’’ایلن ڈی بوٹن‘‘ جنہیں ’’پوپ فلاسفر‘‘ (Pop Philosopher)بھی کہا جاتا ہے، ایک انٹرویو میں بتاتے ہیں کہ یونیورسٹی میں پہلے روز فلسفے کی کلاس میں اپنے استاد کی ظاہری شخصیت دیکھ کر بہت مایوس ہوئے تھے ( ظاہری شخصیت سے مراد مناسب موزوں ڈریسنگ اور باڈی لینگویج ہے۔)
فلسفہ پڑھنے کا یہ ہرگز مقصد نہیں کہ انسان ہر چیز سے بے نیاز ہوجائے۔ بل گیٹس، آئن اسٹائن، اسٹیو جابز، ہندو مذہب کے خدا ’’شیوا‘‘ یقینا افورڈ کرسکتے ہیں بے نیاز ہونا، لیکن ایک عام اور اوسط درجے کا انسان پہلے ظاہر اور پھر باطن کی طرف جاتا ہے۔ حالاں کہ ایسا ہونا نہیں چاہیے۔ کیوں کہ آخر میں رزلٹ کا دار و مدار باطن پر ہی ہوتا ہے، لیکن ایک اوسط درجے کا دماغ ایسے ہی کام کرتا ہے۔ ہمارے چاہنے نہ چاہنے سے کچھ نہیں ہوتا۔ کیوں کہ حقیقت میں دماغ پہلے باہر کی چکاچوند کو دیکھ کر متاثر ہوتا ہے، پھر اندر کی اصلیت کو پرکھتا ہے۔
ایلن کہتے ہیں کہ فلسفے کو جب تک عام زندگی اور عام انسان سے ریلیٹ نہیں کیا جائے گا، تب تک فلسفہ خیالی اور غیر عملی سمجھا جائے گا۔ کسی زمانے میں فلسفی سیلیبریٹی ہوا کرتے تھے۔ پوپ اسٹارز پر فلسفی ہنستے تھے اور شہرت کو غلط مانتے تھے۔ آج پوپ کلچر کا دنیا پر راج ہے اور فلسفہ عام آدمی کے لیے ایلین اور بوریت کا سامان۔ لوگ جنسیت، گوسپ، اسٹائل، فیشن وغیرہ کو سچ سننے پر ترجیح دیتے ہیں۔ کیوں کہ یہ سارے ٹاپک پاپولر ہیں اور ان کو نہایت ہی دلچسپ انداز میں پیش کیا جاتا ہے۔ ایلن کہتے ہیں کہ فلسفے کو پوپ کلچر سے سبق سیکھنا چاہیے۔ پاپولر ہوں گے، تو پاؤر ہوگی اور اپنا میسج زیادہ لوگوں تک پہنچا سکیں گے۔
اب اُس دلچسپ وڈیو کی بات کی جائے، جو میری نظر سے گزری…… تو پہلی بار فزکس کے ٹاپک "Torque” اور "Angular Momentum” سمجھ میں آئے۔ اُس ویڈیو میں اُستاد چشمہ لگائے بچوں کو پڑھاتا دکھائی دے رہا ہے۔ بورڈ کی جگہ ڈیجیٹل اسکرین ہے۔ فزکس کو بورڈ پر محض پڑھا نہیں رہا بلکہ دکھا بھی رہا ہے کہ یہ سب اپلائی کیسے ہوتا ہے اور کام کیسے کرتا ہے۔ ہمارے پڑوسی ملک میں STEM سبجیکٹ پر کافی زور دیا جا رہا ہے، وہاں ہر کوئی ’’سندر پچائی‘‘ بننا چاہتا ہے اور کروڑوں میں سیلری چاہتا ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ ہمارے یہاں استاد پڑوسی ملک کے استادوں سے زیادہ اچھا لہجہ اور باڈی لینگویج رکھتے ہیں۔ بس کمی "Passion” اور اپنے سبجیکٹ میں مہارت کی ہے۔ یہاں کوئی بھی روایت سے ہٹ کر چلنا نہیں چاہتا۔ سب کو یہی لگتا ہے کہ بچوں کو سائنس میں دلچسپی نہیں۔ یہ بات کسی حد تک درست بھی ہے۔ کیوں کہ سائنس دراصل دلچسپی لینے والی چیز ہے بھی نہیں۔ اس میں دلچسپی پیدا کی جاتی ہے…… اور دلچسپی پیدا کرنے کے لیے اولین شرط استاد کا خود اس سبجیکٹ میں دلچسپی، مہارت اور برتری حاصل کرنا ہے۔
یہاں استاد بچوں سے خود کو ریلیٹ کرنے کی بجائے انہیں اخلاقیات (وہ الگ بات ہے کہ ان استادوں کی زندگی میں اخلاقیات دور دور تک نہیں ہوتی) پر درس دیتے ہیں۔ ساری انرجی ’’ٹین ایجر‘‘ بچوں کے بالوں، جوتوں اور کپڑوں پر تنقید میں لگا دیتے ہیں۔ بچوں کے ساتھ باؤنڈریز (Boundaries) ضرور بنائیں، لیکن ان کے دور میں چل رہی ٹرینڈ کو استعمال کرکے ان کو محسوس کروائیں کہ آپ ان کو سمجھتے ہیں…… نہ کہ باقی بزرگوں کی طرح انہیں اپنے زمانے یاد دلاتے رہتے ہیں۔
آپ جب تک بچوں کے لیے سائنس دلچسپ نہیں بنائیں گے، جب تک عام بچے کو سائنس کا اس کی عملی اور روز مرہ کی زندگی میں کردار نہیں بتائیں گے…… بچوں کو سیکس، فیشن، گوسپ، میوزک ہی پُرکشش لگے گا۔ کیوں کہ یہ سب کچھ نہایت ہی دلچسپ انداز میں ہر جگہ چھایا ہوا ہے۔ وہ روز مرہ کی زندگی میں ان سب کو خود سے ’’ریلیٹ‘‘ کرسکتے ہیں۔
سائنس اور فلسفے کو پُرکشش اور پاپولر ہونے کی ضرورت ہے۔ جو لوگ بھی یہ کرسکتے ہیں، وہ ضرور کریں۔ اپنے ٹیلنٹ کو بروئے کار لائیں۔ آپ "Excellence” دکھائیں گے، تو بچوں میں دلچسپی پیدا ہوگی اور بزنس بھی خود چل کر آئے گا۔
…………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔