مجھے بہ ذاتِ خود تاج چوک میں فقیر محمد ماما کی ٹھنڈی بوتلوں والی دکان آج بھی یاد ہے، جسے ہم اپنے بچپن (1985ء تا 1990ء ) میں ’’ڈکار والی بوتل‘‘ (دَ ڈرقو بوتل) کَہ کر جگر کی گرمی اُتارنے کا سامان کرتے تھے۔
مجھے وہ دن بھی یاد ہے، جب میری عمر بہ مشکل چھے، سات سال ہوتی ہوگی، اپنے نانا جی ہیڈ ماسٹر (ر) غلام احد میر خیل کے گھر ایک ’’ڈکار والی بوتل‘‘ لے آیا۔ میری والدہ محترمہ نے جیسے ہی بوتل کا ڈھکن کھولا، تو اُس میں چٹکی بھر نمک ڈالا، جس کی وجہ سے بوتل آتش فشاں کی طرح اُبلنے لگی۔ والدہ محترمہ نے کہا کہ بوتل منھ سے لگالو، ورنہ مشروب ضائع ہوجائے گا۔ مَیں نے جیسے ہی حکم کی تعمیل کی، تو اُبلتا مشروب حلق چھونے سے قبل ناک کے ذریعے واپس نکل آیا۔ دوسرے ہی لمحے مجھے نہ صرف چھینک آئی، بل کہ ناک کی اچھی خاصی صفائی بھی ہوگئی۔
آج جب وہ دن یاد آتا ہے، تو لبوں پر مسکراہٹ سی بکھر جاتی ہے۔ اُس وقت ڈکار والی بوتل کی قیمت غالباً بارہ آنے تھی، مگر ہمیں خاص مواقع جیسے عید یا پاس ہونے کے بعد ہی بوتل پینا نصیب ہوتا۔
رواں ماہ (جون 2025ء) کے پہلے ہفتے شوکت علی سے ملاقات ہوئی، جسے لوگ شوکت نگار کے نام سے جانتے ہیں۔ شوکت نگار دراصل ہمارے قلم قبیلے کے ایک اہم فرد ’’حمزہ نگار‘‘ کے والد بزرگوار ہیں۔ سوات کے حوالے سے چھپنے والی ہر تحریر کو ذوق و شوق سے پڑھتے ہیں اور خود اپنے سینے میں کئی کہانیاں دفنائے فکرِ معاش میں غرق ہیں۔
شوکت نگار سے سوات کی ایک کاروباری شخصیت نگار حاجی صاحب، جو دراصل شوکت نگار کے والد اور حمزہ نگار کے دادا ہیں، کے حوالے سے بات چیت ہوئی۔ مذکورہ نشست کا لبِ لباب ملاحظہ ہو:
بہ قول شوکت نگار: ’’حاجی اکبر جان ہمارے والد (مرحوم) کانام تھا، لیکن مینگروال (مینگورہ شہر کے باشندے) بالعموم اور اہلِ سوات بالخصوص اُنھیں ’’نگار‘‘ یا ’’نگار حاجی صاحب‘‘ کے نام سے جانتے تھے۔ ہمارے فرم کا نام والد (مرحوم) کی عرفیت پر ’نگار سوڈا واٹر‘ پڑا، جس کی بنیاد ریاستی دور (1935ء تا 1937ء) میں ڈالی گئی۔ یہ اُس وقت کی بات ہے، جب مینگورہ (مین بازار) میں آگ نہیں لگی تھی۔ اُس وقت دکانیں کچی تھیں۔ ’نگار سوڈا واٹر‘ کی دکان کی چھت کڑیوں کے اوپر مٹی ڈال کر بنائی گئی تھی۔ ہماری دکان یحییٰ سیف الرحمان اور غلامِ غوث (زرگر) کی دکان سے ملحق تھی۔ ایک طرح سے ہم ان کی عمارت میں تھے۔‘‘
مینگورہ میں لگنے والی آگ کے بارے میں ڈاکٹر سلطان روم اپنے ایک تحقیقی مقالے ’’مینگورہ اور تجاوزات‘‘ (لفظونہ ڈاٹ کام، شائع شدہ 14 ستمبر 2022ء) میں مذکورہ آگ کے حوالے سے لکھتے ہیں: ’’1940ء کی دہائی میں مینگورہ بازارمیں ایک تباہ کن آگ لگنے کے نتیجے میں موجودہ مین بازار کو وسعت دی گئی۔ دکانوں کو نئی طرز پر تعمیرکیاگیا اور کتیڑا میں کار پارکنگ کی سہولت فراہم کی گئی۔‘‘
شوکت نگار کے بہ قول، ’’مین بازار کے جلنے کے بعد ریاستِ سوات کے اُس وقت کے حکم ران نے نیو روڈ نکالنا چاہی۔ پھر بعد میں گرین اڈا بھی قائم کیا گیا۔ نیو روڈ کی پہلی دکان ہمارے والد (مرحوم) کو ملی۔ اُس دور میں ریاستِ سوات میں ’پیپسی‘ یا ’کوک‘ نامی مشروبات نہیں تھے۔ ہمارے والد (مرحوم) اپنے مشروبات بنایا کرتے تھے، جس کے لیے اُنھوں نے مخصوص مشینوں کا اہتمام کر رکھا تھا۔ یہ اُس وقت کی بات ہے جب ہم ابھی پیدا بھی نہیں ہوئے تھے۔ بوتل کا منھ بند کرنے کے لیے ریاست میں ابھی ’کاک سسٹم‘ بھی متعارف نہیں ہوا تھا۔ اُس وقت بوتل کا منھ بند کرنے کے لیے کانچ کی گولی (کنچے، جنھیں پشتو میں بلوری یا ٹِکان بولتے ہیں) استعمال میں لائی جاتی تھی۔ جب مشروب والی بوتل میں گیس بھر دی جاتی، تو کانچ کی گولی خود بہ خود اوپر آجاتی اور ایک طرح سے بوتل کے ڈھکن کا کام کرجاتی۔ جب ٹھنڈی بوتل پینے کو کسی کا دل چاہتا، تو اُسے کھولنے کا عمل بڑا دل چسپ ہوتا۔ بایاں انگوٹھا بوتل کے منھ پر لگے کانچ کی گولی پر رکھا جاتا اور دائیں ہاتھ کی ہتھیلی سے تھپڑ نما زور دیا جاتا (شاید یہ عمل سجے حضرات کرتے، کھبے یہ عمل دائیں ہاتھ کا انگوٹھا بوتل کے منھ پر رکھ بائیں ہاتھ کی مدد سے انجام دیتے ہوں گے، ’’شاید‘‘)۔ ہلکے پٹاخے جیسی آواز کے ساتھ بوتل کا منھ کھلتا اور پینے والا اسے غٹاغٹ پی لیتا۔‘‘
برسبیلِ تذکرہ، مجھے تاج چوک میں ’’وچیچہ‘‘ نامی وہ موچی بھی یاد ہے، جس کے آگے پیچھے کوئی نہ تھا ۔ وہ ’’تاج ہوٹل‘‘ میں ایک کمرا لے کر رہتا تھا۔ ’’وچیچہ‘‘ کا اصل نام کیا تھا، اس کے بارے میں میرے حلقۂ احباب میں کوئی نہیں جانتا۔ ’’وچیچہ‘‘ کی وجۂ تسمیہ بہت عجیب ہے۔ دراصل وہ جب کسی کا لایا ہوا جوتا گانٹھتا، تو اُس کے ساتھ مخصوص انداز سے اپنا نچلا ہونٹ اوپری دانتوں کی مدد سے کاٹتا جاتا۔ پتا نہیں پہلی بار کس شطونگڑے کی نظر ’’وچیچہ‘‘ کے مذکورہ عمل پر پڑی اور اُسے ’’وچیچہ‘‘ کی آواز دے کر چِھڑانے کی کوشش کی؟
میرے ناقص علم کے مطابق ’’وچیچہ‘‘ کے لیے اُردو میں موزوں ترین اصطلاح ’’دانتوں کی مدد سے کاٹنا‘‘ ہے۔
’’وچیچہ‘‘ پورے تاج چوک میں اُن گنے چُنے بندوں میں سے ایک تھا، جو شرطیہ ایک ہی گھونٹ میں پوری کی پوری ڈکار والی بوتل غٹاغٹ پی جاتا تھا، وہ بھی نمک ’’ایڈ‘‘ کرکے۔
شوکت نگار کہتے ہیں کہ ریاستی دور میں میانگل عبدالودود (باچا صاحب) کے لیے ٹھنڈی بوتلیں ’’نگار سوڈا واٹر‘‘ کی دکان ہی سے جاتی تھیں۔ ’’باچا صاحب کے لیے بوتلیں لے جانے کی غرض سے لکڑی سے بنایا گیا ایک خاص قسم کا باکس (جسے ہم پشتو میں کَریٹ بولتے ہیں) استعمال میں لایا جاتا تھا۔ وہ باکس آخر تک ہمارے گھر میں پڑا رہا۔ اُس میں بوتلیں رکھنے کے لیے 12 چھوٹے چھوٹے مربع قسم کے خانے بنائے گئے تھے، یعنی باکس میں بہ یک وقت 12 بوتلیں رکھی جاسکتی تھیں۔ مذکورہ باکس کی خاصیت یہ تھی کہ اس کے ہر خانے میں ’سپرنگ‘ (Spring) لگی ہوتی تھی، جو ایک طرح سے بوتل کے لیے ’شاک ابزار بر‘ (Shock Absorber)کا کام دیتی تھی۔‘‘
شوکت نگار لہک لہک کر بولے جارہے تھے اور اُن کی باقاعدہ اجازت کے بعد میرے موبائل فون کا ریکارڈر اُس کی آواز ریکارڈ کیے جا رہا تھا۔ ’’باچا صاحب کو جو بوتل پسند تھی، اُسے ’میٹھا لیمن‘ کہا جاتا تھا۔‘‘
میٹھے لیمن کی پسندیدگی پر مہرِ تصدیق ثبت کرتے ہوئے شوکت نگار کا کہنا تھا: ’’باچا صاحب ماہِ رمضان کے دوران میں روزہ میٹھے لیمن سے کھولنے کو ترجیح دیتے تھے۔ اس طرح والئی سوات عام روٹین میں ڈکار والی بوتل پینا پسند کرتے تھے۔‘‘
شوکت نگار کا دعوا ہے کہ ’’نگار سوڈا واٹر‘‘ سوات میں ٹھنڈی بوتلوں کی ’’بانی فرم‘‘ (Founder Firm)تھی، جس کی بنیاد 1935ء تا37ء کے درمیان رکھی گئی تھی۔ ’’1990ء تک ’نگار سوڈا واٹر‘ کا بول بالا رہا۔‘‘
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ریاستی دور میں اتنے مشہور مشروبات کے اجزائے ترکیبی کہاں سے حاصل کیے جاتے تھے؟ اس حوالے سے شوکت نگار کہتے ہیں: ’’میرے دادا ’حاجی بنجاری‘ تقسیمِ ہند سے پہلے ٹھنڈی بوتلوں کا کیمیکل، ایسنس (Essence) اور فلیورز بمبئی سے لایا کرتے تھے۔ مذکورہ فلیورز میں مالٹا، لیمن اور سوڈا شامل تھے۔ اس کے علاوہ دودھ کی ٹھنڈی بوتلیں بھی نگار سوڈا واٹر ہی کی پسند کی جاتی تھیں۔‘‘
سوڈا واٹر کی دکانوں کے حوالے سے مجھے صرف تاج چوک کی فقیر محمد والی دکان یاد ہے، البتہ شوکت نگار کہتے ہیں کہ نگار سوڈا واٹر کے قیام کے کئی سالوں بعد نشاط چوک میں ’’ہمدرد سوڈا واٹر‘‘ کے نام سے ایک اور دکان کھل گئی تھی، جو نشاط کیفی سے ملحق تھی۔ جب کہ فقیر محمد کی تاج چوک والی سوڈواٹر کی دکان ہمدرد سوڈا واٹر سے بعد کی بات ہے۔
شوکت نگار یہ بھی کہتے ہیں کہ ریاستی دور میں ’’نگار سوڈا واٹر‘‘ کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ اُس وقت ’’سوات ہوٹل‘‘ (سوات سرینا) سے بھی بوتلوں کا آرڈر ملا کرتا تھا۔
ہم کہتے ہیں کہ جو آدمی مٹہ گیا اور وہاں کی لسی سے لطف نہیں اُٹھایا، وہ مٹہ نہیں گیا۔ اس طرح جو بحرین گیا اور وہاں کا چپلی کباب نہیں کھایا، تو وہ بحرین نہیں گیا۔ ٹھیک اسی طرح شوکت نگار کہتے ہیں کہ اکثر نیکپی خیل سے آیا ہوا مہمان جب سردیوں کے موسم میں مرجو کباب خانے کا کباب کھا نہ لیتا اور گرمیوں میں ’’نگار سوڈا واٹر‘‘ کی ٹھنڈی بوتل حلق سے اُتار نہ لیتا، تو اُس کا مینگورہ کا سفر ادھورا تصور کیا جاتا۔
حاجی اکبر جان (مرحوم) المعروف نگار حاجی صاحب کی اولاد میں چھے صاحب زادے مختیار نگار، نعمت نگار، شوکت نگار، ماجد نگار، سجاد نگار اور شمشیر نگار جب کہ پانچ صاحب زادیاں شامل ہیں۔
میری معلومات کے مطابق سوات سنیما میں ’’نگار سوڈا واٹر‘‘ کا اپنا ایک الگ سٹال ہوا کرتا تھا۔ وہاں کا مٹن بار بی کیو (جسے ہم پشتو میں سِخان بولتے ہیں) اور ’’ڈکار والی بوتل‘‘ خاصے کی چیزیں تھیں۔ جلیل مانک پوری کے بہ قول
درد سے واقف نہ تھے، غم سے شناسائی نہ تھی
ہائے کیا دن تھے طبیعت جب کہیں آئی نہ تھی
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
