(نوٹ:۔ یہ تحریر محترم فضل رازق شہابؔ کی انگریزی یادداشتوں میں سے ایک کا ترجمہ ہے، مدیر لفظونہ ڈاٹ کام)
اُن افسران اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے سپاہیوں کو، جنھوں نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اپنی جانیں قربان کیں، ہر ممکن طریقے سے عزت دی جاتی ہے۔ ان کے خاندانوں کو شہدا پیکیجز دیے جاتے ہیں۔ کچھ صورتوں میں، ان کی خدمات کو جاری رکھا جاتا ہے اور ان کے ساتھ ایسے برتاو کیا جاتا ہے، جیسے وہ زندہ ہوں، یعنی ان کی ترقی اور تنخواہوں میں اضافہ ریٹائرمنٹ تک جاری رکھا جاتا ہے۔ انھیں سرکاری رہایش گاہوں میں رہنے کی اجازت دی جاتی ہے۔ شہیدوں کے بچے اچھے اداروں میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ ان شہیدوں کے خاندانوں کو محکمے کے سٹاف کی گاڑیاں فراہم کی جاتی ہیں۔ مختصراً، ان کے خاندانوں کو تمام سہولیات حاصل ہیں، سوائے اپنے پیاروں کے۔
سوات کے ریاستی حکام نے بھی اپنے ان افسران اور سپاہیوں کے لیے یہی کچھ کیا، جو 1948ء کی کشمیر جنگ میں اپنی جانیں قربان کرگئے۔ آج جو کچھ ہم پاکستان میں دیکھتے ہیں، وہ 73 سال پہلے ریاست کی جانب سے کیے گئے اقدامات کی بہ دولت ہے۔ اس جنگِ آزادی میں ریاستِ سوات کے تقریباً 70 سپاہی اور افسر شہید ہوئے۔ ریاستی حکومت نے ان کے خاندانوں کو وہی مالی مدد فراہم کی، جیسی وہ اپنے حیات میں وصول کر رہے تھے۔ مَیں کچھ مثالیں پیش کر رہا ہوں جن کا مَیں ذاتی طور پرشاہد ہوں۔
میرے ایک کلاس فیلو تھے شگئی سکول، سیدو شریف میں۔ اُن کا نام محمد شمعون تھا۔ ان کے والد، عبداللطیف، ریاستی ملیشیا میں سپاہی تھے۔ انھوں نے کشمیر کی جنگ 1948ء میں شہادت پائی۔ شمعون اُس وقت بہت چھوٹے تھے اور سکول جانا شروع نہیں کیا تھا۔ لہٰذا عبد اللطیف کی بیوہ کو سال میں دو بار اپنے شوہر کی ’’برات‘‘، گندم، مکئی اور چاول کی شکل میں باقاعدگی سے ادا کی گئی۔ محمد شمعون نے 1958ء میں میٹرک پاس کیا اور سیدو شریف میں لیبارٹری ہیلپر کی نوکری حاصل کی۔ مناسب تربیت حاصل کرنے کے بعد، وہ لیبارٹری ٹیکنیشن کے طور پر ترقی پاگئے۔ وہ بہت ذہین تھے اور سیدو شریف بازار میں ایک فرسٹ ایڈ میڈیکل/ ٹیکنیکل کلینک چلاتے تھے۔ وہ آج بھی اپنے کلینک میں مصروف ہیں اور باعزت زندگی گزار رہے ہیں۔
ایک اور مثال ایک سپاہی کی ہے، جس کا نام مجھے اس وقت یاد نہیں آ رہا، جو کشمیر میں شہید ہوا۔ اُس کے تین بیٹے تھے۔ انھیں بھی مسلسل اپنے والد کی تنخواہ دی جاتی رہی۔ ان میں سے دو، یعنی جعفر صادق اور محمد صادق، اعلا تعلیم حاصل کرنے میں کامیاب رہے اور مختلف عہدوں پر تعلیم کے شعبے میں خدمات انجام دیں۔ انھوں نے ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسرز اور پرنسپلز کے عہدوں تک پہنچ کر باعزت ریٹائرمنٹ حاصل کی۔ وہ غالیگی گاؤں، تحصیل باریکوٹ کے رہایشی ہیں۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
