تبصرہ: احمد نعیم
چند روز قبل معروف فکشن نگار خالد جاوید دہلی نے اپنے فیس بک اکاؤنٹ پر کناڈا کی خاتون ناول نگار ایما ڈونوگ ہیوے (Emma Donoghue) کے ایک ناول”ROOM” کا ایک مختصر اقتباس شیئر کیا تھا، اسے پڑھ کر ناول کی ساری کہانی ذہن کے پردے پر کسی فلم کی طرح دوڑ گئی کہ ناول چند روز پہلے ہی پڑھ کر ختم کیا تھا۔
یہ ناول 2010ئ میں ’’بکر ایوارڈ‘‘ کے لیے منتخب ناولوں کی شارٹ لسٹ میں شامل تھا۔ اسے کئی ایوارڈ ملے ہیں۔ اس ناول پر 2015ء میں ایک فلم بھی بنی ہے جس کی اداکارہ ’’بِری لارسن‘‘ کو اکیڈمی کا بہترین اداکاری کا ایوارڈ حاصل ہوا تھا۔
ناول نگار اب تک 13 ناول لکھ چکی ہیں اور کہانیوں کے پانچ مجموعے شایع کرا چکی ہیں۔
ناول ایک پانچ سال کے بچے جیک کی روداد ہے…… اور قاری ناول کے مناظر اسی پانچ سالہ بچے کی آنکھ سے دیکھتا ہے۔ یوں کَہ لیں کہ قارئین ناول کی فضا، منظر اور مکالمے پانچ سالہ بچے کی آنکھ سے دیکھتے اور سنتے ہیں۔ ایک گیارہ بائی گیارہ فٹ کا کمرہ اس بچے کی کل دنیا ہے۔ اس کمرے میں وہ اپنی ماں کے ساتھ، جسے وہ "Ma” کہتا ہے، اپنی پیدایش سے لے کر پانچ سال ہونے تک رہ رہا ہے۔ کمرے میں ایک ٹی وی ہے۔ اس کے لیے ٹی وی کی دنیا اصلی دنیا نہیں…… لیکن وہ ٹی وی کے کارٹونوں کے کردار کو اپنا دوست سمجھتا ہے۔ کمرے کی چیزیں دیوار، قالین وغیرہ اس کی نظر میں حقیقی ہیں۔ یہ بچہ اور اس کی ماں کیوں اس کمرے میں بند ہیں؟ اور رات گئے اکثر کمرے میں آنے والا شخص جسے وہ اولڈ نِک کہتے ہیں، کون ہے؟ یہ سوال قاری کے ذہنوں میں اٹھتے ہیں…… لیکن ان کا جواب ناول میں آگے جا کر ملتا ہے۔
یہ چھبیس سالہ ماں کوئی سات سال قبل اِغوا کر لی گئی ہے اور اِغوا کرنے والا یعنی ’’اولڈ نِک‘‘ اس کا مسلسل جنسی استحصال کرتا ہے جس کے نتیجے میں ایک بچی پیدا ہوتی ہے…… لیکن فوراً ہی مرجاتی ہے۔ اِغوا کرنے والا اسے کہیں جاکر دفنا دیتا ہے۔ پھر جیک پیدا ہوتا ہے۔ یہ کہانی جیک کو ایک عام بچے کی طرح پالنے اور پوسنے کی کہانی ہے۔ ایک ستم زدہ ماں اپنے بچے کو یہ احساس نہیں ہونے دیتی کہ وہ قید ہے۔ وہ اُسے تعلیم دیتی ہے…… اور دنیا جہاں کی باتیں بتاتی ہے۔ اس پر ’’اولڈ نِک‘‘ کا سایہ تک پڑنے نہیں دیتی۔ ایک دن وہ جیک کو بتاتی ہے کہ حقیقی دنیا بہت بڑی ہے اور وہ اس کمرے سے باہر کی دنیا ہے۔ منصوبہ بنا کر وہ جیک کو اس کمرے سے فرار کروا دیتی ہے۔ پھر پولیس اسے بھی تلاش کرکے سات سال بعد اس دنیا میں واپس لے آتی ہے، جہاں سے اُسے اِغوا کیا گیا تھا۔
ہم ایک پانچ سالہ بچے کی آنکھ سے دنیا کو دیکھنے اور سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جیک کو "ROOM” اور باہر کی دنیا کا موازنہ کرتے دیکھتے اور سنتے ہیں۔ خود میں ایک تبدیلی سی محسوس کرتے ہیں۔ یہ ناول بچوں کی اور ایک ماں کی نفسیات کو انوکھے انداز میں پیش کرتا ہے۔ یہ بتاتا ہے کہ ممتا کا جذبہ کس قدر قیمتی ہوتا ہے۔
برسبیلِ تذکرہ، اُردو زبان میں ایک سال قبل محسن خان کا ناول ’’اللہ میاں کا کارخانہ‘‘ آیا تھا۔ وہ بھی ایک ننھے بچے کی آنکھ سے دنیا کو دیکھنے اور سمجھنے کی ایک شان دار کہانی تھی۔
انگریزی کا یہ ناول ایک حقیقی واقعہ پر مبنی ہے۔ آسٹریا میں ایک باپ نے اپنی سگی بیٹی کو 27 سال کی طویل مدت تک ایک تہہ خانہ میں قید رکھ کر اس کا جسمانی اور جنسی استحصال کیا تھا۔ وہ بیٹی سات بچوں کی ماں بنی تھی۔ ایک بچہ پیدایش کے چند روز بعد ہی مر گیا تھا، جسے ظالم باپ نے گھر کے صحن میں گاڑ دیا تھا۔ تین بچے ماں کے ساتھ تہہ خانہ میں ہی پلے بڑھے اور تین کو زانی باپ نے اپنی بیوی کے ساتھ یہ کہہ کر پالا کہ اس نے انہیں گود لیا ہے ۔
یہ چھوٹی سی تحریر ناول پر تبصرہ نہیں، بس ایک مختصر سا تعارف ہے۔ کوشش کروں گا کہ انگریزی کے وہ پاپولر ناول جو مطالعے میں آتے جائیں، ان کا مختصر تعارف پیش کر سکوں۔
…………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔