’’الف اعلان‘‘ تعلیم کے میدان میں سرگرمِ عمل ایک غیر حکومتی ادارہ ہے۔ ادارہ کی جانب سے حال ہی میں تحریکِ انصاف کے دورِ حکومت کے دوران میں خیبر پختونخوا کی تعلیمی صورتحال کے حوالہ سے ایک سروے رپورٹ پیش کی گئی۔ اس رپورٹ میں کئی اہم باتیں شامل ہیں لیکن اس میں نہایت قابلِ غور خیبر پختونخوا میں لڑکیوں کی تعلیمی صورتحال ہے۔ رپورٹ پڑھتے ہی مجھے خیبر پختونخوا میں تحریکِ انصاف کی ’’تعلیمی ایمر جنسی‘‘ یاد آگئی اور میں اس سوچ میں پڑ گیا کہ بلند بانگ دعوے کرنے والی تحریک انصاف کی وہ ’’تعلیمی ایمرجنسی‘‘ آخر گئی کہاں؟
رپورٹ کے مطابق اس وقت خیبر پختونخوا میں سکولوں سے باہر بچوں میں سے اکیاون فیصد تعدادلڑکیوں کی ہے، جس کا مطلب سکول نہ جانے والے بچوں میں نصف سے زائد لڑکیاں شامل ہیں۔ عام طور پر ایسا سروے سامنے آئے، تو ہمارا روایتی ردِعمل یہ ہوتا ہے کہ ’’ والدین بچوں کو سکول نہیں بھیجتے، اب اس میں حکومت کیا کرے؟‘‘ لیکن یہاں بنیادی طور پر حکومت ہی ایسی خراب صورتحال کی ذمہ دار ٹھہرائی جاسکتی ہے۔ حکومت کی جانب سے بہتر تعلیمی سہولیات کی فراہمی سے اگر ایک طرف طلبہ کی ’’ان رولمنٹ‘‘ میں خاطر خوا اضافہ لایا جاسکتا ہے، تو دوسری طرف والدین کو پرائمری کے بعدبھی اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلوانے پر راغب کیا جاسکتا ہے۔ اسی سروے رپورٹ نے اگر ایک طرف تحریکِ انصاف کی حکومت کو تعلیمی انفراسٹرکچر کی مد میں خرچ کیے جانے والے تیس بلین بجٹ پر سراہا ہے ، تو دوسری طرف صوبے میں معیاری تعلیم کے فقدان کا ذکر بھی کیا ہے۔
اس کی وجوہات کیا ہوسکتی ہیں؟ کیا والدین بچوں کو سکول نہیں بھیجتے؟ ہر گز نہیں، اور اگر واقعی نہیں بھیجتے، تو آخر کیوں؟ معاشی کمزوری کے مارے والدین اپنے علاقہ میں سکول کی عدم دستیابی پر اپنے بچوں کو کیوں کر اور کیسے میلوں دور پڑھنے بھیج سکتے ہیں؟ اس وقت حکومت کے لیے سب سے بڑا چیلنج دس سال سے سولہ سال تک کی عمر کے بچوں کو پرائمری تعلیم تک آسان رسائی فراہم کرنا ہے۔ پہلی وجہ کسی علاقے میں پرائمری سکولوں کی موجودگی یا تعداد ہے۔ شہروں اور دیہاتوں تک تو ٹھیک ہے، لیکن دور دراز علاقوں میں سکولوں کی عدم دستیابی کی وجہ سے یا تو سکول جانے کے لیے گھنٹوں کا سفر طے کرنا پڑتا ہے یا پھر خوش قسمتی سے اگر کوئی پرائمری سکول موجود بھی ہو، تو اس کی حالتِ زار دیکھ کر بندہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ ایسے ماحول میں بچے پڑھائی کیسے کرتے ہوں گے؟ بالائی اور دور دراز علاقوں میں کئی ایسے سکولز موجود ہیں جو ’’چھت‘‘ تک سے محروم ہیں۔ یہاں کے سکولوں میں پڑھائی کا تعلق بارش کے ساتھ ہوتا ہے۔ بارش ہوگی، تو سکول کی چھٹی ہوگی، بارش نہ ہو تو اس کا مطلب آج سکول جایا جاسکتا ہے۔ پھر چاہے یہاں بارش کا سلسلہ ہفتوں مہینوں تک چلتا رہے، چھت نہ ہونے کی وجہ سے سکول بند ہی رہتا ہے۔ دیگر ضروریات جیسے کہ چار دیواری، بجلی اور صاف پانی کی فراہمی، فرنیچر، واش رومز وغیرہ کی عدم دستیابی تو بیشتر سرکاری سکولوں کا رونا ہے۔ اس کے علاوہ اکثر علاقوں میں سکول کی موجودگی بھی کسی فائدہ کی حامل نہیں ہوتی۔ زیادہ آبادی کے لیے دو تین کمروں پر مشتمل سکول کسی صورت طلبہ کی ضروریات پوری نہیں کرسکتا۔ کئی پرائمری سکولوں میں نشستیں دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے داخلے بند کر دیے جاتے ہیں۔ ایسی حالت میں کیا خاک طلبہ کی ’’اِن رولمنٹ‘‘ میں اضافہ ہوگا جب آپ کسی والد کو یہ کہہ کر واپس بھیج دیں کہ ہمارے پاس داخلہ کی گنجائش نہیں ہے۔ اس لیے ہم آپ کے بچے کو داخلہ نہیں دے سکتے۔

اس وقت خیبر پختونخوا میں سکولوں سے باہر بچوں میں سے اکیاون فیصد تعدادلڑکیوں کی ہے۔ (Photo: Dawn)

دوسری اہم وجہ سرکاری سکولوں (خصوصاً پرائمری) میں اساتذہ کا فقدان ہے۔اب تک ایسے کئی کیسز سامنے آئے اور آرہے ہیں کہ جن میں اکیلے استاد کے ذمہ ایک دو جماعتوں پر مشتمل پورا سکول لگا دیا جاتا ہے۔ اس دوران میں اگر وہی استاد کسی سبب چھٹی کرلیتا ہے، تو اس دن سکول بند رہتا ہے، جس کا مطلب بچوں کا تعلیمی عمل استاد کے آنے یا نہ آنے پر منحصر ہے۔ اب اگر ہر دوسرے ہفتے سکول بند ہو، تو وہاں تعلیم کا عمل کیسے جاری رہ سکتا ہے؟ الٹا آٹے میں نمک کے برابر طلبہ کی ’’اِن رولمنٹ‘‘ میں کمی آئے گی۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ مقامی اساتذہ کی دور دراز علاقوں میں تعیناتی کی بجائے انہیں اپنے ہی علاقے میں تعینات کیا جائے۔ اضافی اساتذہ کی تعیناتی عمل میں لائی جائے۔ اس طرح کرنے سے اگر ایک طرف اساتذہ کی غیر حاضری کا تناسب کم ہوسکے گا، تو دوسری طرف ایک سکول میں مطلوبہ تعدادمیں اساتذہ کی تعیناتی بھی آسان ہوگی۔ پھر اگر کوئی استاد غیر حاضری بھی کرے، تو متبادل استاد کی موجودگی سے تعلیم کا عمل جاری رہے گا۔
اس کے علاوہ یہاں معیارِ تعلیم کا بھی بنیادی کردار ہے۔ بیشتر سرکاری سکولوں میں طلبہ کی صلاحیتوں کو زنگ لگ جاتا ہے۔اساتذہ، طلبہ کے ہجوم میں ہر کسی کو مساوی توجہ نہیں دے پاتے، کئی طلبہ پانچویں تک پہنچنے کے باجود اپنا نام تک نہیں لکھ سکتے۔ اس لیے کہ بسا اوقات اساتذہ ’’سب چلتا ہے‘‘ کی پالیسی پر عمل پیرا ہوتے ہیں۔ بس روایتی کلاسزلے کر گلو خلاصی سے کام چلاتے ہیں۔ اس سلسلہ میں اگرکئی کیسز میں اساتذہ قصور وار ہیں، تو بہت سارے اساتذہ چاہ کر بھی ہر ایک بچے کو توجہ نہیں دے پاتے۔ سرکاری سکولوں میں ٹیلنٹ کا سامنے آنا مکمل طور پر طلبہ کی اپنی محنت اور ہمت کا نتیجہ ہوتا ہے، یہی وجہ ہے کہ بورڈ کے امتحانات میں سرکاری سکول کے کسی طالب علم کی پوزیشن ’’بریکنگ نیوز‘‘ بن جاتی ہے۔ روزانہ بچوں کو سکول بھیج کر بدلے میں والدین کو کوئی خاطر خواہ نتیجہ نہیں مل پاتا۔
قارئین، آپ بے شک کسی سیاسی پارٹی کے سپورٹر ہوں، آپ ان حقائق سے قطعاً انکار نہیں کرسکتے کہ بنیادی سہولیات کی فراہمی میسر ہوگی، تو ہی تعلیمی صورتحال کی بہتری کی امید کی جاسکتی ہے۔’’والدین بچوں کو سکول نہیں بھیجتے‘‘ کہنا آسان ہے، اصل بات پسِ پردہ حقائق اور وجوہات جاننا ہے۔ اگر والدین خود ہی تعلیمی پسماندگی کے چشم دید گواہ ہوں، تو ان کو تعلیم کی اہمیت یا سرکاری سکولوں کی جانب راغب کرنا ایک مشکل کام بن جاتا ہے۔ ذکر شدہ اعداد و شمار میں ایسے بچے بھی ہیں جو پرائمری کے بعد اعلیٰ تعلیم کا حصول ترک کر دیتے ہیں۔ ہزاروں والدین اپنے بچوں کو صرف ثانوی تعلیم دلواکر شکر ادا کرتے ہیں کہ ایسی خراب تعلیمی صورتحال میں کچھ نہ کچھ تعلیم دلوا دی۔ آپ ابھی سے سرکاری سکولوں کی حالتِ زار بہتر بنائیں۔ زیادہ سے زیادہ سکول بناکر طلبہ کی سفری اور دیگر مشکلات کم کریں۔ معاشی طور پر کمزور والدین کے بچوں کے لیے آسانیاں پیدا کریں۔ سرکاری سکولوں کے طلبہ کی بھرپور حوصلہ افزائی کرکے انہیں آگے لائیں۔ پھر دیکھیں کہ وہ کون والدین ہیں جو اپنے بچوں کو سکول نہیں بھیجنا چاہیں گے یا اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے انہیں منع کریں گے۔ اور اگر ایسے والدین ہیں بھی، تو مجھے یقین ہے کہ ان کا تناسب اتنا زیادہ نہیں ہوگا، جسے حکومتِ وقت باآسانی بچوں کی تعلیم کی جانب راغب نہ کرپائے۔
ہمت کرے انسان، تو کیا ہو نہیں سکتا
وہ کون سا عقدہ ہے جو وا ہو نہیں سکتا

…………………………………………..

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔