لکھنوی تہذیب میں بانکوں کا ذکر ملتا ہے۔ عبدالحلیم شرر نے بھی اس موضوع پر طبع آزمائی کی تھی۔
بانکے دراصل چلتے پھرتے انسانوں کی وہ قسم ہوا کرتے تھے، جو اپنی چال چلن، وضع قطع اور مختلف حرکات و سکنات سے دور سے ہی پہچانے جاتے تھے۔ کچھ ایسی ہی قسم کے لوگ دہلی میں محمد شاہ رنگیلا کے دربار میں بھی ہوا کرتے تھے، جو جان بوجھ کر اپنا حلیہ و شکل دوسرے لوگوں سے الگ طرح سے، وکھری ٹائپ اور انوکھا دکھانے کے لیے شعوری کوشش کرتے تھے۔ کوئی اپنے بال بڑھا کر کندھوں سے نیچے لٹکا لیتا۔ کوئی ایک طرف کے بال کٹوا لیتا، تو دوسری طرف والے لمبے کر کے اپنے ایک کندھے پر پھیلا کر گھومتا رہتا تھا۔ کوئی رگڑ کر ٹنڈ کروا کے سیاہ و سرخ کپڑے زیب تن کر کے ہاتھ میں ڈنگوری تھامے گھومتا پھرتا۔ کوئی گلے میں سنگل ڈال کر ایک ہاتھ میں چلم تھامے سوٹے پہ سوٹا لگاتا چلتا، تو کوئی رنگین کپڑے پہنتا اور میک اَپ بھی کرلیتا تھا۔ 18ویں صدی کا وہ دور کب کا گزر چکا۔ مغلیہ سلطنت کب کی ختم ہوچکی…… مگر برِصغیر پر اس کے اثرات اب بھی باقی ہیں۔
خالد حسین کی دیگر تحاریر کے لیے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/khalid/
اندرون شہر ملتان کی تنگ و تاریک گلیوں میں اب بھی کچھ ایسے عناصر پائے جاتے ہیں۔ جو اپنے آپ کو دوسروں سے الگ دکھانے کے لیے مختلف سوانگ رچاتے ہیں۔ ایسے بہت سے کردار ’’وسیب ایکسپلورر‘‘ کی جانب سے منعقد کردہ حالیہ فوٹو واک میں بھی اندرون شہر دیکھنے کو ملے تھے…… مگر اب وقت بدل چکا ہے۔ یہ 21ویں صدی کا دورِ جدید ہے ۔ اب بانکے تقریباً ختم ہوچکے ہیں اور اگر کہیں پر ہیں بھی، تو اِکا دُکا…… مگر وہ بھی جدید ہو گئے ہیں۔ وہ سوٹڈ بوٹڈ ہوکر، ٹی شرٹ یا تھری پیس پہن کر گھومتے پھرتے نظر آتے ہیں۔
ملتان میں اگر آپ کسی ادکھڑ سے جوان نما اور ہاف بڈھے شخص کو جینز، ٹی شرٹ یا اَپر پہن کر گھومتا دیکھیں، جس کے ہاتھ میں مسلسل سلگ سلگ کر دھواں چھوڑتا، جلتا ہوا سگریٹ ، پاوں میں امپورٹڈ ورائٹی کے جوگرز اور وہ گچی کی مسحور کن خوش بو بکھیرتا جا رہا ہو، تو فوراً سمجھ جائیں کہ یہ ’’عامر بشیر‘‘ ہے۔ ایک پڑھے لکھے خاندان کا ایک پڑھا لکھا مگر بگڑے نواب جیسا رنگین شخص۔
وہ جینز اور ٹی شرٹ اس لیے زیادہ تر پہننا پسند کرتا ہے کہ اس کے سائز کے انگریز زیادہ مرتے ہیں۔ ’’امپورٹڈ مال‘‘ خریدنے میں اس نے ماسٹر ڈگری حاصل کر رکھی ہے۔ جوں ہی دور سے کسی ریڑھی پر وہ ’’کم دا‘‘پیس دیکھتا ہے، فوراً تاڑ لیتا ہے۔ اور پھر کسی ماہر شکاری شیر کی طرح شست لگا کر، نیواں نیواں ہو کے، آہستہ آہستہ سے، دبے پاوں چل کر اپنے شکار کی جانب بڑھتا رہتا ہے۔ اور پھر ایک زور دار جمپ لگا کر اس ’’کم دے‘‘ پیس کو اُچک لیتا ہے۔ اس پر کمال یہ کہ دکان دار کو بھاو تاو میں اس طریقے سے گھیر لیتا ہے کہ بے چارے دکان دار کو سمجھ ہی نہیں آتی کہ وہ کیا کرے اور وہ بے چارہ کنفیوز ہو کر کسی پٹھان کی طرح سات ہزار والی چیز اسے سات سو میں دے کر اپنی جان چھڑاتا ہے۔
پانچ سال انگلینڈ (یو کے) میں رہنے کا تجربہ بھی تو کوئی چیز ہوتی ہے۔ کیوں کہ وہاں جا کر بھی وہ سارا دن لندن کی گلیوں میں مٹرگشت ہی کرتا رہتا تھا۔ اُسے اب تک سب انگریزوں کے کپڑے زبانی یاد ہیں۔ جوں ہی کوئی گٹھ کھلتی ہے، فوراً بتا دیتا ہے۔ یہ مائیکل کا کوٹ ہے۔ یہ جوزف کی ٹی شرٹ ہے۔ یہ مسز فُلاں کی اچی اڈی والی جتی ہے۔ یہ مس جینیفر کے جوگرز ہیں۔ فُلاں شخص فُلاں نمبر کے جوتے پہنتا تھا۔ فُلاں شخص فُلاں رنگ اور فُلاں نمبر کا تھری پیس پہننا پسند کرتا تھا۔ ان میں سے فُلاں فُلاں شخص کے کپڑوں اور جوتوں کے نمبر میرے نمبر کے جوتوں اور کپڑوں سے میچ کرتے تھے۔ کئی مسز اور مسوں کے ڈریس کے متعلق بھی کافی اندرونی اور گہری معلومات ہیں اُسے…… جنھیں وہ صرف اپنے خاص دوستوں کو بتاتا ہے۔
مستنصر حسین تارڑ (شخصی خاکہ):
https://lafzuna.com/prose/s-21263/
یوکے میں اب بھی وہ اپنے پرانے دوستوں سے ٹیلی فونک رابطہ رکھتا ہے۔ جوں ہی اس کے کسی ہم نمبر انگریز کی فوتگی ہوتی ہے، وہ فوراً اپنے دوستوں سے کَہ کہا کے اس کے سارے کپڑے ملتان آنے والی گٹھ میں رکھوا لیتا ہے، اور پھر گن گن کے دن گزارتا رہتا ہے۔
پھر جوں ہی بیس دن پورے ہوتے ہیں، وہ ملتان کی ’’امپورٹڈ مال‘‘ مارکیٹ میں مذکورہ کپڑوں کی تلاش میں نکل کھڑا ہوتا ہے…… اور تب تک چین سے نہیں بیٹھتا، جب تک کہ اُسے اُس کا مطلوبہ ’’مال‘‘ نہ مل جائے۔
یورپی حسینائیں اس پر فریفتہ ہو کر مر مٹتی تھیں۔ ان میں سے ایک دو تو ان کے حسن کی تاب نہ لاتے ہوئے، دیکھتے ہی پھڑک کر مرگئیں۔ انگریز ہماری طرح کسی بھی ایسی ناگہانی موت کو ’’اللہ دا حکم‘‘ کَہ کر دفنا نہیں دیتے…… بلکہ وہ اس موت کی وجہ تلاش کرتے ہیں، تاکہ مستقبل میں اس سے بچنے کے لیے حفاظتی اقدامات کیے جاسکیں۔ اس لیے انھوں نے فوراً ان حسیناؤں کی موت کی وجہ کو تلاش کرنا شروع کر دیا۔ مرحومین کے خون کے ٹیسٹ کیے۔ سٹی سکین کیا۔ جتنی کوششیں اور جتنے بھی ضروری ٹیسٹ وہ کر سکتے تھے، کیے…… مگر بہت کوشش کے بعد بھی وہ ان کی وجہِ اموات تلاش کرنے میں ناکام رہے۔
آخرِکار وہاں یوکے میں موجود ایک سینئر ترین پاکستانی ڈاکٹر کو بلوایا گیا۔ اُس نے دیکھتے ہی بتا دیا کہ یہ ’’پُھڑک‘‘ سے مری ہیں۔ اتنا سنتے ہی سارے یوکے میں بھگدڑ مچ گئی۔ ریڈ الرٹ جاری ہوگیا کہ یہ ’’پُھڑک‘‘ بھی شاید طاعون یا کرونا کی طرح کے کسی خطرناک وائرس سے پھیلنے والا کوئی متعدی مرض ہے…… مگر اس سینئر پاکستانی ڈاکٹر نے انھیں حوصلہ دیا کہ ’’ڈونٹ بی پریشان‘‘ کچھ بیماریاں صرف برصغیر پاک و ہند میں پائی جاتی ہیں۔ مثلاً: جادو ٹونہ اور پُھڑک۔ یہ ایسی بیماریاں ہیں کہ ان سے نہ تو پہلے یوکے کو کوئی خطرہ تھا اور نہ آئندہ ہی ہوگا۔ آپ بس وہ منبعِ حسن تلاش کریں کہ جس کے حسن کی ایک ہی تند و تیز جھلک کی تاب نہ لاتے ہوئے یہ پُھڑک کر مر گئی ہیں۔
کچھ عربی زبان کے شناور خورشید رضوی کے بارے میں:
https://lafzuna.com/prose/s-29905/
کئی دنوں کی مسلسل کوشش کے بعد آخرِکار انھیں وہ ’’منبعِ حسن‘‘ عامر بشیر کی صورت میں مل ہی گیا۔ اس بیماری کا شکار صرف ’’انگریج‘‘ چُل بُل ناریاں ہی ہوتی تھیں۔
انگلش حکومت نے ان کے بغیر پردہ کے باہر نکلنے پر پابندی لگا دی۔ بے چارہ کب تک منھ سر چھپا کر لندن گھومتا۔ آخر تنگ آکر واپس پاکستان لوٹ آیا۔
یہاں ملتان واپسی پر بھی یہاں کی دو چار لوکل ملتانی حسیناؤں میں ’’پُھڑک‘‘ کے ہلکے پھلکے اٹیک نوٹ کیے گئے، تو تنگ آکر حکومتِ وقت نے اسے ہمہ وقت اپنا سر ڈھانپ کر رکھنے کا فوری حکم جاری کیا۔ بعد از تحقیقِ بسیار پتا چلا کہ اس کی ٹنڈ سے خطرناک شعائیں خارج ہوتی ہیں…… جو ’’پُھڑک‘‘ کو پیدا کرنے کی وجہ بنتی ہیں۔ یوں وہ اپنے سر پر ہیٹ فقط ٹور ٹپے کے لیے نہیں رکھتا…… بلکہ اس کا ایک بڑا مقصد اپنی ٹنڈ کو چھپا کر رکھنا بھی ہوتا ہے۔ تاکہ مزید کوئی مہ رو پھڑک کا شکار ہو کر مر نہ جائے۔
سگریٹ نوشی کا رسیا ہے۔ آپ اسے ’’چین سموکر‘‘ کَہ سکتے ہیں۔ وہ اپنے پاس ماچس رکھنے کی ضرورت اس لیے بھی محسوس نہیں کرتا کہ پہلی سگریٹ کے ختم ہونے سے قبل ہی وہ اگلی سگریٹ نکال کر اس جلتی ہوئی سگریٹ سے ٹُچ لگا کر ’’قابلِ سوٹا‘‘ بنا لیتا ہے۔ ویسے بھی وہ سگریٹ پئے یا نہ پئے، یہ ایک علاحدہ بات ہے۔ بس اس کے ہاتھ کی انگلیوں میں پھنسی سگریٹ سے دھواں نکلتا رہنا ضروری ہوتا ہے۔ مَیں بھی حیران و پریشان تھا کہ یار یہ اتنی سگریٹس پی کر کیسے برداشت کر لیتا ہے۔
ابھی چند روز قبل اس کے ایک قریبی جاننے والے نے اس راز کو افشا کیا کہ سگریٹ کا سارا دھواں سگریٹ سے نکل کر اس کے چہرۂ انور کے چاروں سمت پھیلتا رہتا ہے۔ جس کے نتیجے میں خطرناک شعاؤں کی شدت میں کمی ہو جاتی ہے۔ لہٰذا یہ سگریٹ پہ سگریٹ فقط اس لیے نہیں پیتا رہتا کہ یہ کوئی ’’چین سموکر‘‘ ہے…… بلکہ یہ انسانیت و نسوانیت کی محبت میں ’’ڈینجرس ریز‘‘ کا توڑ کرتا رہتا ہے۔
ناول ’’کبڑا عاشق‘‘ کا مختصر سا جایزہ:
https://lafzuna.com/prose/s-28431/
مَیں نے اس سے ایک دن پوچھا کہ آپٔ سگریٹ کو اس کے آخری کش تک پی پی کر، اسے نچوڑ کر کیوں پھینکتے ہیں؟ تو وہ یوں گویا ہوا کہ ’’توں کی جانے پولیے مجے نار کلی دیاں شاناں‘‘ ساری سگریٹ کا ’’مجا‘‘ (مزہ) تو اس کے آخری ترین کش میں چھپا ہوتا ہے۔ جیسے جیسے ہم سگریٹ پیتے جاتے ہیں’’مجا‘‘ نیچے سے نیچے سرکتا چلا جاتا ہے…… اور بالآخر فلٹر پہ جا کے اٹک جاتا ہے۔ کمپنی والوں نے یہ فلٹر ایویں ای تو نہیں لگا رکھے…… بلکہ ان کے لگانے کا بھی ایک بڑا مقصد ہے۔ اور وہ مقصد اس ’’مجے‘‘ کے آگے بندھ باندھ کر، سگریٹ کے اگلے حصے سے اس کی راہِ فرار کو روکنا ہے۔ ورنہ دھوئیں کا کیا ہے، وہ تو باریک سے باریک سوراخ سے بھی نکل سکتا ہے۔ کسی نے اینویں ہی تو نہیں ارشاد فرمایا کہ”The last puff of a cigarette is better than hundred kisses of a teen ager.” یعنی جو ’’مجا‘‘ سگریٹ کے آخری کش میں چھپا ہوتا ہے، وہ نہ بلخ نہ بخارے اور نہ چھجو دے چوبارے جا کر ملتا ہے۔
فلسفۂ زندگی میں مغل شہنشاہ بابر سے متاثر ہے۔ حالانکہ یوکے میں پانچ سال گزارنے والا بندہ محمد شاہ رنگیلا سے بدوبدی متاثر ہو جاتا ہے۔ ایک روپیا اپنے پاس جوڑ کر نہیں رکھتا۔ کھاؤ پیو مزے اڑاو۔ کل کا کچھ پتا نہیں کیا ہو جائے۔ ملتان کے ہر اچھے کھابا پوائنٹ کا ایڈریس اور فون نمبر اسے توتے کی طرح رٹا ہوا ہے…… اور ہر کھابا پوائنٹ والا اسے دور ہی سے پہچان لیتا ہے۔ اس لیے نہیں کہ وہ اُدھار کھا کر پیسے نہیں دیتا…… بلکہ اس لیے کہ وہ اس کی مخصوص کھابا ڈش کو سراہنے والا اس کا سچا طلب گار ہے۔ کھانے پینے والی ریڑھی والوں کے آنے اور جانے کا وقت اسے یوں یاد ہے جیسے لاری اڈے کے ہاکروں کو بسوں کے نمبر اور ان کے آنے جانے کا وقت یاد ہوتا ہے۔
بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست
بہت رنگین مزاج شخص ہے۔ نمکین گفتگو کرکے دوسروں کے دل میں گھر کر جاتا ہے۔ بہتر ہے کہ ایسے خطرناک شخص سے دور رہا جائے۔ ورنہ جو شخص ایک دفعہ اس کے دامِ الفت میں پھنس گیا وہ سدا اسی کا اسیر ہو جاتا ہے ۔ ہٹو بچو۔
عامر بشیر صاحب کا چہرۂ انور ’’طمع‘‘ جیسا ہے۔ جس طرح طمع کے تینوں حروف خالی ہوتے ہیں۔ ان کے اوپر نیچے نہ کوئی زیر، زبر، پیش، شد، مد اور نہ کوئی نکتہ ہوتا ہے…… اسی طرح عامر بھائی کے چہرہ مبارک پر نہ کوئی موئے شریف ہیں، نہ تل نہ موہکا، نہ کوئی دانہ اور نہ ان کے سر پر کوئ گیسوئے قلیل و دراز ہیں…… بلکہ مشرقی تا مغربی اور شمالی تا جنوبی سرحد ہر طرف رڑا میدان ہے۔ وہ تو شکر ہے دونوں طرف والے کان سلامت ہیں…… جن پر وہ اپنی عینک اٹکا لیتے ہیں۔ ورنہ انھیں اپنی عینک اٹکانے کے لیے شاید اپنے سر پر ’’کلیاں ٹھوکنا‘‘ پڑتیں۔ کلیاں ٹھوکنے کے بہت سے نقصانات ہو سکتے تھے۔ سر اور چہرہ شریف کے درمیان اپنی اپنی حدود کے تعین کے لیے گھمسان کی جنگ چھڑ سکتی تھی۔ سر نے کہنا تھا کہ آنکھیں چوں کہ چہرے کا حصہ ہیں۔ عینک اُن کی ضرورت ہے۔ لہٰذا ’’کلیاں‘‘ چہرے پر ٹھوکو۔ جب کہ چہرہ کَہ سکتا تھا کہ نہیں منھ، ناک اور آنکھوں کے ہونے کی وجہ سے پہلے ہی ادھر ’’ہاؤس فل‘‘ ہے۔ ’’کلیاں‘‘ لگانے کے لیے یہاں کوئی ’’پلاٹ‘‘ خالی نہیں۔ سر کا سارا رقبہ ہی خالی اور رڑا میدان ہے۔ یہ ’’کلیاں‘‘ وہاں جا کر ٹھوکیں۔
امیہ چکرورتی کا مختصر تعارف:
https://lafzuna.com/prose/s-28423/
خیر، اس کا انھیں ایک فایدہ یہ ہوتا ہے کہ ان کے سر اور چہرے کے درمیان حدودِ اربعہ کا کوئی جھگڑا جھیڑا نہیں ہوتا۔ چہرۂ انور کی کوئی حدود متعین نہیں اور نہ سر مبارک ہی کی۔ دونوں ایک دوسرے سے مل جل کر بہت صلح صفائی سے اچھے پڑوسیوں کی طرح پُرامن بقائے باہمی کے اصولوں کو اپناتے ہوئے چین سے رہتے ہیں۔ ان دونوں کے درمیان کوئ ’’بفر سٹیٹ‘‘ بھی نہیں کہ وہ اس پر قبضے کے لیے اک دوجے کے خلاف جنگ لڑیں۔ اگر کوئی ہے بھی، تو وہ آنکھوں کے اوپر والا مختصر سا حصہ (بھنوئیں) ہے…… جس کو بھی انھوں نے علامتی طور پر رکھا ہے ۔ جو سر اور چہرۂ انور کے درمیان حد فاصل کا کام دیتی ہیں…… مگر چوں کہ وہ نہایت سادہ طبیعت کے مالک اور درویش منش شخصیت ہیں…… جو دکھاوا اور ریا کاری تو بالکل بھی پسند نہیں کرتے۔ لہٰذا اس کو بھی انھوں نے اپنی عینک کے پیچھے چھپایا ہوتا ہے۔
بعینہٖ وہ دل کے صاف شفاف، ملن سار اور بالکل سادہ طبیعت کے مالک ہیں۔ بناوٹ تو انھیں چھو کر بھی نہیں گزری۔ وہ اپنے ’’جسمِ اطہر‘‘ میں 24 قیراط کے سونے جیسا ملاوٹ سے پاک خالص دل رکھتے ہیں۔ جس میں کسی کے خلاف نہ کوئی کدورت، نہ حسد اور نہ کوئی منفی سوچ ہے۔ ہمہ وقت دوستوں کی مدد کے لیے تیار رہنا اور ان کے کام آنا ان کی سرشت میں شامل ہے۔
فطرت نے انھیں اپنی پیدایشی کے وقت سے ہی کھوجی پیدا کیا ہے ۔ رہی سہی کسر ڈاکٹر مزمل صاحب کی قربت نے پوری کر دی۔ چوں کہ وہ اندرون ملتان کے رہنے والے پکے، اتیت اور خالص ملتانی ہیں۔ اس لیے انھیں اندرون ملتان کے اندر عام لوگوں کی نگاہ سے دور، بہت سے پنہاں خزانوں کا علم ہے…… جن میں پرانی عمارات، مندر، جین مندر، مساجد، شوالے اور حرم جیسی قدیم تاریخی ورثے ہیں۔ اگر کوئی ورثہ اب بھی پنہاں ہے، تو وہ انھی گلیوں کوچوں کے اندر آوارگی کرکے انھیں ڈھونڈ نکالنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔
ملتان کی فوٹو واک کے لیے قدیم عمارات کی سلیکشن اور روٹ میں ڈاکٹر مزمل صاحب کے ساتھ ان کا بھی ایک بنیادی کردار ہوتا ہے۔ گذشتہ دنوں ’’وسیب ایکسپلورر‘‘ کی چھٹی سال گرہ کے فنکشن سے واپسی پر ان کے گھر پر ان سے تھوڑی گپ شپ بھی ہوئی تھی۔ ایک دو دفعہ وہ ہمارے پاس بورے والا میں بھی تشریف لا چکے ہیں۔
وجود کے چھوٹے مگر دل کے بڑے ہیں۔ وہ ہماری یعنی بورے والا ٹریکرز کی اور وسیب کی جان ہیں۔ اللہ کریم انھیں یوں ہی ہنستا، مسکراتا اور دوستوں کے کام آنے والا رکھے ۔
شکریہ ’’میاں عتیق‘‘ کہ آپ نے ایسے ہیرے سے ہماری ملاقات کروائی۔
…………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔