پاکستان میں 70 سے زیادہ زبانیں بولی جاتی ہیں…… مگر ’’قومی زبان‘‘ اُردو اور ’’صوبائی زبانوں‘‘ پشتو، سندھی، پنجابی اور بلوچی کے علاوہ دیگر زبانوں کا علم کم ہی لوگوں کو ہوگا۔
ڈھیر سارے لکھاری اور ماہرین ان دیگر زبانوں کو زبان ماننے کو بھی تیار نہیں۔ وہ ان کو ’’لہجے‘‘ یا پھر ’’بولی‘‘ ہی کہتے ہیں۔ حالاں کہ یہ بولیاں یالہجے نہیں…… بلکہ زبانیں ہیں۔
زبیر توروالی کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/zubair-torwali/
پاکستان میں کئی اور مسئلوں کی طرح زبان اور لسانی شناخت کا مسئلہ شروع دن سے رہا ہے۔ پاکستان میں ’’ثقافتی اور لسانی تکثیریت‘‘ کی بجائے ’’یکسانیت‘‘ پر ہمیشہ زور دیا گیا ہے…… اور جن لوگوں نے اس نکتۂ نظر سے اختلاف کیا، ان کو ’’غدار‘‘ قرار دیا گیا۔
’’محب وطن‘‘ حلقوں کی طرف سے مسلسل کوشش کے باوجود اُردو کو وہ مقام نہیں دیا جاسکا، جس کا ذکر آئین اور تعلیمی حکمت عملیوں میں بار بار کیا گیا۔ تاہم اس عمل کا اثر دوسری لسانی اکائیوں پر بہت برا ہوا۔
ریاست کی جانب سے مسلسل انکار کی بدولت ان اکائیوں کی شناخت اور زبانیں ختم ہونے لگیں۔ ان زبانوں میں اکثریت اب معدومی کے خطرے سے دوچار ہے اور کئی ایک تو پہلے سے ہی مٹ چکی ہیں۔
ان میں کئی زبانیں شمالی پاکستان میں بولی جاتی ہیں۔ ان زبانوں میں ’’انڈس کوہستانی‘‘، ’’کھوار‘‘، ’’کلاشہ‘‘، ’’پلولہ‘‘، ’’شینا‘‘، ’’وخی‘‘، ’’بروشسکی‘‘، ’’بلتی‘‘، ’’دمیلی‘‘، ’’گوجری‘‘، ’’پہاڑی‘‘، ’’پوٹھوہاری‘‘، ’’گاؤری‘‘ اور توروالی وغیرہ شامل ہیں۔
دو پاکستانی زبانیں حالیہ سالوں میں مٹ چکی ہیں۔ ’’ڈوماکی‘‘ گلگت بلتستان میں بولی جاتی تھی، جب کہ ’’اشوجو‘‘ سوات کی بشیگرام وادی میں بولی جاتی تھی۔
یہ زبانیں اپنے بولنے والوں کی طرح کئی مسئلوں سے دوچار ہیں۔ تقریباً ساروں میں کوئی "Standardized” رسم الخط موجود نہیں…… اور اس کی وجہ سے ان زبانوں کو لکھنے کا رواج عام نہیں ہوا۔
ان زبانوں میں البتہ لوک ادب اپنی ہر صورت میں موجود ہے۔ تاہم یہ ادب سینہ بہ سینہ نسلوں میں منتقل ہوتا ہے۔ لکھائی کا نظام نہ ہونے کی وجہ سے مقامی حکمت اور تاریخ کے یہ خزینے معدوم ہوتے جارہے ہیں۔
ان کمیونٹیوں میں ’’لسانی تبدیلی‘‘ یعنی "Language Shift” کا عمل تیز تر ہے۔ کیوں کہ ریاستی عدم دلچسپی کی وجہ سے لوگ اپنی زبانوں کو ترقی میں رکاوٹ سمجھ رہے ہیں۔ ان میں سے کوئی زبان بھی اسکولوں میں ذریعہ تعلیم نہیں اور نہ مضمون کے طور پر پڑھائی ہی جاتی ہے۔
اسی وجہ سے بچوں اور نوجوانوں میں اپنی زبان چھوڑنے کا عمل تیز ہے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔