آلائی بٹگرام کے واقعے سے مجھے یہاں بحرین سوات کا ایک واقعہ یاد آیا۔ اس کو آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں۔
28 جولائی 2010ء کی رات تھی۔ مَیں بحرین میں اپنے دوسرے گھر تھا۔ ساری رات مختلف میڈیا کو سیلاب کے حوالے سے تازہ ترین حالات بتارہا تھا۔ ایسے میں مجھے لاہور سے ایک دوست کی کال آئی: ’’توروالی بھائی، ہمارے چند دوست بحرین کے ایک ہوٹل عمران پرل میں تیسری منزل میں پھنسے ہوئے ہیں۔ اُن کے لیے کچھ کریں۔‘‘
زبیر توروالی کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/zubair-torwali/
مَیں بہت سخت پریشان ہونے کے ساتھ متزلزل بھی ہوا کہ اب کیا کروں؟ یہ تو سرے سے ممکن ہی نہیں کہ عمران پرل کی دوسری منزل بھی پانی میں ڈوب چکی تھی اور ہر طرف دریا بہہ رہا تھا۔ کچھ دیر سوچا کہ کیا کیا جائے! سوچا کہ سب سے پہلے پھنسے ہوئے لوگوں کو امید دلانی ہے اور تسلی دینی ہے۔ لاہور والے دوست کو فون کیا اور معلوم کیا کہ اُن پھنسے ہوئے افراد میں کوئی خاتون یا بچہ تو نہیں۔ خوش قسمتی سے سارے مرد تھے اور اُن میں ایک کی عمر 70 سال کے قریب تھی۔ اُس دوست سے اُن میں سے ایک کا فون نمبر لیا۔ ابھی مشکل یہ تھی کہ فون کرکے کیا بتاؤں گا…… یہ کہ مَیں زبیرتوروالی ہوں، یہاں کا مقامی عام فرد ہوں اور پانی اور سیلاب سے بہت ڈر لگتا ہے…… اس سے ان کی کیا تشفی ہوتی؟ بس کچھ دیر بعد فون کیا۔ ایک صاحب جن کا نام آصف تھا، نے فون اُٹھایا۔ مَیں نے معلومات لینا شروع کیں کہ کس منزل میں کس روم میں ہو، کتنے افراد ہوں، عمرین کتنی ہیں اور کوئی خاتون یا بچہ تو نہیں؟ اُنھوں نے جواب دیا۔ پھر پوچھا کہ آپ کون بول رہے ہیں؟ میرے پیروں نیچے سے زمین نکل گئی، لیکن بڑی حاضر جوابی سے جھوٹ بولا کہ مَیں فُلاں کرنل بول رہا ہوں۔ اسی کے ساتھ اُن کو کہا کہ فکر نہ کریں۔ ہماری ٹیم آپ کی طرف روانہ ہوچکی ہے۔ وہ سر سر کَہ کر روتے ہوئے مطمئن ہوا، مگر مَیں مزید پریشان ہوا کہ اب کیا کروں؟
فوجی افسروں کے نمبر میرے پاس تھے اور اُن میں کئی ایک سے اچھے تعلقات بھی تھے۔ فوراً یہاں کے تحصیلِ بحرین کے انچارج ایک کرنل کو فون ملایا اور اُن کو کہا کہ اُن پھنسے ہوئے افراد کو بچانا ہے۔ ایک افراتفری کا ماحول تھا اور آرمی کی ٹیمیں ہر طرف نکل چکی تھیں۔ کوئی ریسکیو والا سامان بھی موجود نہیں تھا۔ کرنل صاحب نے اپنے میجر کو فون کیا اور کہا کہ کچھ بھی ہو، کچھ نہ کچھ کیا جائے۔
دس منٹ بعد پھنسے ہوئے بندوں کو پھر فون کیا اور کہا کہ بس ہماری ٹیمیں پہنچ چکی ہیں۔ آپ تسلی رکھیں۔ ایسے میں مذکورہ کرنل کا فون آیا کہ واقعی آرمی کی ٹیم وہاں روانہ ہوچکی ہے۔ اُس ٹیم کے سربراہ کا نمبر لیا۔ اُن سے رابطہ کیا، تو عمران پرل کے مغرب کی طرف کھیت کے دہانے پر پہنچ چکے تھے اور وہاں پانی کے بہاو اور تیزی کو دیکھ کر مایوس لگ رہے تھے۔ ایسے میں، مَیں نے یہاں بحرین میں اپنے مقامی تیراکوں کو فون کیا۔ اُن کا نمبر بھی میجر صاحب کو دیا۔ اُنھوں نے بھی اُن تیراک بھائیوں سے فون پر رابطہ کیا۔ رسیاں لائی گئیں۔ ایک مقامی تیراک کو رسّی سے باندھ کر دریا میں چھوڑ دیا گیا۔ اُنھوں نے درختوں کے بڑے بڑے تنوں اور پانی کے بہاو سے جواں مردی کے ساتھ مقابلہ کرکے خود کو ہوٹل کی چھت پر پہنچا دیا۔ اِس کے بعد اُس کا ایک اور ساتھی وہاں رسّی کے ذریعے پہنچ گیا۔
دونوں نے باری باری بڑی منّت سماجت کے بعد ان پھنسے ہوئے سات افراد کو رسّی سے ایک ایک کرکے باندھا اور دریا میں چھوڑ دیا۔ مغرب کی طرف کھیت میں کھڑے لوگوں نے اُن کو کھینچا۔ سب زندہ سلامت نکل آئے۔ اُن سب کے بعد ہمارے مذکورہ نڈر نوجوان اُن رسیوں کے ذریعے پار پہنچ گئے۔ یہ دو گھنٹو ں کا مختصر ریسکیو آپریشن تھا، جو ہمارے لیے باعثِ فخر ہونے کے ساتھ ساتھ سبق آموز بھی تھا۔ مقامی لوگ مقامی ایکولوجی کے عادی ہوکر اس کے ساتھ برتاو کرنا جانتے ہیں۔ لہٰذا ایسے مواقع میں وہ بڑا کردار ادا کر سکتے ہیں۔ سرکاری اور ریاستی اداروں پر لوگ اعتماد کرتے ہیں اور ایسے مواقع پر اُن کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔ یہ ادارے مقامی لوگوں سے مل کر ترقیاتی کاموں سمیت ایسے ریسکیو اور رفاہی کاموں کو بخوبی سرانجام دے سکتے ہیں۔ ہمارے ہاں کئی گم نام ہیرو اپنے اپنے شعبوں میں کمال اور حوصلے کے ساتھ ہمیشہ موجود رہتے ہیں۔ اُن کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔
آخر میں ازراہِ تفنن کہوں کہ لاہور کے وہ آصف صاحب اُس کے بعد ایک سال تک مجھے کرنل ہی کَہ کر فون کرتا رہا۔ جب مَیں نے اُسے اپنا اصل نام بتایا، تو اُس کے بعد وہ مزید خوش ہوا۔ بعد میں سیلاب زدگان کے لیے اُس نے خوراک سے بھرے دو ٹرک بھیجے تھے، جسے چکڑئی فتح پور کے مقام پرراشن سمیٹنے والے لوگوں نے لوٹ لیا تھا۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔