فیض میلہ یوں تو ہر برس لاہور میں سجتا ہے، مگر اب کے برس بات قدرے مختلف تھی۔ ایک فلمی اور ادبی جوڑا سرحد کے اُس پار سے سات برس کے بعد پاکستان آرہا تھا۔ فلمی اور ادبی اس لیے کہا کہ شبانہ اعظمی کا تعلق فلم سے ہے اور جاوید اختر فلم کے میدان کے علاوہ ایک ادبی شخصیت بھی ہیں۔ نئی نسل میں سے کچھ کچھ تو جاوید اختر کے نام سے واقف ہیں، باقی کے ساتھ متعارف کروانے کے لیے ’’فرحان اختر‘‘ کا نام لینا پڑے گا۔ اس میں کسی نسل کا قصور نہیں بلکہ یہ ’’جنریشن گیپ‘‘ کا معاملہ ہے۔جانثار اختر کا نام میں نے نہیں سنا تھا۔ان سے آشنائی ان کے بیٹے جاوید اختر کے نام سے ہوئی۔ اپنے ملک کے ادیبوں اور شاعروں سے تو ملاقات ہو ہی جاتی ہے، سوچا جاوید اختر صاحب آرہے ہیں، تو اسی بہانے فیض کی روح کو سکون پہنچانے ہم بھی شہرِ لاہور کی رونقوں میں خود کو گم کرلیں۔ ’’نسخہ ہائے وفا‘‘ سے میرا تعلق فرسٹ ائیر سے ہے۔ جب اردو کے پرچے میں سوال ختم ہوجاتے تھے،تو راقم الحروف فیض کی نظم’’ آج بازار میں پابجولاں چلو‘‘ لکھ آیا کرتا تھا۔ ’’جشنِ ریختہ‘‘ پر جانے کا خواب تو پہلے ہی چکنا چور ہو چکا تھا، سو مجھ جیسوں نے جاوید اختر صاحب کا پاکستان آنا ہی غنیمت جانا۔
کامریڈ سلمان درانی کو فیض، لاہور اور جاوید کے متعلق کہا، تو وہ ہم رکاب بننے کو تیار ہوگیا۔ یہ میرا شہرِ لاہور میں اس برس کا چوتھا پڑاؤ تھا۔ داتا کی نگری میں بار بار قدم رکھنے کا موقعہ دے کر قسمت آپ پر یوں بھی مہربان ہو جایا کرتی ہے۔ بندے نے لاہور جانا ہو، تو ٹرین سے زیادہ دلچسپ سفر میرے نزدیک اور کوئی نہیں۔ رات کے وقت ٹرین میں سفر پہلے کبھی نہ کیا۔ سوچا اس بار یہ تجربہ کیا جائے۔ درانی اور میں نے یوں تو وعدہ کیا تھا کہ رات گئے تک گفتگو اور بحث و مباحثہ جاری رہے گا، مگر بڑی کوشش کے بعد بھی تین بجے کے قریب آنکھوں نے مزید کھلی رہنے سے معذرت کرلی اور خاکسار اس نتیجے پر پہنچا کہ نیند سے جنگ نہیں لڑنی چاہیے۔ پھر رات کا سفر مقصود ہو، تو برتھ کروا لی جائے۔ سو،پانچ بجے کے قریب لاہور جنکشن پر قدم رنجہ فرمایا۔ صبح کا اجالا دیکھا، تو پیٹ خالی خالی محسوس ہوا۔ نگاہیں ہوٹل ڈھونڈنے لگیں۔ اسٹیشن کے قرب میں ایک ہوٹل نظر آیا، تو وہاں پہنچ گئے۔ وہاں یوں محسوس ہوا جیسے مکھیوں نے رت جگا کیا ہو۔ معلوم نہیں کیوں، وہاں مجھے یوں محسوس ہوا کہ ہوسکتا ہے یہاں کوئی اچھا اور بیٹھنے لائق ہوٹل موجود ہے۔ باہر نکل کر تھوڑا دور تک چلا کہ ایک اندر جاتی ہوئی گلی میں نگاہ دوڑائی۔ قِطار میں چائے، مچھلی اور حلوہ پوڑی کے سٹالز نظر آئے۔ یہ حافظ ہوٹل تھا۔ ہم نے یہاں پراٹھا اور چنا آرڈر کیا۔یقین جانئے یہ لاہور کا کوئی زیادہ مشہور چنا تو نہ تھا، مگر اِس ’’چسکورے‘‘ شخص نے ایسے چنے کبھی پنڈی میں نہیں کھائے۔ پنڈی والے چنوں سے بے انصافی بڑے بہترین انداز سے کرتے ہیں۔ اول وہ چنے بناتے ہوئے بڑے سائز کے چنے استعمال کرتے ہیں۔ دوسرا، وہ چنوں کا مصالحہ بنانے کی بجائے اس کا شوربہ بنا ڈالتے ہیں۔ کم از کم لاہوری ایسی گستاخی نہیں کرتے اور چنوں کا پورا پورا حق ادا کرتے ہیں۔
آمدم برسر مطلب، صبح سات بجے دوست کے گھر پہنچا، تو یوں محسوس ہوا جیسے بستر کب سے میری راہ تک رہا ہے، بستر میں داخل ہوتے ہی آنکھ لگ گئی۔ دوپہر کو جب آنکھ کھلی، تو اہلِ پاکستان جمعہ کی نماز ادا کرچکے تھے۔ رکشہ چوں کہ لاہور کی شاہی سواری ہے، تو آپ پر لازم ہے کہ اس کا سفر کریں۔ سو ہم بھی اس میں بیٹھ کر الحمرا ہال پہنچے۔ الحمرا کی عمارت پر لگے پینا فلیکس میں جلوہ گر فیضؔ صاحب نے ہمارا استقبال کیا۔ اندر داخل ہوئے، تو کامریڈ زوار سے ملاقات ہوئی۔ یوں تو میری ان سے شناسائی نہیں، مگر درانی کے توسط سے سلام دعا رہی۔ فیض فیسٹیول کا آغاز ’’کیفی اور فیض‘‘ کے سیشن سے تھا اور جمعہ کے دن ایک یہی پروگرام طے تھا، جس میں ایک طرف کیفی کی بیٹی شبانہ اعظمی اور دوسری طرف فیض کی دُختر سلیمہ ہاشمی سے گفتگو تھی۔ ہال میں داخل ہونے لگے، تو دروازے پر یہ عبارت آویزاں تھی "Silence and smile: smile to solve problems and silence to avoid problems.” ہم پاکستانیوں کے یہی تو دو مسائل ہیں۔ اول ہم بولتے زیادہ ہیں، اور جب فضول نکتہ چینی سے نقصان اٹھاتے ہیں، تو دوسرے پر ہی غصہ ہوتے ہیں۔ اگر چپ رہ نہیں سکتے، تو کم سے کم مشکل میں غصے کی بجائے مسکرا تو سکتے ہیں اور اسی میں ہی بہتری ہوگی۔ کیفی اور فیضؔ پر سیشن چار بجے تھا۔ ہم سیشن سے 1 5 منٹ پہلے پہنچے۔ الحمرا کے ہال نمبر ’’ایک‘‘ میں لگ بھگ چھے سو نشستیں ہیں۔80 فیصد ہال بھر چکا تھا۔ میں نے اپنی 27 سالہ زندگی میں 150 کے قریب ایونٹس میں شرکت کی ہوگی۔ ان میں ادبی، ثقافتی، سائنسی اور کانسرٹ کی کیٹیگریز شامل ہیں۔ میں نے ہمیشہ عوام کو بروقت پہنچتے نہیں دیکھا۔ یہاں شائد جلدی پہنچنے کی ایک وجہ جاوید اور شبانہ بھی تھی۔ ہال کے جلدی بھر جانے کا ڈر ہی عوام کو وقت سے پہلے کھینچ لایا۔

الحمرا ہال میں فیض فیسٹول کا لگا بینر جس میں فیضؔ صاحب جلوہ گر ہیں۔ (Photo: Dawn)

اس موقعہ پر ہال میں جب جاوید اختر صاحب داخل ہوئے، تو کوئی باقاعدہ اناؤنسمنٹ نہیں ہوئی۔ پہلی نشست پر بیٹھے سامعین نے جاوید صاحب کو داخل ہوتے دیکھا، تو تالیاں بجانے لگے۔ اوپر کی نشست پر بیٹھے عوام نے غور کیا، تو تالیوں کا ایک نہ تھمنے والا سلسلہ شروع ہوا۔ لوگ اپنی نشست سے اُٹھ کھڑے ہوئے اور بھارت کی اس عظیم شخصیت کا استقبال کرنے لگے۔ مَیں نے یو ٹیوب پر جاوید کے ’’جشنِ ریختہ‘‘ والے تمام سیشن دیکھ رکھے ہیں۔ مجھے یوں محسوس ہوا جیسے جاوید صاحب یو ٹیوب کی سکرین سے یک دم نکل کر سامنے آگئے ہوں۔ میرے لیے یہ کسی اعزاز سے کم نہ تھا کہ میں اس ہال میں بیٹھا ہوا ہوں جہاں جاوید بھی موجود ہیں۔ تین بٹا تین کے ’’لوسی‘‘ یعنی عدیل ہاشمی سنجیدہ اردو بولتے ہوئے بالکل بھی اچھے نہیں دکھ رہے تھے۔ شاید مِزاح ہی اس کی شخصیت کا خاصا ہے۔ سٹیج پر میزبانی عدیل کے ذمے تھی۔ کسی نے اپنی تہذیب سے محبت دیکھنی ہو، تو جاوید اور شبانہ کو دیکھے۔ جاوید اپنے خاص اُسی کرتے اور پاجامے میں جو ان کی پہچان ہے، اور کاندھے پر شال زیب تن کیے ہوئے تھے۔ شبانہ نے ساڑھی پہن رکھی تھی اور بالوں میں ایک عدد پھول سجا رکھا تھا۔
کیفی اور فیض کا سیشن شروع ہوا۔ گفتگو تھی سلیمہ ہاشمی اور شبانہ اعظمی سے۔ یوں لگتا تھا جیسے فیض اور کیفی کا زمانہ لوٹ آیا ہو۔ سلیمہ نے دستِ صبا کے انتساب سے کمال پردہ اٹھایا۔ مجھے یاد ہے جب میں نے فرسٹ ائیر میں دست صبا پڑھی تھی، تو انتساب کسی کلثوم نامی محترمہ کے نام تھا۔ میں بھی سوچتا تھا بھلا یہ کلثوم کون ہے، جس سے فیض صاحب کا عشق رہا؟ فیض جب انتساب ایلس کے نام کرنے لگے، تو سوچا ایلس نام بہت عجیب لگے گا۔ سو ایلس کا مسلمان نام جو فیض کی والدہ نے ’’کلثوم‘‘ رکھا تھا، فیض نے وہی نام استعمال کیا جب کہ ایلس کو کلثوم نام کسی طور پر بھی پسند نہ تھا۔ انہیں شبنم اور ریحانہ نام پسند تھے۔ دستِ صبا جب قریہ قریہ پہنچی، تو لوگ چہ میگوئیاں کرتے۔ بھلا یہ خاتون کلثوم کون ہے اور اس سے فیض کا کیا چکر ہے؟ لوگوں کو اس بات کی بالکل خبر نہ تھی کہ یہ ایلس کا ہی اسلامی نام ہے جو فیض کی والدہ نے رکھا ہے۔
سلیمہ نے ایک قصہ بیان کیا جو انہی کے خاندان میں ہوا۔ جب ایک خاتون نے سلیمہ سے پوچھا کہ بھلا یہ کلثوم کون ہے؟جس سے تمہارے ابا نے چھپ چھپا کر نکاح کیا ہوا ہے؟ یہ بات جب ایلس تک پہنچی، تو وہ خوش ہوئیں جب کہ اول اول وہ اس نام کے انتساب سے کچھ خوش نہیں تھیں۔
ایک بار فیض صاحب سلیمہ کی لگاتار نوکری کرنے سے تھوڑا سا تنگ آئے، تو کہنے لگے: ’’سلیمہ ،یہ جاب کرتے کرتے تم تھکتی نہیں ہو کیا؟ ہمیں دیکھو، ہم نے پانچ برس فوج کی نوکری کی، پانچ برس صحافت کی، پانچ برس جیل کاٹی، پانچ ہی برس جلا وطن رہے۔ ہم نے تو کوئی کام بھی پانچ برس سے زیادہ نہیں کیا۔‘‘ سلیمہ ہاشمی نے جب اپنی بات پوری کی، تو ساتھ والی نشست پر براجمان شبانہ نے کہا: ’’فیض صاحب نے ایک کام تو عمر بھر کیا،یعنی شاعری۔‘‘ اور یوں ہال میں تالیوں کی گونج سنائی دینے لگی۔
شبانہ اعظمی نے فیضؔ صاحب کے ساتھ اپنی ایک ملاقات کا حال بتایا کہ پہلی بار فیضؔ صاحب سے ملی، تو خوشی کی انتہا نہ تھی۔ شبانہ نے فیضؔ صاحب سے کہا، مجھے آپ کے سارے شعر یاد ہیں۔ میں آپ کی بہت بڑی فین ہوں۔ فیض صاحب نے جواباً کہا، اچھا! پھر ہمیں بھی تو معلوم ہونا چاہیے۔ شبانہ نے یہ شعر سنایا
دیکھ تو دل کہ جاں سے اٹھتا ہے
یہ دھواں سا کہاں سے اٹھتا ہے
فیضؔ صاحب نے سگریٹ کا کش لگاتے ہوئے کہا: ’’ارے یہ تو میرؔ کا شعر ہے۔‘‘ شبانہ نے فوراً شعر پڑھا
بات کرنی مجھے مشکل کبھی ایسی تو نہ تھی
جیسے اب ہے تیری محفل کبھی ایسی تو نہ تھی
فیضؔ صاحب نے سگریٹ کا ایک گہرا کش لیا اور کہا: ’’میر تقی میرؔ تک تو بات ٹھیک تھی، مگر بہادر شاہ ظفرؔ کو میں شاعر نہیں سمجھتا۔‘‘
خیر، یہ تو فیضؔ صاحب سے پہلی ملاقات کی گھبراہٹ تھی جس نے شبانہ کو ان کے شعر ایک لمحے کے لیے بھلا دیے تھے، جب کہ الحمرا کے ہال میں بیٹھا ہوا ایک ایک شخص گواہ ہے کہ جس طرح نظم ’’بول کہ لب آزاد ہیں ترے ‘‘ شبانہ جی نے پڑھی، ویسی شائد ہی کسی نے ترنم سے پڑھی ہو۔ ان کی آواز ایک سحر طاری کر گئی۔ یقینا یہ کیفی کی دُختر کا اپنے والد کے دوست کے لیے ایک عظیم خراجِ عقیدت تھا۔

الحمرا ہال میں زندہ دلانِ لاہور کے ساتھ پورے پاکستان سے آئے ہوئے شائقین کا اک منظر۔ (Photo: Aaj tv)

شبانہ کی والدہ شوکت اعظمی کی کیفی سے محبت کی داستان بھی انتہائی دلچسپ اور حسین ہے۔ایک کیمونسٹ شاعر اپنی محبت میں کس قدر شگفتگی رکھتا ہے، یہ تب معلوم ہوا جب شبانہ نے شوکت اعظمی کی کیفی سے پہلی ملاقات کا ذکر کیا۔ یہ 1940ء کی دہائی تھی۔ ایک مشاعرے میں کیفی اعظمی، سردار جعفری اور مجروح سلطانپوری موجود تھے۔شوکت اس زمانے میں بھی ایک ماڈریٹ خاتون تھیں۔انہیں دقیانوسی مرد بالکل ناپسند تھے۔کیفی نے مشاعرے میں نظم ’’عورت‘‘پڑھی۔ یہ کیفی کی عورت کے حوالے سے ایک آزاد خیال اور وسعتِ فکر کی حامل نظم ہے۔ شوکت مشاعرے میں کیفی سے متاثر ہوئے بنا نہ رہ سکیں اور دل میں ٹھان لیا کہ اگر شادی کروں گی، تو اس شخص سے کروں گی جو عورت کی آزادی پر یقین رکھتا ہے۔ مشاعرہ ختم ہوا۔ کیفی کے گرد لڑکیوں نے گھیرا ڈال رکھا تھا،بلکہ یوں کہنا چاہیئے کہ کیفی اعظمی لڑکیوں کے گرداب میں پھنسے ہوئے تھے۔ شوکت کو شرارت سوجھی۔ ڈائری نکالی، اس کے پہلے صفحہ پر سردار جعفری سے آٹو گراف لیا اور پھر کیفی سے آٹو گراف لینے کے لیے ڈائری کا وہی صفحہ آگے کر دیا جس پر پہلے سے سردار جعفری کے دستخط موجود تھے۔ کیفی نے اس صفحے پر ایک مہمل شعر لکھ،جس کا کوئی مفہوم نہ تھا۔ اس پر شوکت کو غصہ آیا، تو جل کر کیفی سے پوچھنے لگی کہ بھلا یہ کیا حرکت ہے؟ایسے بھی کوئی آٹوگراف دیتا ہے کیا؟ کیفی جواباً کہنے لگے کہ آپ نے بھی تو پہلے آٹوگراف سردار جعفری سے لیا۔ ایسی حرکت کا ایسا ہی جواب دیا جا سکتا ہے۔
کیفی کی نغمہ نگاری کا ذکر ہوا، تو مجھے جگجیت کی آواز میں کیفی کی غزل یاد آنے لگی:
تم اتنا جو مسکرا رہے ہو
کیا غم ہے جس کو چھپا رہے ہو
شبانہ اعظمی نے بتایا: ’’ابا کہتے تھے کہ فلم کے لیے گیت لکھنا ایسے ہے جیسے پہلے قبر کھود دی جائے اور پھر کہا جائے کہ اب اس میں مردہ گاڑو۔ کیوں کہ فلمی گیت کی دھن پہلے بنتی ہے اور اس پر بول دھن کے مطابق بعد میں لکھے جاتے ہیں۔ میری نغمہ نگاری اس لیے کامیاب چل رہی ہے۔ کیوں کہ میں مردے اچھے گاڑ لیتا ہوں۔‘‘
کیفی اور فیضؔ کے سیشن کے بعد کامریڈ درانی اور میں لاہور سے ایک دوست احمد کے ہمراہ پاک ٹی ہاؤس نکل گئے۔ وہاں گھنٹا بھر فیض فیسٹیول اور فیض کی شاعری اور شخصیت پر گفتگو چلتی رہی۔ مدیحہ گوہر کی خدمات کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے لیے ’’اجوکا تھیڑ‘‘ کے فنکاروں نے اسی شام سات بجے ایک پنجابی سٹیج پلے’’کالا مینڈھا بھیس‘‘پیش کیا۔ ہم لوگ پاک ٹی ہاؤس سے بیس منٹ تاخیر کے ساتھ کیا پہنچے کہ ہال کھچا کھچ بھر گیا تھا۔ پندرہ منٹ ہال کے دروازے کے پاس کھڑے ہو کر انتظار کیا، مگر بے سود۔ یہ کمال پنجابی ڈرامہ پرفارمنس دیکھنے کی حسرت دل میں لیے واپس لوٹ گئے ۔اس امید کے سہارے یہ غم غلط کرتے رہے کہ صبح پہلا سیشن جاوید اختر کا ہے۔ اس میں وقت سے پہلے پہنچا ہوگا۔
فیض فیسٹول کے دوسرے روز کا پہلا سیشن تھا ’’محبت کی زبان‘‘، گفتگو تھی امجد اسلام امجدؔ اور جاوید اختر سے، اور میزبانی اردو کی ایک خاتون شاعرہ عنبرین صلاح الدین کے سپرد تھی۔ پہلے روز کی طرح ہال وقت سے پہلے ہی کھچا کھچ بھر چکا تھا۔ جاوید اختر کی شاعری اپنی جگہ مگر جاوید جی کی شخصیت ان کی شاعری سے بہت آگے اور بلند مقام پر نظر آتی ہے۔ جاوید صاحب جب بولتے ہیں، تو ان کا تجربہ اور گہرا مطالعہ سننے والے کو متاثر کیے بنا نہیں رہتا۔ کہنے لگے کہ ’’شاعری صرف محبت کی ہی نہیں بلکہ ضمیر کی آواز بھی ہے۔ سو شاعر کا کام ہے کہ اس کی شاعری حقیقت دکھاتی ہو نہ کہ سچ پر پردے ڈالتی ہو۔‘‘
بات شعری تراجم کی چلی، تو مثال دی کہ اگر آپ عِطر ایک شیشی سے دوسری میں ڈالیں، تو چند قطرے پہلی والی شیشی میں رہ جاتے ہیں۔یہی حال زبان کا ہے۔ چاہے انگریزی نظم کا اردو ترجمہ کیا جائے یا اردو سے انگریزی،پوری طرح مفہوم اور احساس کا منتقل ہونا ممکن نہیں۔

الحمرا ہال کے سٹیج کا منظر۔ (Photo: Umar Salim)

ایک اور کمال کی بات یہ بتائی جو ہم جیسوں نے پہلے نہیں سنی تھی کہ انگریزی زبان کے جملے کا مفہوم اس کے آخری لفظ میں چھپا ہوتا ہے۔اگر وہ لفظ نہ ہو، تو جملہ سمجھ میں نہیں آتا، جیسے "I am looking for you.” اس جملے میں "you” نکال دو، تو جملہ بے معنی اور "I am going home.” اس میں سے "home”نکال دیا جائے، تو جملہ ادھورا ہے۔
نئی نسل نے ’’شعلے‘‘ فلم تو دیکھ رکھی ہے، مگر انہیں شائد یہ معلوم نہ ہو کہ اس کا سکرین پلے جاوید اختر نے ہی لکھا تھا۔ یہ وہ واحد بھارتی فلم ہے جس کے ڈائیلاگ اب تک اتنے ہٹ ہیں کہ آج کے ڈراموں، فلموں اور "standup” کامیڈی میں بھی استعمال ہوتے ہیں۔
جاوید اختر کہنے لگے کہ ایک اعتراض تو اس فلم پر یہ ہوتا تھا کہ فلاں سین اُس انگریزی فلم سے کاپی ہے اور فلاں سین اُس فلاں فلم سے۔اگر یہ کاپی ہوتا، تو میں نے اب تک شعلے جیسی کامیاب کوئی درجن بھر فلمیں تو بنا لی ہوتیں، کیوں کہ کاپی کرنا تو آسان کام ہے۔گبّر آج بھی زندہ ہے۔شاید تنقید والوں کو سوچنا چاہیے۔
اس حوالہ سے امجد صاحب نے کہا کہ جاوید بھائی آپ نے ناقدین کو کسی زمانے میں ایک لاجواب جواب دیا تھا، وہ دہرا دیں۔ جاوید نے کہا: ’’دیکھیں بھئی،اگر تو کسی ایک جگہ سے کوئی چیز کاپی کی جائے اسے "plagiarism” کہتے ہیں اور اگر دس جگہ سے کوئی چیز کاپی کی جائے، تو اسے ریسرچ کہتے ہیں۔
جاوید اختر صاحب کی حسِ مزاح بھی کمال کی ہے۔ پہلی نشست پر جو مہمانانِ گرامی موجود تھے، جنھیں جاوید صاحب بھی جانتے ہیں، انہوں نے آپ سے دو چار نظمیں سنانے کی گزارش کی۔ جس پر آپ بولے، دیکھیں میں نے اگلے سال پھر پاکستان آنے کا وعدہ کیا ہے۔ کچھ نظمیں اگلے برس کے لیے رہنے دیں۔ مہمانِ خصوصی نے کہا کہ کیا معلوم میں اگلے برس زندہ نہ رہوں۔جاوید صاحب نے فوراً جملہ کس دیا: ’’آپ تو یونہی بس ہر سال امید دلاتے رہتے ہیں۔‘‘
’’صحافت میں سیاست ‘‘کے موضوع پر وسعت اللہ خان اور ماروی سرمد سے حامد میر نے سوال و جواب کا سلسلہ شروع کیا۔ میں نے پہلی بار وسعت اللہ صاحب کو سکرین اور ایڈیٹوریل پیج سے باہر دیکھا۔ نہ کوئی سوٹ، نہ مہنگے جوتے، نہ کوئی پروٹوکول۔ وسعت اللہ صاحب نے ایک سادہ شرٹ، جینز اور پاؤں میں سینڈل پہن رکھے تھے۔ہاتھ میں کلپ بورڈ جس پر چند خالی صفحے چسپاں تھے، ایک ہاتھ میں قلم اور کاندھے پر ایک فولڈر بیگ۔ یقینا ان کو دیکھ کر لگا کہ جیسا ایک صحافی کا حلیہ ہونا چاہیے، یہ ویسا ہی ہے۔اس نے خود کو صحافی رکھا ہے کوئی سلیبرٹی نہیں بنایا۔
ماروی سرمد سے یوں تو بذریعہ ٹویٹر آشنائی ہے۔کبھی کبھی ’’یوتھ‘‘ سے نالاں ہوجائیں، تو دشنام طرازی پر اتر آتی ہیں، مگر فیضؔ میلے پر ان کا ایک دوسرا روپ دیکھنے کو ملا۔ کمال کی سوچ اور باتیں۔ گفتگو شروع ہوئی، تو ذکر ہوا ’’فیک نیوز‘‘ کا، جس نے سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا دونوں کو متاثر کر رکھا ہے۔ماروی سرمد نے کہا یہ جو "Fake news buster” کا ٹویٹر پر ’’منسٹری آف براڈکاسٹ‘‘ نے اکاؤنٹ بنایا ہے، اس کا فائدہ کوئی نہیں۔ کیوں کہ کسی بھی خبر کی تردید کرنا حکومت کا کام نہیں، یہ کام صحافت کا ہے۔ حکومتیں تو خود خبر کو اپنے مفاد یا خود کو نقصان سے بچانے کے لیے استعمال کرتی ہیں۔
حامد میر نے جب وسعت اللہ خان سے سوال کیا کہ جناب، اس فیک نیوز کا کیا کیا جائے؟ تو وسعت نے خوب جواب دیا۔ ’’حامد، اگر آپ اپنے وٹس ایپ گروپ چھوڑ دیں، تو آپ ایک دن بھی کیپٹل ٹاک نہیں کر پائیں گے۔‘‘ وسعت نے اپنا دورِ قدیم کا ’’کی پیڈ موبائل‘‘ فون لہراتے ہوئے کہا: ’’اگر آپ میری طرح یہ فون استعمال کرنا شروع کر دیں، تو آپ کی زندگی آسان ہوجائے گی اور ’’فیک نیوز‘‘ نہیں پھیلے گی۔‘‘
دورِ حاضر کی صحافتی آزادی پر حامد نے سوال داغا، تو وسعت صاحب نے کہا کہ ’’مجھے ضیاء الحق کا دور بہت یاد آتا ہے۔ میں انہیں بہت مِس کرتا ہوں۔ جب صرف صحافی کو پکڑ کر جیل میں ڈالا جاتا تھا۔ آج کے دور میں صحافی کا جیل جانا کسی لگژری سے کم نہیں۔اب صحافی جیل نہیں جاتا،سیدھا غائب کر دیا جاتا ہے۔سچ بولنے کی تو آزادی ہے، مگر سچ بولنے کے بعد آزادی نہیں۔‘‘
وسعت نے اس کے بعد حامد سے آزادیِ رائے کے حوالہ سے پوچھا، ’’حامد، کیا آپ ایس پی طاہر داوڑ پر انوسٹی گیشن رپورٹ کر سکتے ہیں؟‘‘ حامد نے جواباً کہا، ناممکن! وسعت نے پھر پوچھا: ’’حامد، کیا آپ ملک ریاض اور بحریہ ٹاؤن کے حوالہ سے پروگرام کر سکتے ہیں؟‘‘ حامد نے ایک بار پھر کہا: ’’ناممکن ہے۔‘‘وسعت نے اگلا سوال داغ دیا، ’’حامد، کیا آپ کیک پیسٹری بنانے والی بیکری کے ناجائز پیسے پر کوئی شو کر سکتے ہیں؟‘‘حامد نے کہا:’’نہیں!‘‘
سیشن ختم ہوا، تو منتظمین نے سٹیج پر موجود وسعت صاحب، حامد صاحب اور ماروی صاحبہ کے گرد دائرہ بنا لیا، تاکہ یہ تینوں سٹیج کے پیچھے سے کمرے میں نکل جائیں اور عوام ان کے پاس نہ آنے پائیں۔ حامد میر اور ماروی سرمد تو عوام سے ملے بنا بیک سٹیج نکل گئے، مگر وسعت صاحب نے منتظمینکا حصار توڑا اور لوگوں میں شامل ہوگئے۔ میں سوچتا رہا کہ واقعی وسعت اللہ خان ایک صحافی ہے، ایلیٹ نہیں۔صحافی جو سیاستدان سے ہر سوال پوچھنے کا حق رکھتا ہے ۔اس صحافی سے سوال کرنا بھی تو عوام کا حق ہے۔

……………………………………………………

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com پر ای میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔