چیف جسٹس آف پاکستان جناب عمر عطا بندیال کی سربراہی میں آٹھ رُکنی بنچ نے ججز پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کیس کی سماعت کی۔
سماعت کی ابتدا ہی میں بنچ میں جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کی شمولیت پر اعتراض اُٹھایا گیا کہ ان کے خلاف بد عنوانی اور آمدن سے زائد اثاثہ جات بنانے جیسے الزامات پر مبنی ریفرنس دائر ہیں۔ ان کی حیثیت متنازعہ ہے۔ لہٰذا انھیں بنچ کا حصہ نہ بنایا جائے۔ جناب چیف جسٹس نے یہ درخواست مسترد کرتے ہوئے کہا کہ محض ریفرنس کسی جج کو مقدمہ سننے سے نہیں روکتا، جب تک کہ اُس ریفرنس کی باقاعدہ سماعت شروع نہ ہوجائے۔
رفیع صحرائی کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/rafi/
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جناب جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کے خلاف چھے ریفرنسز دائر ہو چکے ہیں۔ ان کی سماعت مقرر کرنے کا اختیار جناب چیف جسٹس کے پاس ہے۔ وہ نہیں چاہیں گے، تو سماعت بھی نہیں ہوسکے گی۔ جناب چیف جسٹس آخر اتنے اہم معاملے کو اہمیت کیوں نہیں دے رہے؟
جناب چیف جسٹس نے دورانِ سماعت ریمارکس دیے کہ سیاست نے عدالتی معاملات کو گندا کر دیا ہے۔ اگر دیکھا جائے، تو یہ بات 100 فی صد درست ہے۔ سیاست دانوں نے اپنے معاملات خود سلجھانے کی بجائے ہر تنازع عدالت کے ذریعے حل کروانے کی روش اپنا کر جہاں خود کو نااہل ثابت کیا ہے، وہیں پر عوام پر بھی بہت بڑا ظلم کیا ہے۔ اعلا عدالتیں سیاسی کیسوں کی دلدل میں اس طرح دھنستی جا رہی ہیں کہ ان کا اس دلدل میں سے جلد نکلنے کا کوئی امکان دور دور تک نظر نہیں آ رہا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ عوام اعلا عدالتوں سے انصاف کے حصول میں نہ صرف ناکام ہوگئے ہیں، بلکہ عدالتوں کی طرف سے مایوسی کا بھی شکار ہیں۔
یہ کس قدر بدنصیبی کی بات ہے کہ اعلا عدالتوں میں دائر عام ملزمان کی ضمانتوں کی اپیل سننے کا وقت بھی عدالتوں کے پاس نہیں۔ ہائی کورٹس ہوں یا سپریم کورٹ…… ہر وقت سیاسی کیسوں میں الجھی ہوئی نظر آتی ہیں۔ بے گناہ قیدی جیلوں میں پڑے سڑ رہے ہیں، مگر عدالتیں ان کے کیس سن نہیں پا رہیں۔
اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ عدالتوں نے کیس میرٹ پر سننے کی بجائے ترجیحات مقرر کر رکھی ہیں۔ سیاسی کیسوں کی فوراً شنوائی ہو جاتی ہے۔ سیاست دانوں کو ریلیف بھی فوراً مل جاتا ہے، مگر عوام عدالتی توجہ اور انصاف سے بہت حد تک محروم ہیں۔
سوچنے کی بات تو یہ بھی ہے کہ اگر سیاست نے عدالتی معاملات کو گندا کر دیا ہے، تو اس میں کیا سارا قصور سیاست دانوں ہی کا ہے…… یا کوئی اور بھی اس کا ذمے دار ہے……؟
بے شک سیاست دان بھی اس کے ذمے دار ہیں کہ جو فیصلے پنچایت (مذاکرات) کے ذریعے حل ہوسکتے ہیں، انھیں بھی عدالتوں میں لے جاتے ہیں…… مگر عدالتی رویہ بھی تو ان سیاست دانوں کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ سیاسی کیسوں کا فوراً لگ جانا اور تیز رفتار سماعت نے سیاست دانوں کی حوصلہ افزائی کی ہے۔ اگر دیگر کیسوں کی طرح سیاسی کیسوں کو بھی انتظار کی سولی پر لٹکا دیا جائے، تو یقینا سیاست دان عدالتوں میں سیاسی کیس لے جانے سے تائب ہو کر اپنے مسائل مذاکرات کی میز پر حل کرتے نظر آئیں گے۔
ایک تجویز یہ بھی ہے کہ جس طرح سرکاری ملازمین کے کیس سننے کے لیے سروسز ٹریبونل قائم کیا گیا ہے، اسی طرح سیاسی کیس سننے کے لیے پولی ٹیکل ٹریبونل قائم کیا جائے، تاکہ عدالتیں اپنے امور پوری توجہ سے نمٹا سکیں۔
عدالتی معاملات کو گندا کرنے میں ’’سوموٹو ایکشن‘‘ نے بھی پورا کردار ادا کیا ہے۔ موجودہ سیاسی اور عدالتی بحران سوموٹو ایکشن ہی کا پیدا کردہ ہے۔ اگر سیاست دانوں کو الیکشن کے معاملے پر مذاکرات کرنے دیے جاتے، تو یہ مسئلہ بہت پہلے حل ہوچکا ہوتا…… مگر ایسا نہیں کیا گیا۔ جناب چیف جسٹس نے سوموٹو لے کر معاملات کو اپنے ہاتھ میں لینا چاہا، تو حالات بگڑ گئے۔ سیاست دان پہلے ہی سپریم کورٹ سے زخم خوردہ تھے۔ وہ دو وزرائے اعظم کی نااہلی اور ایک کی سزائے موت بھگت چکے تھے۔ چناں چہ انھوں نے مزاحمت کا فیصلہ کر لیا۔
جناب چیف جسٹس نے الیکشن کمیشن، چیف ایگزیکٹو اور وزارتِ خزانہ کے اختیارات خود استعمال کرتے ہوئے انتخابی شیڈول دے دیا۔ حکومت کو 21 ارب روپے کے فنڈز انتخابی اخراجات کی مد میں ادا کرنے کا حکم جاری کرنے کے علاوہ سیکورٹی اور انتخابی عمل کے لیے عملہ بھی دینے کا حکم دیا، تو حکومت اَڑ گئی۔ اس نے سپریم کورٹ کو واضح پیغام دے دیا کہ آپ کے احکامات حدود سے متجاوز ہیں۔ اداروں کو اپنی اپنی حدود میں رہنا چاہیے…… مگر جناب چیف جسٹس نے براہِ راست سٹیٹ بنک کو حکم دے دیا کہ وہ الیکشن کمیشن کو 21 ارب روپے کی ادائی کرے۔
حکومت نے بھی چوں کہ ٹکراو کی پالیسی پر عمل کرنے کا فیصلہ کرلیا تھا، لہٰذا سپریم کورٹ کے اس حکم کے آگے قانونی اور آئینی بند باندھ دیا گیا۔ اب سپریم کورٹ کے پاس اپنے احکامات پر عمل کروانے کے لیے کوئی راستا نہیں۔
اگر جناب چیف جسٹس سوموٹو لینے میں جلدی نہ کرتے، تو سپریم کورٹ اور پارلیمنٹ میں ٹکراو کی صورتِ حال سے بچا جا سکتا تھا۔
یہی نہیں کہ صرف پارلیمنٹ ہی ٹکراو کی صورت حال کی ذمے دار ہے۔ سپریم کورٹ بھی اس میں برابر کی شریک ہے۔ حکومت کے علاوہ سپریم کورٹ بار اور دیگر بارز نے بھی جناب چیف جسٹس کی خدمت میں بار بار استدعا کی کہ فل کورٹ بنچ بنا کر کیس سنا جائے۔ فل کورٹ کا ہر فیصلہ منظور ہوگا …… مگر اس استدعا کو ہر بار مسترد کر دیا گیا۔ اگر آغاز میں ہی فل کورٹ بنا کر کیس سن لیا جاتا، تو اَب تک نہ صرف فیصلہ ہو چکا ہوتا، بلکہ موجودہ بحران بھی ختم ہوچکا ہوتا۔ جانے فل کورٹ بنانے میں کیا امر مانع تھا؟
آج (منگل 2 مئی) کی سماعت میں بھی فل کورٹ بنانے کی استدعا کی گئی، جسے فی الحال شرفِ قبولیت نہیں بخشا گیا…… اور ساتھ ہی جناب چیف جسٹس نے یہ بھی فرما دیا کہ موجودہ آٹھ رکنی بنچ چھوٹا بھی کیا جاسکتا ہے۔ پھر بھی یہ شکوہ ہے کہ سیاست نے عدالتی معاملات کو گندا کر دیا ہے۔
’’دو تین‘‘ اور ’’تین چار‘‘ کی اکثریت والے فیصلوں نے بھی سپریم کورٹ کے معاملات کو گندا کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ حکومت چار تین کے فیصلے کو درست مانتی ہے۔ اس کا موقف ہے کہ تین کے مقابلے میں چار ججوں کا اکثریتی فیصلہ اس کے حق میں ہے۔
سپریم کورٹ کے اندرونی معاملات بھی درست نہیں۔ ججوں کی تقسیم واضح ہوچکی ہے۔ ’’ہم خیال جج‘‘ کی اصطلاح زبان زدِ عام ہے۔ بنچ کی تشکیل ہوتے ہی مستقبل میں دیے جانے والے اس کے فیصلے کی درست پیش گوئی کر دی جاتی ہے۔
جناب عطا تارڑ کی پریس کانفرنس بھی اس جانب اشارہ کرتی ہے کہ بنچوں کی تشکیل نے بھی عدالتی معاملات کو گندا کرنے میں اپنا کردار ادا کیا ہے۔
جناب چیف جسٹس نے کیس کی سماعت ملتوی کرتے ہوئے سپریم کورٹ سے ’’ججز پروسیجرز اینڈ پریکٹس بل‘‘ کی منظوری کے وقت اسمبلی اجلاس کی کارروائی کی رپورٹ طلب کرلی ہے۔ پتا نہیں یہ رپورٹ منگوانے کا مقصد کیا ہے…… کیوں کہ بل پاس ہو کر ان کے پاس پہنچ چکا ہے۔ ٹکراو کی پالیسی پر عمل در آمد جاری ہے۔
یوں سپریم کورٹ سیاسی دلدل میں اپنی مرضی سے دھنستی چلی جا رہی ہے جب کہ عوام بے بسی اور بے کسی کی تصویر بن کر مہنگائی اور لوٹ مار کی دلدل میں کانوں تک ڈوب چکی ہے۔ اناؤں کی جنگ نے نفرتوں کو جنم دے کر ملک کو جہنم زار بنا دیا ہے۔ جانے کس کی نظر لگ گئی ہے میری جنت، میرے پاکستان کو!
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔