تقسیمِ ہند سے پہلے جموں، کشمیر اور آج کے گلگت بلتستان کے علاقے ایک آزاد ریاست تھے۔ اس ریاست کا اپنا ایک مہاراجہ تھا۔ اس ریاست کے مغربی حصے یعنی گلگت بلتستان سے لے کر موجودہ آزاد کشمیر تک کا علاقہ قبائلیوں نے عسکری طریقے سے کشمیری مہاراجہ کے قبضے سے حاصل کرلیا۔ ایسے میں ریاست ہاتھ سے جاتی دیکھ کر مہاراج ہری سنگھ نے بھارت کے ساتھ الحاق کرلیا۔ الحاق کے ساتھ ساتھ مہاراجہ ہری سنگھ نے ذہانت سے کام لیتے ہوئے ایک غیر معمولی کام بھی کیا۔ وہ یہ کہ الحاق کے باوجود ریاست ہائے جموں و کشمیر ایک آزاد ریاست رہے گی، جس میں ریاستی امور، قانون سازی، شہریت اور دیگر اہم امور ریاست کے پاس رہیں گے نہ کہ بھارت کے پاس۔
مذکورہ معاہدے پر بھارت اور کشمیری مہاراجہ دونوں نے دستخط کیے۔ اسی معاہدے کے نتیجے میں کشمیر کو بھارت کے دستور میں ایک خصوصی حیثیت مل گئی اور بھارت کو کشمیر کی خصوصی حیثیت کو برقرار رکھنے کے لیے اپنے دستور میں آرٹیکل 370 اور 35 A شامل کرنا پڑا۔
اس معاہدے کے تحت ریاست ہائے جموں و کشمیر کے دفاع کی ذمہ داری بھارت کے سپرد کی گئی تھی، اور اسی کو بنیاد بنا کر بھارت نے اپنی فوج کشمیر میں داخل کی تھی۔ اب گذشتہ روز بھارت کی جانب سے الحاق کے اس معاہدے کو نہ صرف ٹھکرایا گیا بلکہ کشمیر کی آزاد حیثیت منسوخ کرکے بھارت کے یک طرفہ فیصلے نے کشمیریوں کو اپنے ارادوں سے بھی خبردار کر دیا۔ اس فیصلے کے بعد کشمیریوں کا مستقبل کیا ہوگا؟ یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔
کئی دیہائیوں سے ظلم کے شکار کشمیری عوام نے اب فیصلہ کرنا ہے کہ وہ بھارت کا مسلط کردہ فیصلہ مانتے ہے یا نہیں؟ اب وقت ہے کہ کشمیر کے عوام ایک ہوکر اپنے لیے اپنے مستقبل کی راہ ہموار کریں، اور اپنے آنے والی نسلوں کو عرصۂ دراز سے چلنے والے اس ڈرامے سے نجات دلائیں۔

……………………………………………………….

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔