ریاست سوات، عیدین اور میلے

عیدین پر ایک بہت بڑا میلا ’’سیند‘‘ کے مقام پر دریائے سوات کے کنارے لگتا تھا۔ جہاں پر آج کل سوات پولیس لائن ہے؛ چناروں کا ایک بہت بڑا جھنڈ تھا۔ یہیں پر پہلے پہل ایک ہی ریسٹ ہاؤس ہوا کرتا تھا، جس کی عمارت خوب صورت تھی۔ لکڑی کے خوب صورت کام سے مزین […]
نگار سوڈا واٹر والے ’’نگار حاجی صاحب‘‘

مجھے بہ ذاتِ خود تاج چوک میں فقیر محمد ماما کی ٹھنڈی بوتلوں والی دکان آج بھی یاد ہے، جسے ہم اپنے بچپن (1985ء تا 1990ء ) میں ’’ڈکار والی بوتل‘‘ (دَ ڈرقو بوتل) کَہ کر جگر کی گرمی اُتارنے کا سامان کرتے تھے۔مجھے وہ دن بھی یاد ہے، جب میری عمر بہ مشکل چھے، […]
قمبر جھیل (سوات)

اس تحریر میں شامل تصویر میں آپ کو رحیم آباد اور قمبر کے سنگم پر بنی ہوئی خوب صورت جھیل، بارہ دری اور ایک بڑی کشتی نظر آرہی ہوگی۔مذکورہ جھیل کیسے وجود میں آئی؟ آج اس حوالے سے مَیں آپ کو مختصر لفظوں میں بیان کروں گا۔ اس تصویر کے لیے پروفیسر خواجہ عثمان علی […]
صحبت لالا: ایک زبردست منتظم

صحبت لالا سیدو شریف کے رہنے والے تھے۔ مرغزار روڈ پر کام کرنے والے روڈ گینگ کے ’’میٹ‘‘ یا انچارج تھے۔ نہایت مستعد، باتونی اور ہوش یار شخص تھے۔ بولتے تو مشین گن کی رفتار سے۔ مجھے تو اکثر پلے بھی نہ پڑتا کہ کیا فرما رہے ہیں؟ سب سے زیادہ مجھے اُن کی عمر […]
والی سوات کو خراج عقیدت

(نوٹ:۔ یہ تحریر محترم فضل رازق شہابؔ کی انگریزی یادداشتوں میں سے ایک کا ترجمہ ہے، مدیر لفظونہ ڈاٹ کام)ہز ہائنس میجر جنرل، سلطان العلوم، غازیِ ملت میانگل عبد الحق جہانزیب، (H.Q.A) دراصل 5 جون 1908ء کو پیدا ہوئے۔ انھیں 12 دسمبر 1949ء کو سوات کا والی مقرر کیا گیا۔ 28 جولائی 1969ء کو ایک […]
سیدو ہسپتال: ریاست سوات کی امانت نیلام

اے سوات اور ملاکنڈ ڈویژن کے خوابِ غفلت کے مزے لوٹنے والے باشندو! آج ایک تاریخی سچائی ہم سب کے ضمیر پر دستک دے رہی ہے۔ سیدو گروپ آف ہسپتال، جو ریاستِ سوات کی فلاحی سوچ اور عوامی خدمت کی علامت تھا، سرکاری اعلان کے مطابق نجی تحویل میں دے دیا گیا ہے۔جی ہاں، وہی […]
’’انگئی پُل کوٹہ اور دیگر پُل‘‘

سوات کے ریاستی دور کا قدیم ترین ’’آرچ برج‘‘ (Arch Bridge) جسے مقامی زبان میں ’’ڈاٹ‘‘ کہتے ہیں، جو مین شاہ راہ "N.95” پر کوٹہ تحصیل بری کوٹ میں واقع تھا، آخرِکار گرا دیا گیا اور اس کی جگہ جدید ٹیکنالوجی کا حامل "Pre-stressed” آر سی سی پل تکمیل کے آخری مراحل میں ہے۔اسے جلد […]
مزارات اور ان سے منسوب غلط تصورات

(نوٹ:۔ یہ تحریر محترم فضل رازق شہابؔ کی انگریزی یادداشتوں میں سے ایک کا ترجمہ ہے، مدیر لفظونہ ڈاٹ کام)لوگوں میں یہ خیال کیسے پروان چڑھا کہ مسلمان اولیا کے مزارات کو کچھ خاص تقاضوں کے لیے مخصوص کیا جائے؟ لیکن یہ عقیدہ بہت پہلے سے موجود ہے۔ مثلاً: ہر سال بہار کے دنوں میں […]
تاریخی ودودیہ ہال کی کہانی

بلاگ میں شال تصویر اُس تقریب کی ہے، جو 24 دسمبر 1965ء کو پشاور یونیورسٹی کے کانووکیشن ہال میں اس مقصد کے لیے منعقد کی گئی تھی کہ والئی سوات کو اُن کی تعلیمی خدمات اور انسانی فلاح و بہبود کے لیے مختلف اقدامات کے اعتراف میں ’’ڈاکٹر آف لاز‘‘ (Doctor of Laws) کی اعزازی […]
ریاست سوات کے ایک نابغۂ روزگار افسر

(نوٹ:۔ یہ تحریر محترم فضل رازق شہابؔ کی انگریزی یادداشتوں میں سے ایک کا ترجمہ ہے، مدیر لفظونہ ڈاٹ کام)وہ ایک بہادر سپاہی، بہترین شاہ سوار اور دانا آدمی تھے۔ اگرچہ وہ مکمل طور پر ناخواندہ تھے، لیکن ان کی پشتون ولی، پشتون جرگہ اور پشتون رسوم و رواج کے بارے میں معلومات بے نظیر […]
مسجد سیدو بابا (سیدو بابا جمات)

نہ صرف سیدو بابا کی عبادت گاہ، بل کہ ملحقہ کئی انسٹالیشنز ایک ہی شخصیت سے منسوب ہیں۔ ’’مسجد سیدو بابا‘‘، ’’چینہ سیدو بابا‘‘، ’’مزار سیدوبابا‘‘ اور ’’لنگر سیدو بابا۔‘‘کہتے ہیں کہ اس بستی کا نام ’’سادوگان‘‘ تھا، بعد میں ’’سیدو‘‘ بن گیا۔ محلِ وقوع کے لحاظ سے محفوظ، صاف وافر میٹھے پانی کا چشمہ، […]
انڈس کوہستان تک ایک ناقابلِ فراموش سفر

(نوٹ:۔ یہ تحریر محترم فضل رازق شہابؔ کی انگریزی یادداشتوں میں سے ایک کا ترجمہ ہے، مدیر لفظونہ ڈاٹ کام)1960ء کی دہائی کے پہلے نصف میں، ریاستِ سوات کے حکم ران نے فیصلہ کیا کہ دور دراز علاقوں میں ابتدائی طبی امداد کی سہولت فراہم کی جائے۔ اس منصوبے کے تحت دو کمروں پر مشتمل […]
میاں گل فروش کی ناقابل فراموش خدمات

چشمِ تصور میں لائیں ریاستِ سوات کا وہ دور جب پاکستان سے اخباردوسرے روز پہنچتا تھا، جہاں تعلیم اتنی عام نہیں تھی۔ پڑھنے والے کم تھے، اس لیے ایک ہی ہفت روزے کا اجرا ہوتا تھا اور ایک ہی شخص مالک، پبلشر، ایڈیٹر، کانٹینٹ کرئیٹر، رپورٹر اور ڈسٹری بیوٹر ہوتا تھا۔ اندازہ لگائیں اُس ایک […]
ریاست سوات، جب شاہی علم اُتارا گیا

یوسف زئی ریاست سوات کا شاہی علم 28 جولائی 1969ء کو آخری بار شام کے وقت ’’فلیگ سٹاف‘‘ سے اُتارا گیا اور پھر ہمیشہ کے لیے لپیٹ دیا گیا۔پھر نہ کسی نے شاہی علم والئی سوات کی رہایش گاہ پر لہراتے دیکھا، نہ اُن کی آف وائٹ مرسیڈیز کے بونٹ پر۔عجب افراتفری اور غیر یقینی […]
ریاستی پی ڈبلیو ڈی کی تنظیم اور طریقۂ کار

(نوٹ:۔ یہ تحریر محترم فضل رازق شہابؔ کی انگریزی یادداشتوں میں سے ایک کا ترجمہ ہے، مدیر لفظونہ ڈاٹ کام)مَیں نے پہلے بھی اس انتہائی اہم ریاستی ادارے کی ارتقا کی وضاحت کی ہے۔ جب مَیں نے 1961ء میں اس میں شمولیت اختیار کی، تو یہاں کوئی بھی اہل تکنیکی تعلیم یافتہ اہل کار نہیں […]
سیدو بابا پل سے نتھی یادیں

اس بلاگ میں شامل تصویر میں لکڑی کا پل نمایاں نظر آرہا ہے۔ اس پُل کے دوسرے اینڈ پر ایک تو شاہی محمد ولد نظرے حاجی صاحب کی کپڑے کی دُکان تھی۔ کبھی کبھی امیرزادہ استاد صاحب بھی کپڑا ناپتے نظر آتے تھے۔ اس طرح ایک دُکان حافظ بختیار حاجی صاحب کی تھی کریانے کی۔ […]
ریاست سوات: ماضی کی چند جھلکیاں

(نوٹ:۔ یہ تحریر محترم فضل رازق شہابؔ کی انگریزی یادداشتوں میں سے ایک کا ترجمہ ہے، مدیر لفظونہ ڈاٹ کام)ایک بار والی صاحب کو ڈاک کے ذریعے ایک خط موصول ہوا۔ یہ خط اُردو میں لکھا گیا تھا۔ اس خط میں والی صاحب کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا گیا تھا کہ اُنھوں نے ریاستی پبلک […]
شہزادہ میانگل عالم زیب

(نوٹ:۔ یہ تحریر محترم فضل رازق شہابؔ کی انگریزی یادداشتوں میں سے ایک کا ترجمہ ہے، مدیر لفظونہ ڈاٹ کام)شہزادہ میانگل عالم زیب، میانگل جہانزیب (جو 1949ء سے 1969ء تک سوات کے حکم ران تھے) کے دوسرے صاحب زادے تھے۔ بچپن میں، میاں گل عالم زیب مرگی کے شکار ہوگئے، جو اُس وقت لاعلاج بیماری […]
ریاست سوات کے آثار کے ساتھ ناروا سلوک کیوں؟

سوات کے ریاستی دور کے آثار مٹتے مٹاتے تقریباً معدوم ہوگئے ہیں۔ شاید ہی کہیں اِک آدھ باقی ہوں، باقی سب قصۂ پارینہ بن چکے ہیں۔مَیں نے اپنی فیس بک وال پر ’’آنجہانی‘‘ ہونے والی تحصیلِ بری کوٹ کی عمارت کی ایک تصویر دی ہے، جو اَب ’’سورگ باش‘‘ ہوچکی ہے۔ اُس کی جگہ جو […]
مدرار (چورڑئی طوطا)

بہت پرانے حاجی بابا چوک کو چشمِ تصور میں لائیں، تو ایک عجیب سی تصویر بنتی ہے۔ ایک مصروف چوک جہاں سبزی منڈی، بسوں، گوالوں، پہاڑوں سے آئے ہوئے افراد جو میوہ جات کے ڈھیر سجائے بیٹھے ہیں، پرانا ڈاک خانہ روڈ سے کسی ندی کی طرح بہتی ہوئی اترائی جو غورئی کندہ کی جانب […]
ریاست سوات کے کوٹہ قلعہ سے جڑی یادیں

کوٹہ قلعہ کا شمار ریاست کے اولین قلعہ جات میں ہوتا ہے۔ چوں کہ یہ ریاست کا سرحدی قلعہ تھا۔ اس لیے اس کی عمارت بڑی شان و شوکت والی تھی۔ شاید یہ واحد قلعہ تھا،جس کے ارد گرد دوہری فصیل تھی اور فصیل میں بھی واچ ٹاؤر بنائے گئے تھے۔ مین بلڈنگ کے ٹاؤرز […]