دو مخلتف بیانات اور حقیقی صورتحال

اس وقت میرے سامنے وزیر اعلیٰ خیبر پختونخواہ جناب محمود خان اور ڈیڈک چیئرمین جناب فضل حکیم کے بیانات موجود ہیں، جن میں وزیر اعلیٰ صاحب نے ملاکنڈ ڈویژن اور سوات کی محرومیوں کا اِزالہ کرنے کی بات کی ہے، جب کہ فضل حکیم صاحب کا بیان ملاحظہ ہو:’’ وزرا پر کوئی ایک پائی کی کرپشن ثابت نہیں کرسکتا‘‘ اور یہ کہ ’’ہم نے تمام سرکاری اداروں کو عوام کے تابع بنا دیا ہے۔‘‘
جب ہم تحریک انصاف کی حکومت اور نوے روزہ حکمرانی کا جائزہ لیتے ہیں، تو فوری طور پر ہمیں ایک ہی احساس ہوتا ہے کہ شاید تحریک انصاف کی حکومت پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا تک ہے اور معاشرے کے اندر اس کا وجود ہے اور نہ حکومت۔ ہاں، بیانات وافر مقدار میں سامنے آتے ہیں اور ہر ایک اپنی حیثیت کے مطابق لوگوں کی تسلی کے لیے ’’خوشخبریاں‘‘ مبہم باتوں اور بیانات کی شکل میں دیتا ہے۔ ویسے بھی تحریک انصاف جن عناصر اور مختلف الخیال افراد کا مجموعہ ہے، ان کی سوچ، طرزِ فکر اور اندازِ فکر پہلے سے عیاں اور عوام کی نظروں کے سامنے ہے۔ حالیہ ضمنی انتخابات میں سوات سے دو صوبائی سیٹیں ہارنا اس بات کی نشان دہی ہے کہ عوامی حمایت ان افراد کی غیر سنجیدہ طرزِ عمل کی وجہ سے ختم ہو رہی ہے۔
سوات سے حالیہ الیکشن میں بھاری مینڈیٹ ملنے کے بعد ایک وزیر اعلیٰ، دو وزیر، ایک ڈیڈک چیئر مین بننا آخر تو عوامی حمایت کا نتیجہ ہے، لیکن اگر آپ کی یہی کارکردگی رہی، تو ہو سکتا ہے کہ یہ صوبہ خیبر پختونخواہ میں آپ کی آخری کامیابی ہو۔ فضل حکیم صاحب نے بیوٹیفیکیشن کے نام پر اچھے بھلے بائی پاس روڈ کو اُدھیڑ کر رکھ دیا۔ اس کی دوبارہ مکمل تعمیر ابھی تک نہ ہو سکی۔ سیدو شریف ہسپتال ایم ایم اے دور میں تعمیراتی طور پر مکمل ہوا تھا، لیکن اے این پی دورِ حکومت سے لے کر آپ کے پچھلے پنج سالہ صوبائی دورِ حکومت میں اس کو فعال نہیں کیا جا سکا۔ اب بھی صرف باتیں ہی باتیں ہیں۔ اعلانات کی حد تک کبل اور مٹہ ہسپتال کی توسیع، دریائے سوات پر دو رابطہ پُل، کانجو فلائی اوور وغیرہ وغیرہ لیکن کوئی عملی منصوبہ اب تک تشکیل نہیں دیا جا سکا ہے۔ پہلے سے جاری منصوبوں کے لیے فنڈز دستیاب نہیں، تو کنٹریکٹرز نے ان پر بھی کام بند کر دیا ہے۔ جی ٹی روڈ پر کام اتنی سست روی سے جاری ہے کہ روڈ کنارے آبادی کے مکینوں نے دھول اور گرد و غبار سے تنگ آکر کئی مرتبہ احتجاجی مظاہرے کیے، لیکن کام کی سست روی کا وہی حال ہے۔ یہی حال بحرین تا کالام روڈ کا بھی ہے۔ اس پر بھی کام کے رفتار سے اندازہ ہوتا ہے کہ معلوم نہیں کتنے برسوں میں کالام روڈ آمدورفت کے قابل ہوجائے گی؟
رہی رشوت، کمیشن اور بد عنوانی کی بات، تو اگر اس پوری انتظامیہ میں ایک شخص بھی خوفِ خدا اور احساسِ ذمہ داری رکھنے والا ہوتا، تو وہ سی اینڈ ڈبلیو، پبلک ہیلتھ ، ایری گیشن، لوکل گورنمنٹ اور ٹی ایم ایز میں رشوت اور کمیشن کے ہوش رُبا مناظر ضرور دیکھتا۔ غضب خدا کی 19 نومبر کو لوکل گورنمنٹ میں 35 سکیموں کا ٹینڈر ہوا اور ٹھیکیداروں نے 42 فی صد بِلو (below) پر ٹینڈر ز جیت لیے۔ اس سے آپ اندازہ لگائیں کہ 42 فی صد کے ساتھ 7 فیصد ٹیکس اور ادارے کے افسران کی چائے پانی ملاکر 50 فی صد بِلو (Below) تک ریٹ پہنچ گیا۔ اب ٹھیکیدار 50 فیصد میں سکیم کا کیا حال کرے گا؟ شاید اس کی ایک صورت یہ ہو جو بیان کی جاتی ہے کہ مقامی ولیج کونسلوں کے ناظمین سے مک مکا کرکے پہلے سے کی گئیں سکیموں پر لیپا پوتی کے عمل سے مال ہضم کیا جائے گا۔ اس بارے میں لوکل گورنمنٹ کا ’’اے ڈی‘‘ براہِ راست ذمہ دار ہے کہ جب آپ نے ایک سکیم کے لیے ایک تخمینی رقم مقرر کی ہے، تو پھر اس میں بِلو ریٹ کی اجازت کیوں؟ کیا آپ کو معلوم نہیں اور آپ کے تجربے میں نہیں کہ ایسے کنٹریکٹرز کے پاس پہلے سے حاصل شدہ سکیمیں غیر مکمل شدہ شکل میں موجود ہیں۔
تحریک انصاف کی پچھلی صوبائی حکومت نے اِی بڈنگ(E-Bidding)کا نظام جاری کیا، تو اس کا ایک مثبت پہلو تو یہ ہے کہ خاص لوگوں اور وزیروں مشیروں کی اجارہ داری ختم ہوگئی، لیکن منفی پہلو یہ سامنے آیا کہ اس میں زیادہ سے زیادہ بِلو ریٹ پر ٹینڈر جیتنے اور حاصل کرنے کا دھندا شروع ہوا، جس کی وجہ سے وہ کنٹریکٹرز جو دیانت، امانت اور رزقِ حلال کے لیے معیاری اور صحیح کام کرنا چاہتے ہیں، ان کی حوصلہ شکنی اور بددیانت افراد جو حلال و حرام کی تمیز سے عاری ہیں، حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔
ہم تحریک انصاف کی قیادت اور عوامی نمائندوں کو یاد دلانا چاہتے ہیں کہ حکومت، سیاست اور حکومتی ادارے حجروں، بیٹھکوں اور ڈرائنگ رومز کے اندر چند خوش آمدی افراد کے سامنے گفتگو کے ذریعے نہیں چلائے جا سکتے۔ جب آپ ڈیڈک چیئر مین ہیں، تو آپ کا فرض بنتا ہے کہ ضلعی انتظامیہ کو فعال بنا کر تمام اداروں پر چیک رکھیں۔ یہ کیا بات ہے کہ شکایت کی جاتی ہے، تو اینٹی کرپشن والے فوراً وارد ہوتے ہیں، فائلیں چیک کی جاتی ہیں اور پھر کرپشن اور بدعنوانی کی نشان دہی پر ادارے کے سربراہ اور دیگر ذمہ داراں کے ساتھ لین دین کرکے معاملہ یوں ہی چھوڑ دیا جاتا ہے۔ آپ عوامی نمائندے ہیں، آپ کا فرض بنتا ہے کہ عوام سے مسائل معلوم کرکے اداروں کے ذریعے ان کا اِزالہ کریں۔ کیا تبدیلی صرف یہ ہے کہ ’’نواز شریف کی جگہ عمران خان وزیر اعظم بن گئے۔‘‘ تبدیلی صرف نعروں سے نہیں عمل سے آتی ہے۔ ضلع سوات سے وزیر اعلیٰ، دو وزیر، ڈیڈک چیئرمین اور سوات کے مسائل جوں کے توں، روزانہ ٹریفک جام، عدالتوں اور کچہریوں کا وہی پرانا فرسودہ نظام اور ضلعی ڈائریکڑیٹ کا وہی حال، جس دفتر میں جھانکو ’’بندہ نہ بندے دی ذات۔‘‘ افسران اور ذمہ داران ڈیڈک چیئر مین کے ڈیرے میں حاضر وزیروں، مشیروں کے استقبالیہ پروگرامات میں مصروف۔
پہلے سے جن لوگوں نے عوام کو بھیڑ بکریاں سمجھ کر جس طرح حکومت کی، ان کا حشر آپ کے سامنے ہے۔ اگر آپ نے ان سے عبرت حاصل نہیں کی، تو کل آپ کا بھی وہی حشر ہوگا جو آج ان کا ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے بندوں کو مال و جاہ، عزت و آبرو اور اپنے بہت سی نعمتوں کے ذریعے آزماتا ہے، لیکن جو بندے یہ نعمتیں پا کر ناشکری اور کفرانِ نعمت کا رویہ اختیار کرتے ہیں، تو پھر اللہ تعالیٰ انہیں دنیا میں بھی رسوا کرتا ہے اور آخرت کا عذاب تو اس سے زیادہ شدید تر ہے۔

……………………………………………

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com پر ای میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔