تحریر: فریحہ مصطفیٰ
ڈاکٹر شاہین مفتی عہدِ حاضر کی نام ور شاعرہ اور ادیبہ ہیں۔ انھوں نے اس سے قبل نظم و نثر میں بے شمار ادبی موضوعات پر منفرد انداز میں لکھا۔ شاعری یعنی نظم اور غزل میں اپنا نقش قایم کیا۔ اس کے علاوہ عہدِ حاضر کے نام ور ادیبوں کے بارے میں ان کی تحقیقی آرا تحریری صورت میں موجود ہیں۔ فیض اور ڈاکٹر انیس ناگی کے بارے میں ان کی کتب نے ادب کے قارئین کو چونکایا، شاہین مفتی ادب میں زنانہ مردانہ کمپارٹمنٹ قایم کرنے کی سختی سے مخالف ہیں۔ ان کی تحریروں میں خالصتاً علمی انداز ِ فکر ہے جو ان کے سارے ادبی کام کی اساس ہے۔
ناول ’’مس شفتہ‘‘ (تبصرہ)
https://lafzuna.com/prose/s-29788/
شاہین مفتی کل وقتی ادیبہ ہیں اور ہمہ وقت خود کو تخلیقی و تحقیقی کاموں میں مصرف رکھتی ہیں۔
زیرِ تبصرہ ناول کو پڑھتے ہوئے بالکل ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہم من حیث القوم بالکل انھی حالات سے گزر رہے ہیں جو ناول میں بیان کردہ ہیں ۔
ناول کے مرکزی کردار ’’مسٹر نانگا‘‘ کا خود کو عوام کا نمایندہ قرار دینا اور خود دیسی کافی تک ہضم نہ کر پانا۔ اپنی کم تعلیم کے کمپلیکس کو اوکسفرڈ اور ہاورڈ سے پڑھے ہوؤں کا مضحکہ اُڑا کر انھیں ہائبرڈ گردان کر چھپاتا ہے۔ ناول میں بیان کردہ سیاسی حالات کا اندازہ اس فقرے سے لگائیں: ’’اس نے کہا ہم سب جانتے ہیں۔ جو ایک کتے نے کہا، مَیں تمہارے لیے کچھ کروں گا، تو اگلی بار تم میرے لیے، تو اس کا مطلب ہے یہ کھیل ہے، جنگ نہیں…… بلکہ نورا کشتی۔‘‘
وہی "Stereotype Culture” جو ہمارے ہاں پایا جاتا ہے۔ ویسے ہی سیاست دان اور ویسے ہی عوام جو یہ نہیں سمجھتے کہ ان کا سارا اثرورسوخ اپنی مالی حالت کو مستحکم بنانے کے لیے ہے، نہ کہ ملک وقوم کی خدمت کے لیے۔
ناول ’’طاقت کے اڑتالیس اُصول‘‘ (تبصرہ) 
https://lafzuna.com/prose/s-29551/
جب ایک پارٹی کامیابی سے ہم کنارہونے کو ہے، تو راتوں رات کافی مارکیٹ انحطاط کا شکارہوجاتی ہے، جس پر ملک کی اکانومی کا انحصار ہے۔ جو ماہرِ معاشیات بہتری کی تجاویز پیش کرتا ہے، اس کو صبح تک غدار گردانا جانے لگتا ہے۔ اور حل کے طور پر مزیدکرنسی نوٹ چھاپنے کا حکم دیا جاتا ہے۔ سیاست دان معاشرے میں بنے "Taboos” کو ختم کرنے کی بجائے ان سے مزید فایدہ اُٹھاتے نظر آتے ہیں۔ اپنی کم تعلیم پر فخر کرنے کے ساتھ ساتھ اعلا تعلیم یافتہ لوگوں کو گندی مچھلیاں گردان کر نکال باہر پھینکنے کا نعرہ لگاتے ہیں۔ بالکل ہمارے معاشرے کی طرح پارٹی کی خاطر جان دینے والے عوام چاہے پارٹی کے کرتوت کچھ بھی ہوں…… جس پارٹی سے منسلک ہیں، جینا مرنا اسی کے ساتھ سمجھتے ہیں۔ الغرض، بکے ہوئے صحافی، سیاست میں عورتوں کا کردار نہ ہونے کے برابر، سیاست دانوں کی پارلر واؤز ہوبہو وطنِ عزیزکی سیاست کی عکاسی کرتی دکھائی دیتے ہیں۔
ناول کا ایک اور کردار ’’ایڈنا‘‘ ظاہر کرتا ہے کہ کیسے لوگوں کی مجبوریوں کو خریدا جاتا ہے…… اور ایسے لوگوں کی کھیپ تیار کی جاتی ہے جو پارٹی کے لیے جان بھی دے دیں۔ اس ناول کو پڑھ کر ایک لمحے کو بھی احساس نہیں ہوا کہ اس میں بیان کردہ حالات ہمارے ملک کے موجودہ حالات سے مختلف ہیں۔
’’کلیلہ و دِمنہ‘‘ (مختصر سا تعارف)
https://lafzuna.com/prose/s-29399/

یہاں ہمیں شاہین مفتی کے انتخاب کی بھی داد دینا پڑتی ہے۔ کیوں کہ ناول کی فضا اور اس کے کردار ایک ایسا آئینہ ہیں جس میں ہم بحیثیتِ عوام اپنا اور ساتھ ہی اپنے حکم ران طبقے اور اشرافیہ کا چہرہ بخوبی دیکھ سکتے ہیں۔
اکثر تراجم کو پڑھتے ہوئے خصوصاً ایسی جگہوں پہ تشنگی محسوس ہوتی ہے جب تحریر کے اندر موجود مِزاح اور شگفتگی ایک زبان سے دوسری زبان میں منتقل ہوتے ہوئے اپنی دل کشی کھو دیتی ہے۔ شاہین مفتی صاحبہ کی خاص خوبی یہ ہے کہ انھوں نے ناول کے ایسے حصوں کو بڑی عمدگی کے ساتھ اپنی زبان میں منتقل کیا ہے۔
مثال کے طور ایک جگہ پہ سائیکل کی آواز کو ’’گوری دیاں جھانجراں‘‘سے تشبیہ دے کر ناول میں موجود مِزاح کا مزا دوبالا کر دیا ہے۔
اشفاق احمد، ایک عہد ساز ادیب
https://lafzuna.com/prose/s-29290/
ناول کا اُسلوب رواں اور شستہ ہے۔ ترجمہ پڑھتے ہوئے بارہا ناول پر طبع زاد ہونے کا گماں گزرتا ہے۔ یہاں میں سٹی بک پوائنٹ پبلشر جناب محمد اسد صاحب کی اس کاوش کو خراجِ تحسین پیش کرنا لازم خیال کرتی ہوں کہ اس ناول کا دوسرا ایڈیشن چھاپ کر بے شک انھوں نے ادبی ذوق رکھنے والے قارئین کی تسکین کا سامان کیا ہے۔
…………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔