ویسے تو قیامِ پاکستان کے ساتھ ہی یہ نوزائیدہ مملکت مختلف قسم کے مسائل و مشکلات سے دوچار ہوئی، لیکن آج 71, 72 سال بعد بھی ان مسائل میں کمی نہیں بلکہ اضافہ ہوا ہے۔ گزرتے وقت کے ساتھ نت نئے مسائل بھی پیدا ہوتے رہتے ہیں اور پیدا کیے بھی جاتے ہیں۔ شروع دن سے یہ ملک اپنے چند ہی مخلص اشخاص پر مشتمل قیادت سے محروم ہوگیا۔ اس کے بعد جن افراد اور طبقات نے اقتدار پر قبضہ کیا، انہوں نے خود غرضی، مفاد پرستی اور نااہلیت کا ایسا مظاہرہ کیا کہ ملک و قوم دونوں مسائل و مشکلات کی دلدل میں دھنستے چلے گئے۔
اگر ہم تاریخ کے جائزے کے لیے ذرا پیچھے ماضی میں جا کر دیکھیں، تو ہم دیکھتے ہیں کہ قائد اعظم محمد علی جناح کی رحلت اور لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد جو جاگیردار طبقہ سیاست دانوں کے نام سے ملک پر مسلط ہوگیا۔ ان کی خود غرضی، مفاد پرستی اور نااہلیت کی وجہ سے نوکر شاہی بھی سکندر مرزا اور غلام محمد کی شکل میں اقتدار میں حصہ دار بن گئی۔ جلد ہی جب نئی تشکیل شدہ فوجی طاقت کو سیاست دانوں کی نااہلی کا پتا چلا، تو اس نے بھی اس موقع سے فائدہ اٹھانے میں تاخیر نہیں کی اور پھر اسی اقتدار کے ٹرائیکا کی سازشوں ، ریشہ دوانیوں اور اقتدار کے حصول کے لیے جوڑ توڑ کی وجہ سے آٹھ سال تک یہ ملک آئین و دستور کے بغیر چلتا رہا۔ جب 1954ء میں دستور بنا بھی، تو ان اقتدار کے پجاریوں نے اس کو بھی منسوخ کیا اور بڑی مشکلوں سے جب 1956ء میں دوبارہ دستور بنا، تو اس کو بھی فوجی ڈکٹیٹر ایوب خان نے 1958ء میں باقاعدہ ’’مارشل لا‘‘ لگا کر منسوخ کر دیا۔ 1962ء میں اپنی مرضی اور خواہشات کے فروغ کے لیے 1962ء کا آئین جو ’’بی ڈی نظام‘‘ کے نام سے مشہور ہوا، پارلیمانی جمہوریت، دو ایوانوں پر مشتمل عوامی نمائندگی پر مشتمل جمہوری نظام کو ختم کرکے وحدانی طرزِ حکومت بنا کر سارے اختیارات صدر اور مرکز میں مرتکز کر دیے۔ جس کی وجہ سے زیادہ آبادی پر مشتمل اور جغرافیائی طور پر مغربی پاکستان سے دور مشرقی پاکستان میں احساسِ محرومی پروان چڑھی۔ مغربی پاکستان سے بھیجی گئی بیوروکریسی نے بنگالی مسلمانوں کے ساتھ جو سلوک کیا اور جو طرزِ عمل اختیار کیا، وہ کسی طور بھی اس سلوک سے مختلف نہیں تھا جو انگریز اپنے دورِ حکومت میں ہندوستانی رعایا سے کرتے تھے۔ بلاشبہ ایوب خان کے دس سالہ دورِ حکومت میں صنعتی ترقی بھی ہوئی، ڈیم بھی بنے، بظاہر امن و امان بھی قائم رہا، لیکن احساسِ محرومی پر مشتمل نفرت، ناراضی اور بغاوت کا مادہ اندر ہی اندر جوش مارتا رہا۔
آخرِ کار ایک نااہل فوجی حکومت کے دوران میں یہ آتش فشاں پھٹ پڑا اور اپنے مسلمان بھائیوں (مشرقی و مغربی پاکستان کے مسلمان) کے درمیان نفرت اتنی بڑھی کہ مشرقی پاکستان میں اپنے مسلمان بھائیوں کا خون بہایا گیا۔ یہاں بھی بجائے اس کے کہ حکمت ، بصیرت اور اخلاص کے ذریعے اس ردعمل پر قابو پایا جاتا، فوجی ایکشن کے ذریعے مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کی گئی اور نفرت کا جواب نفرت کی گولیوں سے دیا گیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ اپنے غیر ہوگئے اور غیروں اور دشمنوں کے ساتھ مل کر ہم سے الگ ہو گئے۔

بہرحال ذوالفقار علی بھٹو، قائد اعظم کے بعد وہ دوسرا سیاستدان تھا، جو جاگیردارانہ پس منظر رکھنے اور آمرانہ مزاج کے باوجود پاکستان کے لیے ایک مسلم لیڈر کے طور پر اگر نہیں، تو ایک قوم پرست لیڈر کے طور پر ضرور سامنے آیا۔

ماضی کی اس داستان سے سبق لینے کے بجائے اسی خود غرضی، مفاد پرستی اور اقتدار پرستی کا مظاہرہ جاری رہا۔ یحی خان کی بدنامِ زمانہ ڈھائی سالہ عرصۂ اقتدار کے بعد جب مجبوراً اقتدار سویلین سیاست دان کی طرف منتقل کیا گیا، تو اس سیاست دان کا کردار بھی سانحۂ مشرقی پاکستان میں ملوث تھا اور اسی نے سب سے پہلے ’’اُدھر تم، اِدھر ہم‘‘ کا نعرہ لگایا تھا، لیکن بہرحال ذوالفقار علی بھٹو، قائد اعظم کے بعد وہ دوسرا سیاستدان تھا، جو جاگیردارانہ پس منظر رکھنے اور آمرانہ مزاج کے باوجود پاکستان کے لیے ایک مسلم لیڈر کے طور پر اگر نہیں، تو ایک قوم پرست لیڈر کے طور پر ضرور سامنے آیا۔ اپنے چھے سالہ دورِ حکومت میں اس کے بعض فیصلے معاشی اور خصوصاً دفاعی حکمت عملی کے لحاظ سے بہترین تھے۔ اسی نے عام لوگوں کو پاسپورٹ کے ذریعے بیرونی ممالک میں روزگار کے مواقع فراہم کیے۔ پاکستان کو ایٹمی قوت بنانے کی ابتدا کی، برادر مسلم ملکوں سے بہتر اور باوقار تعلقات استوار کیے۔ وہ یقینا کچھ بنیادی کمزوریوں کے باوجود ایک وِژنری لیڈر تھا، لیکن
پھر اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی
اور ملک ایک بار پھر فوجی حکمرانی کی ایک طویل اندھیری رات میں بھٹکنے لگا۔ ضیاء الحق بظاہر ایک متحمل مزاج، دین دار اور پاک و صاف شخصیت رکھنے والا فوجی حکمران تھا، لیکن فوجی اسٹیبلشمنٹ ایک شخص نہیں بلکہ ایک منظم ادارہ ہے، جو اپنے فوجی مزاج کے مطابق اپنے اقتدار کی طوالت کے لیے عجیب و غریب اور ملک و ملت کے لیے خطرناک منصوبے تشکیل دیتا رہتا ہے۔ اسی منصوبہ بندی کے مطابق اس بارہ سالہ دورِ حکومت میں ایم کیوایم کی تشکیل کی گئی۔ ملک کی اسلامی، جمہوری اور قومی مزاج رکھنے والی پارٹیوں کو دھکیل کر لسانی، صوبائی اور جغرافیائی بنیادوں پر مقامی گروہوں کی حوصلہ افزائی اور نشونما کے لیے ماحول فراہم کیا گیا۔ فرقہ واریت کو فروغ دیا گیا اور ان کو سازگار ماحول فراہم کیا گیا۔ نتیجے میں ان خطر ناک ، زہریلے پودوں نے آنے والے وقت میں تناور درختوں کی شکل اختیار کی۔
قارئین، آج کی صورتحال یہ ہے کہ نااہل سیاسی قیادت نے آئینی ترمیم کے ذریعے فوج کے لیے مختلف علاقوں میں شورش اور امن و امان کو کنٹرول کرنے کی خاطر فوجی ایکشن کے لیے جواز فراہم کیا اور ان فوجی آپریشنوں کے نتیجے میں آج ’’پختون تحفظ موومنٹ‘‘ اور علاقائی، لسانی اور قومی طاقتوں کو اتنا نفرت انگیز مواد اور دلائل فراہم کی گئیں کہ عالمی طاغوتی ایجنڈے کے مطابق ’’گریٹر پختونستان‘‘ اور ’’گریٹر بلوچستان‘‘ کے منصوبے عملی شکل اختیار کرنے کے واضح آثار و قرائن سامنے نظر آنے لگے ہیں۔
خدارا! آنکھیں کھولیے۔یہ ملک ہے، تو ہم سب ہیں۔ اگر ملک نہ رہا، تو کہاں پر اور کس پر حکمرانی کروگے؟ "فاعتبرو یا اولی الابصار!”

……………………………………………..

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com پر ای میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔