نو عمری میں وہ جاڑے کی لمبی راتوں کو جاگ کے گزارتا تھا۔ لمبی راتیں گزرنے کا نام ہی نہیں لیتی تھیں۔ سب سو جاتے مگر وہ جاگتا رہتا۔ رات کے تاریک لمحات کے ساتھ تنِ تنہا الجھنا اس کا معمول بن گیا تھا۔ گھڑی کی سوئی دس کے ہندسے کو جونہی عبور کرتی، وہ سوچوں کے سمندر میں ماہر غوطہ خور کی طرح بے خوف چھلانگ لگا دیتا۔ چند ہی لمحات میں وہ ایک تخیلاتی دنیا کی تہہ تک پہنچ جاتا۔ اس دنیا میں اسے اپنا ایک منفرد مستقبل نظر آتا، جس کی وجہ سے وہ دیر تک وہاں قیام کرتا۔ ابتدائی چار پانچ سردیاں ایسے ہی گزریں۔ اسے دیر تک جاگتے رہنے کی عادت پڑ گئی تھی۔ تخیل کی وہ دنیا اسے پسند آنے لگی۔ سوچیں بھی اسے چاروں طرف سے لہروں کی مانند گھیر لیتیں۔ آخرِکار وہ ڈوب جاتا۔ سوچوں کا صحرا ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتا تھا۔ جتنا کٹتا، اتنا ہی طویل ہوجاتا۔ اسے بیشتر اوقات مجبوراً واپس آنا پڑتا اور متعدد دفعہ اسی کشمکش میں آنکھ لگ جاتی۔ یوں ہی ایک رات جاگتے جاگتے اسے خیال آیا کہ اس دنیا سے ذرا باہر نکلنا چاہیے۔ چنانچہ اس نے فیصلہ کیا کہ اب سے کسی دوسری دنیا کا انتخاب کیا جائے۔ یوں اس کی نظر قدرت اللہ شہاب کی کتاب ’’شہاب نامہ‘‘ پر پڑی اور نیا سفر شروع ہوا۔ بس پھر کئی راتیں کتاب نگری میں گزر گئیں۔ کبھی ممتاز مفتی کے شاہکار ناول ’’علی پور کا ایلی‘‘ کا ’’ایلی‘‘ بن کے رات گزرتی اور کبھی اشفاق احمد کا ’’بابا‘‘ بن کر۔ کبھی بانو آپا کا کوئی کردار اوڑھ لیتا، تو کبھی مستنصر حسین تارڑ کی سفری اٹھکیلیوں سے لطف اٹھاتا۔ کچھ سردیاں کرنل شفیق الرحمان اور نسیم حجازی کے ساتھ بھی گزریں۔ سردی کا ایک پورا موسم واصف علی واصف کی شہرۂ آفاق داستانوں میں گزرا۔ اب اسے کتاب سے باقاعدہ محبت ہوچکی تھی۔ سیاہی سے کھینچی گئی آڑھی ترچھی لکیروں میں وہ آباد ہوتا چلا گیا۔ صفحات سے آنے والی خوشبو اور بھی خوشگوار محسوس ہونے لگی۔
اسے ایک مکمل دنیا کا ادراک ہو گیا تھا۔ یہاں کی دنیا تخیلاتی دنیا سے بالکل مختلف مگر خوبصورت تھی۔ کہانی کو پڑھنا اور پھر دیر تلک اس کے بارے میں سوچنا اس کا پسندیدہ مشغلہ بن گیا۔ کردار کو پڑھتے پڑھتے وہ کردار ہی بن جاتا۔ کرداروں سے باہر نکلنے میں اسے مہینے لگ جاتے ۔ یوں اسے روز رات کا اندھیرا چھانے کا انتظار رہتا۔ رات ہوتے ہی کتاب کھل جاتی اور کتاب کا ایک ایک لفظ اس کی انگلیوں کے پوروں سے ہوتا ہوا ہونٹوں اور زبان کے ذریعے اس کے حلق سے اتر جاتا اور اس کے چودہ طبق روشن ہوجاتے۔ یہ سلسلہ چلتا گیا۔ اسی دوران میں اسے اضافی مزدوری (پارٹ ٹائم) نوکری ملی۔ شام آٹھ سے رات دو تک۔ رات دیر گئے گھر آکر وہ اپنی مشق میں دوبارہ مگن ہوجاتا۔ کتاب بینی اس کی تنہائی کی ساتھی بن چکی تھی۔ اسے کتاب کے علاوہ کسی اور کی ضرورت نہیں پڑتی تھی۔ کتاب اس کا دوست بن چکی تھی۔قریباً دوسال کا عرصہ یوں گزرا۔دن میں وہ رزق کی تلاش میں نکلتا۔ پھر ایک روز اسے دن کے وقت میں بھی نوکری مل گئی۔ اس طرح دن رات مصروف رہنا اس کی مجبوری بن گئی۔ اب رات کو گھر آتے ہی وہ بستر پر گر جاتا۔ پلک جھپکتے ہی صبح اس کی منتظر ہوتی۔ وہ تھکن کے باعث باقی معاملات سے دور ہوتا چلا گیا۔ اب وہ روز ارادہ کرتا کہ شام کو گر جاکر پھر سے اسی دنیا میں جائے گا لیکن دن بھر کی تھکن اور معاشی ضروریات اسے ایک اور ہی دنیا کی طرف لے جاتیں۔
اب وہ فرصت کے دنوں کا منتظر رہ کر اپنے سفر کو پھر سے شروع کرنے کا خواہش مند ہے۔ وہ دنیا بھی شاید اس کی منتظر ہوگی۔