پشاور پہلا میٹروپولیٹن شہر تھا جو میرے لیے پہلا ایکسپوژر تھا بنوں جیسے چھوٹے شہر یا ضلع سے نکل کر۔ پشاور پختون ڈامینیٹڈ شہر ہے، مگر یہاں ہزاروں پنجابیوں سمیت لاکھوں ہندکو سپیکنگ اور انڈیا سے آئے مہاجرین جو اردو بولتے ہیں بھی آباد ہیں۔ بنوں غریب علاقہ ہے۔ یہاں سادہ و روایتی ماحول ہے، مگر جو غربت میں نے پشاور میں دیکھی ہے، وہ بیان سے باہر ہے۔ یونیورسٹی میں داخلہ لینے کے بعد پہلی دفعہ جب رات گئے دوستوں کے ساتھ شیرپاؤ کے پراٹھے کھانے گیا اور وہاں ’’سپین جمات‘‘ (سفید مسجد) کے سامنے گرین بیلٹ پر جو اَب ’’بی آر ٹی‘‘ کی نذر ہو چکا ہے، درجنوں لوگوں کو دسمبر اور جنوری کے مہینوں میں بے یار و مددگار سوتے دیکھا، تو میرا کلیجہ پھٹنے لگا۔ بچپن سے پشاور آنا جانا ہوتا، لیکن کبھی ذکر شدہ بے سر و سامان لوگوں کو یوں نہیں دیکھا تھا۔ یہ یونیورسٹی میں میرے ابتدائی دن تھے۔ ڈیپارٹمنٹ سے واپس آتے وقت راستے میں بھیک مانگنے والے بچے ملتے۔ میکینکل ڈیپارٹمنٹ سے واپسی پر پشتو اکیڈمی سے گزرتا، تو مسیحیوں کی بستی سے گزر ہوتا۔ وہاں کے کچے گھر اور غریب ماحول میرا غم دگنا کرتے۔ چند قدم آگے یونیورسٹی کیمپس کے کلاس فور ملازمین کے کچے گھر تھے۔ جہاں کے بچے اکثر کھیلتے دیکھتا۔ ان کے روشن اور چمکتے چہرے پختون خون کے عکاس تھے، مگر ان کی بود و باش اور ان کے کپڑوں پر نظر دوڑاتا، تو میرے آنسو نکل آتے۔ ان بچوں کو اکثر دیکھتا قریب ایک مرغی فروش کے پاس جمع ہوتے۔ مرغی فروش جو مرغی کی کلیجی پھینکتا، وہ بچے اسے اکھٹا کرکے گھر لے جاتے۔
یونیورسٹی کیمپس کی چاردیواری میں دو طرح کا ماحول تھا۔ ایک فیشن زدہ ، چمک دمک والا ماحول تھا، رومانس اور رعنائیوں والا ماحول تھا۔ ایک طرف پروفیسروں کے بڑے بڑے بنگلہ نما گھر اور دوسری طرف یونیورسٹی کے احاطے کے اندر کچے گھر۔ میں اس دوہرے معیار کو دیکھتا، تو بہت تکلیف کا شکار ہوتا۔ اس پر مدتوں سوچتا رہا کہ کیا یہ اللہ کی طرف سے ہے، یا وسائل کی غلط تقسیم وجہ سے؟ اپنی حساس طبیعت کی وجہ سے یونیورسٹی کا پہلا سال میرا اچھا نہ گزرا جس سے میری سٹڈیز بھی متاثر رہیں۔ بس فکری انتشار کا شکار رہا۔
اپریل 2005ء میں پہلی دفعہ لاہور گیا۔ یونیورسٹی کی طرف سے لاہور میں ایک ہفتہ گزارا، زندگی کو ٹٹولا۔ وہاں غربت پشاور سے زیادہ پائی۔ اگرچہ لاہور میں کروڑ پتیوں کی کمی نہیں۔ برصغیر کا ایک بڑا شہر ہے وہ، مگر واللہ جو غربت لاہور میں دیکھی، وہ شائد کہیں اور نہ ہو۔ وہاں کی سب سے بڑی انسانی مجبوریوں کے شہر ’’ہیرا منڈی‘‘ گیا۔ وہاں مجبوری جب مجسم صورت میں دیکھی، تو ’’اک تیر میرے سینے میں مارا کہ ہائے ہائے!‘‘ وہاں کی گلیوں میں بوڑھی ریٹائرڈ طوائفوں کو دیکھا۔ چھوٹے چھوٹے تعفن زدہ گھر جہاں بڑی مکھیاں بھنبھناتی ہیں۔ کوئی بھی اہلِ ضمیر جب اس ’’شہرِ مجبوری‘‘ میں قدم رکھے، تو روئے بغیر نہیں نکلے گا۔ اس لیے کہ وہاں انسانیت شرما رہی ہوتی ہے۔ ہوس رقص کر رہی ہوتی ہے ۔
اس طرح فروری 2007ء کو یونیورسٹی کی طرف سے کراچی دیکھنے کا موقع ملا۔ 15 دن تک کراچی کا چپہ چپہ مارا۔ پختون اور بنگالی علاقوں میں گیا۔ شہر کے جدید ترین علاقے ڈیفنس، گلستان جوہر، شاہ فیصل روڈ اورکراچی صدر دیکھا۔ نسبتاً کم ترقی یافتہ علاقے سہراب گوٹھ، بنارس، مچھر کالونی، ناظم آباد وغیرہ دیکھنے کا موقعہ ملا۔ وہاں پختون کمیونٹی سے ملا۔ کراچی میں بھی امارت کے ساتھ ساتھ ایسی غربت کی داستانیں دیکھیں کہ بیان سے باہر ہیں۔
قارئین، میری نشست کا لب لباب یہ ہے کہ پاکستان میں محروم طبقات کی جو زندگی ہے، وہ بیان نہیں کی جا سکتی۔ عمران خان نے پرسوں ایک بیان دیا ہے کہ محرومی وسائل سے نہیں احساس سے ختم ہوتی ہے۔ یہ ایسا بیان ہے جس کی اگر قیمت لگا دی جائے، تو شائد اربوں ڈالر میں ہو۔ غربت پاکستان میں ایسی ہے کہ واللہ کے قابل نہیں۔ عمران خان نے بے گھر اور فٹ پاتھوں پر سونے والوں کے لیے جو عارضی گھر بنانے کا کام شروع کیا ہے، یہ مسئلے کا حل نہیں بلکہ یہ ایک احساس ہے، جسے جگایا جا رہا ہے۔ آئیے، ہم سب مل کر اپنے معاشرے میں اسی احساس کو جگائیں۔

…………………………………………………..

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com پر ای میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔