تحریر: عبدالمعین انصاری
مشرقی ہند میں قبریں گول ہوتی تھیں اور ’’استوپ‘‘ کہلاتی تھیں۔ گوتم بدھ سے پہلے قبروں کی کوئی اہمیت نہیں تھی…… مگر گوتم کے مرنے کے بعد اس کی راکھ کے مدفن کی حیثیت سے استوپ کو اہمیت اور مذہبی علامت دی جانے لگی اور اس کو اتنی زیادہ دینی حیثیت حاصل ہوگئی کہ گوتم اور دوسرے بدھ متی بزرگوں کے آثار کے لیے استوپ بنانا بڑے ثواب کا کام سمجھا جانے لگا ۔
عموماً ہر استوپ کے ساتھ بھکشوؤں کے رہنے کے لیے دھار (خانقا) اور ان کے اجتماع کے لیے ایک چیتا (عبادت گاہ) بنوائی جاتی تھی۔
شروع میں استوپ نیم دایرے کی شکل کا ٹھوس گنبد ہوتا تھا، جو قبر کی طرح بغیر کرسی کے بنایا جاتا تھا اور اس کے بیچ میں تابوت کی جگہ وہ آثار رکھے جاتے تھے…… جن کی پرستش مقصود ہوتی تھی۔
استوپ کی چوٹی پر ایک چوکور جنگلہ ہوتا تھا اور اس کے اوپر ایک چتر۔ چوں کہ بدھوں میں جس چیز کا احترام کیا جاتا تھاا ور اس کے گرد طواف کیا جاتا تھا، اس لیے استوپ کے گرد ایک گول چبوترا بنادیا جاتا تھا۔ بعد میں استوپ کے مزید احترام کے خیال سے ایک جنگلے کے ذریعے اس کی احاطہ بندی کی جانے لگی۔ اس جنگلے کے چاروں طرف سمتوں کے لحاظ سے دروازے ہوتے تھے۔ دھار کا نقشہ وہی ہوتا تھا جو استوپوں کا ہوتا تھا…… یعنی بیچ میں صحن اور اس کے چاروں طرف کمرے اور کوٹھریاں جو صحن میں کھلتی تھیں۔ صرف یہ ترمیم کردی گئی کہ تین طرف کمرے اور ایک طرف ٹہلنے کے لیے لان رکھا گیا تھا۔
اسٹوپا کو بدھ کی قبر بھی کہا جاتا ہے۔ بدھ کی خاک آٹھ اسٹوپوں میں محفوظ کی گئی تھی۔ اشوک نے ان آثار کو نکال کر سلطنت کے تمام بڑے شہروں اور صوبوں میں بھجوا دیا اور حکم دیا کہ وہاں شان دار اسٹوپے تعمیر کرا کر انہیں دفن کیا جائے ۔ یوں یہ خاک 84 ہزار اسٹوپوں میں محفوظ ہوئی۔ چناں چہ اسٹوپوں کو بدھ کی قبر بھی کہا جاتا ہے۔
اس کے علاوہ بدھ کے پیروکاروں اور بزرگ کو بھی دفن کیا جاتا تھا اور بدھ کے تبرکات پر بھی اسٹوپے تعمیر کیے گئے۔ چناں چہ فاہیان ایک اسٹوپے کا ذکر کرتا ہے جو کہ بدھ کے کشکول پر بنایا گیا تھا۔ اس طرح شکرانے کے طور پر امیر آدمی بھی اسٹوپے تعمیر کراتے تھے۔ زایرین اسٹوپے کے گرد طواف کرتے تھے اور اس کے ساتھ اسٹوپے کی گولائی پر نظر رکھتے تھے اور اس پر آویزاں مجسموں کو دیکھتے جاتے تھے، جن میں مہاتما بدھ کی زندگی کے مختلف ادوار بیان کیے جاتے تھے۔
یہ اسٹوپے مہاتما بدھ کی زندگی کے بارے میں پتھریلی کتاب تھے۔
اسٹوپے کے گنبد پر ہمیشہ سات چھتریاں ہوتی تھیں…… جو سات آسمانوں کو ظاہر کرتی تھیں۔
اشوک کے دور میں بدھ مت نے عروج پایا۔ اس نے بدھ مت قبول کرلیا تھا اور اس نے اپنی سلطنت کے آٹھ مقامات پر بڑے اسٹوپے تعمیر کرائے تھے…… اور ہر اسٹوپے میں گوتم بدھ کے تھوڑے تھوڑے تبرکات محفوظ کیے تھے۔ ٹیکسلا کا دھرم راجیکا ان میں سب سے بڑا تھا۔ شاہی اسٹوپوں کی دیکھ بھال کے لیے بھشکو مقرر تھے۔ ان کے رہنے کے لیے دہار بنا دیے گئے اور آس پاس کی زمین اس کے لیے وقف کردی گئی ۔
پہلے ان اسٹوپوں پر گوتم بدھ کی مورتیاں کندہ ہوتی تھیں۔ یونانیوں نے جب بدھ مت قبول کیا، تو انھوں نے مے کے پیالوں کی جگہ کنول کے پھول تراشے اور ان میں یونانی دیوتاؤں کی جگہ گوتم کی مورتیاں بنائیں اور رفتہ رفتہ ان اسٹوپوں پر گوتم کی زندگی واقعات کو بیان کیا جانے لگا۔ عموماً گوتم بدھ کی زندگی کے واقعات خاص کر کپل وستو کی زندگی کے واقعات کی منظرکشی کی جاتی تھی۔ مثلاً ایک جگہ گوتم بدھ کی کپل وستو سے اپنے خادم کے ہم راہ روانگی کا منظر۔ دوسری جگہ گوتم بدھ کا گھوڑا ’’اکن نہکا‘‘ آقا سے رخصت ہوتے وقت جھک کر ان کے قدم چوم رہا ہے اور بدھ کے تین چیلے دائیں بائیں کھڑے ہیں۔
کُشنوں کے دور میں سنگ تراشی کی جگہ مٹی اور چونے کی ابھرواں موتیاں اور نقش و نگار بنائے جانے لگے۔ چناں چہ گندھارا آرٹ کا سب سے حسین شاہکار گوتم بدھ کی وہ مورتی ہے جو کالواں اسٹوپا سے دریافت ہوئی تھی، اس منظر میں گوتم اپنے منڈوا میں پالتی مارے بیٹھا ہے، دو چیلے اس کے دائیں بائیں کھڑے ہیں۔ یہ کچی مٹی کے ہیں…… لیکن سر پکی مٹی کا ہے اور دھڑ کچی مٹی کا بنا ہوا ہے۔ جب ہنوں نے اس اسٹوپا کو آگ لگائی تو سر پک گیا تھا۔
اشوک نے بے شمار اسٹوپے بنوائے۔ اس کے اسٹوپوں کا ذکر مشہور چینی سیاحوں فاہیان اور ہیونگ سانگ نے کیا ہے۔ اشوک کے بعد یونانیوں نے بدھ مت قبول کرلیا۔ انہوں نے وادیِ گندھارا میں ڈھیر سارے اسٹوپے بنوائے۔
مشہور کشن فرماں روا کنشک نے بھی بدھ مت قبول کرلیا تھا۔ اس کے دارالحکومت پشاور اور متھرا تھے۔ پشاور کا مشہور اسٹوپا کنشک نے بنایا تھا۔ اس کے علاوہ بہت سے اسٹوپے پشاور، کشمیر اور برصغیر کے مختلف مقامات پر بنوائے تھے۔ اس کے بعد اس سرزمیں پر بدھ مت کو زوال آیا۔ پہلے ہنوں نے ان کے وہا اور اسٹوپوں کو تباہ اور بھکشوؤں کو قتل کیا۔ راجہ ہریش، وردھن خاندان کا راجہ اور آخری مشہور فرمان روا نے بدھ مت اختیار کرلیا تھا۔ اس سے کچھ جان پیدا ہوئی…… مگر اس کے بعد اس سرزمین پر سے بدھ مت فنا ہوگیا۔ رہی سہی کسر مسلمانوں نے پوری کردی۔
مشہور اسٹوپوں میں کالواں اسٹوپا مانکوالیا اسٹوپا، دھرم راجیکا وادی گندھارا، سانچی ، گیا اور مالندا کے اسٹوپے زیادہ مشہور ہیں۔
…………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔