیکن وہاں ایک شخص اپنی بیٹیوں کو پڑھا رہا ہے، اسے یقینا آس پاس سے نفرت اور سوشل ری جیکشن کا سامنا ہوگا، لوگ اس سے تعلق توڑ لیں گے، اسے گاؤں سے بھی در بدر کر دیا جائے، لیکن بہت ممکن ہے وہ اس ری جیکشن کو سروائیو کر جائے گا۔ کیوں کہ اس کا مقصد اس کے لیے اس ری جیکشن یا ’’لوگ کیا کہیں گے!‘‘ سے زیادہ اہم ہے (البتہ یہ ناممکن ہے کہ اسے اس تمام تر سفر میں انتہائی ذہنی تکلیف کا سامنا نہ کرنا پڑے۔) یہ ایک "Paradox” ہے، ہم "Non-conformist” ہونے سے خوف زدہ ہوتے ہیں، لیکن وہ "Non-conformist” ہی ہیں جو تبدیلی (اچھی یا بری) کا باعث بنتے ہیں۔ البتہ بہت سے افراد صرف ان باتوں کو لے کر بھی ہلکان ہوتے رہتے ہیں کہ لوگ ان کے کپڑوں، بالوں اور جوتوں کے متعلق کیا سوچتے ہیں؟ یہ ’’ڈی پینڈ‘‘ کرتا ہے کہ کس کے لیے کیا اہمیت رکھتا ہے؟ سوشل "Validation” یا آس پاس والوں کی سوچ سے اپنی جان چھڑانا ممکن نہیں۔ بعض لوگوں کو بے جا اور غیر ضروری حرکات اور چیزوں پر لوگوں سے "Validation” چاہیے ہوتی ہے، کچھ افراد اپنے اعلا مقاصد کے لیے عمدہ لوگوں سے اپنے کام کی توثیق چاہتے ہیں۔ البتہ اس ماڈرن دنیا میں بھی فی الحال ’’لوگوں کے متعلق نہ سوچنے‘‘ کا یا ان کی توثیق حاصل نہ کرنے کا سلسلہ نہیں تھمنے والا۔ ہم جیسے عام لوگوں کا ایسی دنیا کا تصور کرنا جہاں کسی کو کسی کی بات سے کوئی فرق نہ پڑتا ہو (سوائے ان چند لوگوں کے جو کسی اعلا مقصد کے لیے ارد گرد والوں کی سوچ سے بے پروا ہوئے) یقینا خوفناک ہے۔ لوگوں کا ہمارے متعلق سوچنا اور ہمارا ان کی رائے (اگر رائے اس قابل ہے ) کو اہمیت دینا کسی حد تک ہمیں بہتر انسان بھی بناتا ہے۔
…………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔