قومی الیکشن کے اعلان کے بعد حصولِ اقتدار کی جنگ، سیاسی جوڑ توڑ، سیاسی جماعتوں اور سیاست دانوں کے ایک دوسرے پر الزامات، اور ملکی اداروں کے درمیان تناو کی صورتِ حال نے معاشرے کا سکون تباہ و برباد کرکے رکھ دیاہے۔ چپقلش کی اس صورتِ حال میں ملکی ترقی شدید مثاتر ہورہی ہے۔ غربت و مہنگائی میں اضافہ ہوا ہے۔ روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قدر کم ہونے کے بعد پھر بڑھ رہی ہے۔ اس صورتِ حال میں سب سے زیادہ نقصان غریب پاکستانی کا ہوا ہے، جوکہ بھرپور محنت و مشقت کے باوجود خوش حالی کی بجائے مہنگائی کا شکار ہورہا ہے۔ مہنگائی اور بے روزگاری کے مارے عوام پاکستان کو سمجھ نہیں آرہا کہ آخر اُنھیں کس جرم کی سزا دی جا رہی ہے۔
رانا اعجاز حسین چوہان کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/rana/
ہمارے معاشرے میں موجود بے سکونی اور بے چینی کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ پاکستانی معاشرہ غیر منطقی طور پر بہت زیادہ سیاست زدہ بن چکا ہے۔ سکون کے متلاشی ہمارے معصوم لوگوں کو کوئی جمہوریت میں سکون کے سبز باغ دکھاتا ہے، تو یہ اُس کے پیچھے چلنے لگتے ہیں۔ جب جمہوریت میں سکون نہیں ملتا، تو آمر اُن کو اپنے پیچھے لگالیتے ہیں۔ اور جب کوئی نظر نہیں آتا، تو یہ انقلاب کا نعرہ لگانے والے ہر شخص کے پیچھے بھاگنے لگتے ہیں۔ دنیا کا کوئی معاشرہ ہمیں اپنے ملک کی طرح سیاست زدہ نظر نہیں آتا…… جب کہ ملک میں جب انتخابات ہوجاتے ہیں، تو عوام اپنے منتخب نمایندوں کو پانچ سال کے لیے اسمبلی میں بھیج دیتے ہیں۔ اس کے بعد یہ منتخب نمایندوں کا کام ہوتا ہے کہ اسمبلی میں عوام کی نمایند گی کریں اور اپنے سیاسی اور ملکی مسائل کو اسمبلی میں زیرِ بحث لاکر اُنھیں حل کریں۔
تمام سیاسی جماعتوں کے نمایندے اسمبلی میں موجود ہوتے ہیں۔ اس کے باوجود یہ بات سمجھ سے بالا تر ہے کہ کسی بھی چھوٹے یا بڑے سیاسی یا ملکی مسئلے پر عام لوگوں کا سیاست پر بحث مباحثہ کرنا اور ضرورت سے زیادہ دلچسپی لینا کیا معنی رکھتا ہے۔
دیگر متعلقہ مضامین:
سیاست دانوں کو بدنام کرنا مسئلے کا حل نہیں 
سیاست میں مذہبی ٹچ  
مائنس ون فارمولہ سیاست سے مائنس کیا جانا چاہیے 
سیاست اب عبادت نہیں رہی
مخاصمت کی سیاست میں کسی کا بھلا نہیں 
ہمارے ملک میں ایک عام شہری بھی ملکی سیاست پر بڑی بڑی باتیں کرتا نظر آتا ہے۔ گھر ہو یا دفتر، تعلیمی ادارے ہوں یا کاروباری ادارے، بازار ہوں یا تفریح گاہ…… الغرض ہر جگہ ملکی سیاست زیرِ بحث رہتی ہے۔ جن لوگوں کو سیاست کا مفہوم تک نہیں معلوم، وہ اپنا کام چھوڑ کر سیاسی مباحثوں میں اُلجھے نظر آتے ہیں۔ ان حالات میں جب بظاہر ملکی صورتِ حال تصادم اور انارکی کی طرف جاتی محسوس ہوتی ہے، مگر جمہوری رویے اور سیاسی بصیرت بروئے کار لاکر اس کیفیت میں بہتری اور استحکام کے راستے نکالے جا سکتے ہیں۔ موجودہ عبوری حکومت کی جانب سے مہنگائی کو کنٹرول کرنا اور عوامی مسائل حل کرنا بہت ضروری ہے، جو حکم ران دور اندیش اور عوامی مزاج کو سمجھتے ہیں، وہ سب سے پہلے عوام کو درپیش مسائل حل کرنے پر توجہ دیتے ہیں۔
خاص طور پر ان کے لیے ضروریاتِ زندگی کی فراہمی کو آسان بناتے ہیں۔ وہ کسی صورت بھی اشیائے خور و نوش کی قلت اور گرانی کو برداشت نہیں کرتے اور طلب و رسد کا ایسا مضبوط نظام قائم کرتے ہیں کہ عوام کو کوئی دشواری نہ ہو۔
پاکستانی عوام بیرونی قرضوں سے نجات اور مہنگائی کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ ہمارے ملک میں ایک طویل عرصے سے امیر افراد ، امیر تر اور غریب، غریب تر ہوتا جا رہا ہے۔ اس صورتِ حال نے نہ صرف معاشرے میں بے چینی اور مایوسی کو جنم دیا ہے، بلکہ مختلف جرائم کو پیشے کی شکل بھی دے دی ہے اور لاقانونیت کے مظاہرے اکثر دیکھنے میں آتے رہتے ہیں۔ ایسی صورتِ حال نے معاشرے سے سکون اور چین کو ختم کردیا ہے، جب کہ آج اس امر کی شدید ضرورت محسوس کی جارہی ہے کہ ملک کے نصابِ تعلیم میں ایسے موضوعات اور علمی مباحثوں کو شامل کیا جائے، جن سے پاکستانی طالب علموں اور نوجوانوں میں حب الوطنی، ایثار اور پاکستانی قومیت کے جذبات میں زیادہ سے زیادہ نکھار پیدا کیا جاسکے اور انھیں بلند کردار پاکستانی بنایا جاسکے، تاکہ جب وہ عملی زندگی میں داخل ہوں، تو جرائم اور ملک دشمن سرگرمیوں سے محفوظ رہیں…… اور غیر ضروری سیاسی جماعتوں کے آلہ کار نہ بن سکیں۔
موجودہ سنگین سیاسی حالات میں ضروری ہے کہ ملک میں سیاسی و معاشی استحکام آئے۔ جب بے چین انسانوں کو سیاسی و معاشی تحفظ ملنے لگے گا، تو اُن کی سب سے بڑی بنیادی ضرورت پوری ہوجائے گی۔
حقیقی جمہوریت اُس وقت قائم ہوگی، جب کوئی جماعت مارچ کی دعوت دے کر انسانوں کا ہجوم اکٹھا نہیں کرپائے گی اور کسی ’’جمہوری حکومت‘‘ کو ’’غیر جمہوری اقدام‘‘ سے کوئی خطرہ لاحق نہیں ہوگا۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔