تحریر و ترتیب: میثم عباس علیزئی
(’’فلسفہ کی تاریخ‘‘ دراصل ڈاکٹر کامریڈ تیمور رحمان کے مختلف لیکچروں کا ترجمہ ہے۔ یہ اس سلسلے کا بائیس واں لیکچر ہے، مدیر)
٭ سقراط (Socrates):۔ سقراط دراصل سوفسطائیوں کے نقطۂ نظر کا سخت مخالف تھا۔ وہ یہ سمجھتا تھا کہ جو سچی چیز ہے، وہ سچی ہے…… اور جو جھوٹی چیز ہے، وہ جھوٹی ہے۔
سقراط کے مطابق سچ کو جھوٹ ثابت کرنا اور جھوٹ کو سچ ثابت کرنا صرف الفاظ کا ہیر پیر ہے۔
اگرچہ سقراط کی تنقید بڑی اہم ہے، مگر سوفسطائیوں کو کچھ کریڈٹ (Credit) بھی دینا چاہیے۔ کریڈٹ اس حوالے سے دینا چاہیے کہ ’’سوفیسٹس‘‘ بہرحال روایتی یونانی سوچ نہیں رکھتے تھے۔ اُن کا شاید سب سے جو اہم کردار تھا، وہ یہ تھا کہ سقراط سے پہلے جتنی بھی نیچرل فلاسفی تھی، سوفیسٹس نے اس کو عام بنایا۔ اُنھوں نے اس کو اشرافیہ طبقے میں پھیلایا اور جو تھیلیس، انگزمینڈر، انیگزمینیز، پائتاگرس اور پرمینڈیز وغیرہ کی سوچ تھی، وہ سوچ سوفسٹس بحث و مباحثے میں لے کر آئے۔ اس کے علاوہ سبجیکٹوزم اور ریلیٹوزم کی اپروچ سقراط کی تنقید سے بالکل ختم نہیں ہوئی، بلکہ آج تک اس پر بحث و مباحثہ کیا جاتا ہے۔
لیکن سوفسطائیوں کی اپروچ سے ایک بڑا اخلاقی المیہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ درست اور غلط کے درمیان کوئی بھی واضح تفریق بچتی ہی نہیں۔ اور جب کوئی تفریق بچتی ہی نہیں، تو انسان جو ہے وہ بنیادی فیصلے کرنے کہ صلاحیت کھو بیٹھتا ہے۔ سقراط وہ فرد تھا کہ جس نے ’’سوفسطائیوں‘‘ (Sophists) کے اس نقطۂ نظر کو چیلنج کیا۔
سقراط کی پیدایش دراصل 469 قبلِ مسیح میں ہوتی ہے ۔ اُس کو فلسفے کا بانی اور فلسفے کا بنیادی استاد بھی مانا جاتا ہے۔ اُس سے پہلے فلاسفرز کو ہم ’’قبل از سقراط‘‘ کے فلاسفرز یعنی "Pre Socratic Philosopher” کہتے ہیں۔ سقراط کے بعد سے جو پورا دور شروع ہوجاتا ہے، اُس کو ہم سقراطی فلسفے (Socratic Philosophy) کا دور کہتے ہیں۔ مطلب یہ کہ سقراط کا اتنا بڑا اثر تھا کہ سقراط سے پہلے جو فلسفی آئے، یا جو سقراط کے زمانے میں بھی تھے، اُن تمام کو ہم قبل از سقراطی فلسفہ میں شامل کردیتے ہیں اور جو سقراط کے بعد آئے، اُن کو ہم سقراط کے بعد والا فلسفہ کہتے ہیں۔ یعنی سقراط کا لوگوں کے اذہان پر اتنا بنیادی گہرا اثر تھا کہ اُس کے فلسفے اور اُس کے نقطۂ نظر کے ساتھ فلسفے اور انسانی سوچ کا دور شروع ہوجاتا ہے اور حیرانی کی بات ہے کہ سقراط نے اپنی زندگی میں ایک بھی کتاب نہیں لکھی۔
اب وہ کون لوگ تھے کہ جنھوں نے سقراط کو متاثر کیا ؟ تو سب سے پہلے تو ’’اناگزَگورس‘‘ (Anaxagoras) کا نام شامل کیا جانا چاہیے۔ کیوں کہ اناگزَگورس وہ فرد ہے، جس نے ’’قدرتی فلسفہ‘‘ (Natural Philosophy) کو ایتھنز میں متعارف کروایا۔ اگر اناگزَگورس نہ ہوتے، تو ایتھنز کے لوگ اِن بنیادی خیالات سے متعارف نہ ہوتے ۔
اس کے ساتھ ہی سقراط تین خواتین سے انتہائی متاثر تھا۔ سب سے اول نمبر پر وہ اپنی ماں سے متاثر تھا۔ اُس کی ماں دراصل بچوں کی پیدایش میں خواتین کی مدد کرتی تھی۔ دوسری خاتون جن سے سقراط متاثر تھام وہ ’’ڈایوٹما آف مینٹنیا‘‘ (Diotima of Mantinea) تھی، جس سے سقراط نے پیار و محبت کے حوالے سیکھا ہے۔ تیسری خاتون ’’اسپاسیا‘‘ (Aspasia) ہے، جس سے سقراط نے گفت گو اور تقریر کرنے کا انداز سیکھ لیا۔
چوں کہ سقراط نے اپنی زندگی میں کوئی بھی کتاب نہیں لکھی، لہٰذا جو کچھ ہم سقراط کے بارے میں جانتے ہیں، وہ اس کے طالب علموں اور شاگردوں سے جانتے ہیں۔
سقراط کے سب سے اہم شاگرد کا نام ’’افلاطون‘‘ (Plato) ہے۔ اس کے علاوہ ’’زینوفون‘‘ (Xenophon) جس نے سقراط کے بارے میں لکھا۔ افلاطون اور زینوفون نے سقراط کے بارے میں جو کچھ لکھا، اُسی کے نتیجے میں آج ہم سقراط کے بارے میں جانتے ہیں۔
دونوں (افلاطون اور زینوفون) اس بات پر متفق ہیں کہ سقراط ایک انتہائی بدصورت انسان تھا۔
سقراط جب نوجوان تھا، تو وہ دراصل ایک سنگ تراش (Stone Cutter) تھا۔ اُس نے کبھی پیسے لے کر نہیں پڑھایا۔ وہ دراصل سوفسطائیوں کی اس عادت سے بڑی نفرت کرتا تھا کہ پیسے لے کر پڑھایا جائے۔
سقراط بہت سادہ زندگی گزارتا تھا، یعنی عام آدمی کی طرح زندگی گزارتا تھا۔ اپنی نوجوانی میں وہ انتہائی بہادر فرد بھی سمجھا جاتا تھا۔ اُس نے بڑی جنگوں میں حصہ لیا۔
فلسفے کے اعتبار سے سقراط کا سب سے اہم اثر یہ ہوا کہ اُس نے فلسفے کو آسمان سے کھینچ کر نیچے زمین پر لے آیا اور اُس نے لوگوں کی زندگی میں فلسفہ شامل کیا…… یعنی کہ جو بنیادی سوالات سقراط پوچھ رہے تھے، وہ یہ نہیں تھے کہ ستارے اور سیارے کیا ہیں، یہ کس طرح چلتے ہیں…… یا ریاضی میں کیا ہوتا ہے، ایٹم کیا ہوتا ہے، کیا نہیں ہوتا…… بلکہ ان سوالات کی بجائے یہ سوال اُٹھایا کہ اچھائی کیا ہے، برائی کیا ہے، زندگی کا مقصد کیا ہے؟ یعنی کہ سقراط نے اخلاقیات (Ethics) کے سوال پوچھے۔ اور ظاہر ہے اخلاقیات کے جو سوال تھے، وہ ذاتی سوال بھی تھے، وہ انفرادی، سیاسی و اجتماعی سوال بھی تھے ۔
یعنی اس بارے میں سوال کہ سماج کو کس طرح سے چلنا اور منظم رہنا چاہیے، انسان کو کس خاص چیز کے لیے جد و جہد کرنی چاہیے، غرض زندگی کا کیا مقصد ہے؟
سقراط یہ کہتا تھا کہ”Athens is a sluggish horse. I am the gadfly trying to sting it back to life.” یعنی ایتھنز ایک گھوڑے کی مانند ہے کہ جس کو نیند آئی ہوئی ہے…… اور میرا کام یہ ہے کہ مَیں اُس مکھی کا کردار ادا کروں کہ جس کے نتیجے میں گھوڑا بیدار اور جاگ جاتا ہے۔
یعنی میرا کام ہی یہ ہے کہ مَیں نے سماج زندہ رکھنا ہے، اس کو بیدار رکھنا ہے، ایسے سوال پوچھنا کہ جن کا سماج جواب نہ دینا چاہے۔
جب سقراط نے اس قسم کے مشکل مشکل سوالات پوچھنے شروع کیے، تو ایتھنز کا جو سماج تھا، وہ سقراط سے بہت ناخوش تھا، بلکہ اس قدر ناخوش کہ سقراط کو سزائے موت سنائی گئی اور اُس نے زہر کا پیالا پی لیا اور اس طرح سے 399 قبلِ میں سقراط انتقال کرجاتا ہے۔
اولین اکیس لیکچر بالترتیب نیچے دیے گئے لنکس پر ملاحظہ کیے جاسکتے ہیں:
1) https://lafzuna.com/history/s-33204/
2) https://lafzuna.com/history/s-33215/
3) https://lafzuna.com/history/s-33231/
4) https://lafzuna.com/history/s-33254/
5) https://lafzuna.com/history/s-33273/
6) https://lafzuna.com/history/s-33289/
7) https://lafzuna.com/history/s-33302/
8) https://lafzuna.com/history/s-33342/
9) https://lafzuna.com/history/s-33356/
10) https://lafzuna.com/history/s-33370/
11) https://lafzuna.com/history/s-33390/
12) https://lafzuna.com/history/s-33423/
13) https://lafzuna.com/history/s-33460/
14) https://lafzuna.com/history/s-33497/
15) https://lafzuna.com/history/s-33524/
16) https://lafzuna.com/history/s-33549/
17) https://lafzuna.com/history/s-33591/
18) https://lafzuna.com/history/s-33611/
19) https://lafzuna.com/history/s-33656/
20) https://lafzuna.com/history/s-33705/
21) https://lafzuna.com/history/s-33760/
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔