انسان جب سمندر کے کنارے کھڑا ہو، تو اُس کے سامنے ایک عجیب اور پُر ہیبت و پُر رعب منظر ہوتا ہے۔ پانی کا ایک بے کنار و عمیق نظارہ، اُسے تا حد نگاہ تک پانی ہی پانی نظر آتا ہے اور کبھی کبھار تو انسان اس کی گہرائی کا اندازہ کرکے ورطۂ حیرت میں ڈوب جاتا ہے۔ کتنے لوگ، کتنی بستیاں، کتنے شہر، کتنے جہاز اس کی اتھاہ گہرائی میں اس طرح سما گئے جیسے وہ تھے ہی نہیں۔ مگر انسان بھی تو ہمیشہ اپنے تجسس کے ہاتھوں مجبور ہے۔ کیوں؟ کیسے؟ اور کب سے؟ ان سب سوالیہ نشانوں کے جوابات ڈھونڈنے کے لیے سمندر بھی اُس کی جولاں گاہوں کا مرکز ہے۔
مجھے یاد ہے ایک بار ایک سائنسی گروپ کے ارکان اپنی چھوٹی سی لانچ میں سب آلاتِ سائنس کے ساتھ سمندر میں جال رسیاں ڈالے ایک بڑی مچھلی پکڑتے ہوئے ٹی وی پر نظر آئے۔ مچھلی کافی بڑی تھی، جب بڑی مشکل سے قابو میں آئی، تو چند افراد نے اُسے پکڑ کر لانچ میں کھینچا اور پھر اُسے ایک انجکشن لگا کر جلدی سے بے ہوش کرتے ہی ایک واٹر پروف کیمرہ اُس کی پشت سے منسلک کردیا۔ یہ کام کیمرے کے ساتھ لگے آہنی تیز نوکیلے کنڈے (ہُک) کے ذریعے انجام دیا۔ پھر مچھلی کو چند لمحوں بعد پانی میں چھوڑ دیا۔ مچھلی تھوڑی دیر بعد ہوش میں آکر غائب ہوگئی اور پھر لانچ سے ایک چھوٹا سا آلہ پانی میں ڈال دیا گیا جس کا ریڈیو کی طرح چھوٹا سا انٹینا پانی کی سطح پر نظر آتا رہا۔ اور سب لانچ پر ایک ’’مانیٹر‘‘ پر نظریں دواڑنے لگے۔ تھوڑی دیر بعد اسکرین شفاف ہوئی اور سب خوشی سے اُچھل پڑے۔ اسکرین پر سمندر کا اندرونی منظر دُھندلا سا نظر آنے لگا۔ مچھلی کے سر کا اوپری منظر اور سمندر میں آبی حیات کا ایک سلسلہ ہمارے سامنے اسکرین پر جلوہ گر تھا۔
مچھلی بلکہ ’’مچھلا‘‘ جہاں بھی جاتا اُس کے سر پر نصب کیمرہ اُسے باہر اسکرین پرمنتقل کر رہا تھا۔ کبھی جب پانی میں ’’مچھلے صاحب‘‘ گہرائی میں چلے جاتے، تو منظر دُھندلا اور نیم تاریک سا ہوجاتا اور جب اُجلے پانی میں چہل قدمی کرتے ہوئے چلتے، تو روشن ہوجاتا۔ ایک موقع پر تو ’’مچھلے صاحب‘‘ کی آنکھ سے ہم نے عجیب انداز کے مہیب غار بھی دیکھے جیسے ہی ’’مچھلا‘‘ اُن میں داخل ہوا، تو منظر دُھندلا گیا۔ عجیب سی دیواریں تھیں۔ مَیں سوچنے لگا کہ ان کائی زدہ، کھردری دیواروں کو شاید ہزاروں سال بعد کسی انسانی آنکھ نے دیکھا ہوگا اور ان غاروں نے ان دیدہ وروں کا انتظار صدیوں بلکہ قرنوں سے کیا ہوگا۔ پھر کیمرہ آگے بڑھتا گیا۔ ہمارے تجسس اور اشتیاق پر اُس وقت اوس پڑگئی جب اچانک غار کی تاریک چادر نے کیمرے کو نگل لیا۔ میں سوچنے لگا شاید یہی اس کا آشیانہ ہوگا۔
قارئین کرام! سمندر کی دنیا بھی ایک عجیب دنیا ہے۔ زمین کے خشک حصے سے تین گنا بڑا عظیم سمندر، اچانک میرے ذہن کی تاریک غاروں میں روشنی کا ایک جھماکا سا ہوا۔ عظیم سمندر کے عظیم تر خالق کے الفاظ میرے سامنے جھلمانے لگے۔ ’’قسم ہے موج زن سمندر کی کہ تیرے رب کا عذاب ضرور واقع ہونے والا ہے۔‘‘ مگر کن لوگوں کے لیے جو اللہ کے منکر ہیں؟
مجھے ایسے محسوس ہوا جیسے سمندر مجھ سے پکار پکار کر کہہ رہا ہو: ’’میں کسی اتفاقی حادثے کا نتیجہ نہیں ہوں۔ مجھ میں بے حد و حساب حیوانات پیدا کیے گئے ہیں۔ میرے پانی کو نمکین بنا دیا گیا ہے تاکہ جو حیوانات مریں اُن کی لاشیں سڑ نہ جائیں۔ میرے پانی کو اُس خالق عظیم نے ایک خاص حد تک اس طرح روک رکھا ہے کہ نہ تو اس کے شگافوں سے گزر کر اس کے پیٹ تک اُتر سکتا ہے۔ اور نہ خشکی پر چڑھ کر اُسے غرق کر دیتا ہے، مگر کبھی انسانوں کو اُس کے گناہوں پر سرزنش کرنے کے لیے مجھے سونامی بنا کر آبادی پر چڑھا دیتا ہے۔ مگر وہ رحیم ذات ایسا مسلسل نہیں کرتی بلکہ مجھے اُس کی ہدایت پر اپنی حدوں میں رہنا پڑتا ہے۔‘‘
قارئین کرام! ذرا سوچیے جو قادرِ مطلق اس ذخیرۂ آب میں بڑے بڑے جہازوں کو چلا رہا ہے۔ اس کے ذریعے بارشیں برسا رہا ہے، اس میں ہماری خوراک پیدا کر رہا ہے، کیا وہ ہم سے یہ نہیں پوچھے گا کہ تو نے میرا حق کیسے ادا کیا؟ جس نے اتنا بڑا سمندر تخلیق کیا۔ کیا وہ ہمیں دوبارہ زندہ نہیں کرسکتا……؟
ذرا سوچیے!
…………………………………………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔