جب زندگی گلزار ہو اور یار دوستوں کے نرغے میں خراماں خراماں گزر رہی ہو۔ صحت کاملہ کے معاملہ میں مرزا اسد اللہ خان غالبؔ والی تندرستی ہو اورموج مستی کے لئے جیب میں تھوڑی بہت ریزگاری ہو، تو نیلی چھتری والے کے ساتھ ہمارا سرو کار اتنا سرسری سا رِہ جاتا ہے کہ ’’دن دہاڑے نمازِ فجر دوڑاتے ہوئے‘‘ بھی یوں محسوس ہوتا ہے، گویا اُس پر کوئی بڑا احسان جتا رہے ہوں۔ نماز کے بعد دُعا پڑھنے کو کبھی دل بھی کرے، تو ہاتھ اُٹھائے بغیر ڈاکٹر اسرار صاحب کے یہ اشعار اوپر’’کانوے‘‘ کرتے ہیں:
خولہ می سوال تہ نہ جوڑیگی لویہ خدایہ
سہ چہ خہ وی تہ ئی ما لہ بے دُعا را
تہ زما دہ مجبورو نہ خہ خبر ئی
زہ بہ سہ ویمہ چہ دا را کہ او دا را
یعنی اے خدائے بزرگ و برتر، تیرے در سے کچھ مانگنا میرے لئے ایسا ہے جیسے یہ مُنھ اور مسور کی دال۔ تو میرے حق میں جو بھی بہتر سمجھے، مجھے دے۔ تو میری مجبوریوں سے بخوبی آگاہ ہے۔ میں کیا کہوں گا کہ یہ دے یا وہ دے!)
کسی پریشانی، ڈریا خوف کی صورت میں ہم فوری طور پر خداکے حضور میں ’’پاک دامن مرد‘‘ ہونے کا ’’لُک‘‘ دینے کے واسطے حسبِ ضرورت بھیس بھی بدل لیتے ہیں۔
آمدم برسرمطلب، ہم درجن بھر دوست جا رہے ہیں ایک دنیاوی جنت کی طرف، لیکن وہاں تک پہنچنے کے لئے جو سفر درپیش ہے، وہ بڑا لمبا اور کٹھن ہے۔ کچھ خطروں سے پُر بھی ہے۔ جگہ جگہ زندگی اور موت کی آپس میں آنکھ مچولی ہوتی ہے۔ آسمان کو چھوتی پہاڑیوں اور سنگلاخ چٹانوں کی چوٹیوں پر سڑک کے نام پر بنی پُرپیچ پگڈنڈیوں پر چلنا پڑتا ہے۔ جہاں پہاڑ نظر آئے تو لازم ہے کہ نیچے اباسین کا گہرا پانی نظر آئے گا۔ ٹائر تھوڑا سا سڑک سے سرک گیا اور پوری گاڑی کو اباسین نے ہڑپ لیا۔ اسی سفر میں ہم نے پندرہ ہزار چار سو فٹ اونچائی پر واقع ’’دنیا کی چھت‘‘ پر چڑھنا ہے اور قدرت کے اس خوبصورت خطے کا بھرپور نظارہ کرنا ہے، جس کو ’’کائنات کا خلاصہ‘‘ کہا جاسکتا ہے۔ سو آج سفر کی شروعات سے پہلے بڑے عجز و انکسار کے ساتھ، روٹین کی ریگولر نماز کے بعد دو رکعت نفلی نماز کی ادائیگی کر رہے ہیں۔ بدلے میں فوری دُعا کی شروعات کرتے ہیں۔ ہاتھوں کا کچکول بنا کر بڑے فقیرانہ نظم وضبط کے ساتھ اوپر اُٹھاتے ہیں: ’’یا اللہ، ہمیں اُس حسین منزل تک بخیر پہنچا اور ارادہ ہوا، تو واپس بھی بخیر و عافیت پہنچا۔ اے اللہ، تو ہمارے سفر کو آسان بنا۔ ہمارے لئے دوری کو کم کر۔ تو اس سفر میں ہمارا رفیق ہے اور تو ہمارے گھر والوں کا نگہبان ہے۔‘‘ دُعا کے بعد دل کی گہرائیوں سے درود شریف پڑھتے ہیں، خود پر پھونکتے ہیں۔ گاڑی میں بیٹھتے ہیں، تو اپنی گناہوں کی معافی مانگتے ہیں۔ کیوں کہ بچپنے میں شہر جاتے ہوئے ہم نے اپنے گاؤں کی ایک’’چکڑا لاری‘‘ میں پہلا قدم رکھتے وقت جو پند و نصیحت گیٹ کے سامنے والی کھڑکی کے اوپر لکھی ہوئی دیکھی تھی، اس کو بار بار پڑھنے سے پکا یاد کیا تھا۔ وہ کچھ یوں تھا کہ’’گاڑی میں بیٹھنے سے پہلے اپنی گناہوں کی معافی مانگو، شائد یہ تیری زندگی کا آخری سفر ہو۔‘‘

جگہ جگہ زندگی اور موت کی آپس میں آنکھ مچولی ہوتی ہے۔ آسمان کو چھوتی پہاڑیوں اور سنگلاخ چٹانوں کی چوٹیوں پر سڑک کے نام پر بنی پُرپیچ پگڈنڈیوں پر چلنا پڑتا ہے۔ جہاں پہاڑ نظر آئے تو لازم ہے کہ نیچے اباسین کا گہرا پانی نظر آئے گا۔ ٹائر تھوڑا سا سڑک سے سرک گیا اور پوری گاڑی کو اباسین نے ہڑپ لیا۔

ہزاروں میل پر محیط سفر کا آغاز پہلے قدم سے ہوتا ہے۔ سو باتوں کے بجائے عملی قدم اُٹھاتے ہیں ۔ لو جی، قضا و قدر کے کان بہرے اور آنکھیں ہوں، تو وہ بھی اندھی ہوں، فرشتۂ اجل کا سرچ انجن انجان ہو، اباسین کی لہریں لاغر ہوں، شاہراہِ ریشم کی تنگ دامنی وسیع و عریض ہو، دَم شووف اور چل سو چل۔
بڑی عید کا پہلا دن ہے۔ تاریخ دو ستمبر دو ہزار سترہ اور ہفتہ کا دن ہے۔ تین گاڑیاں بشمول دو کاروں اور ایک چاق و چوبند پک اَپ کے لگ بھگ چوبیس سو کلومیٹر ز طویل فاصلہ نو راتوں اور دس دِن میں طے کرنا ہے۔ موبائل فون سکرینز کے علاوہ ایک بڑا کیمرہ اور ماہر فوٹو گرافر ہر وقت سلفیز،نظاروں کی عکس بندی اور ویڈیوز بنانے کے لئے ’’رَڈی‘‘ ہیں۔ کانوں کی غذا یعنی آ لاتِ ساز و سوز، ہر قسم باجہ و طبلہ وغیرہ مع ماہرین سرسنگیت معیت میں ہیں۔ یاد رہے کہ موسیقی روح کی غذا ہو نہ ہو، کانوں کی غذا تو ضرور ہے۔ آئس باکسز میں قرینے سے رکھا سُنتِ ابراہیمی کا گوشت، کھانا پکانے کے برتنوں اور گیس سلنڈر سے لے کر ٹینٹ، کمبل اور ادویات از قسم ایلوپیتھک تا ہومیوپیتھک۔ گھروں سے بھگوڑے دس بندے اور ایک ہم بہ رضا و رغبت آباد گھروں سے عارضی نقلِ مکانی کرنے والوں کا یہ قافلہ مینگورہ، کبل، بری کوٹ اور تھانہ سے چھوٹے قافلوں کی شکل میں نکل کر وادئی شانگلہ کے مرکزی گاؤں لیلونئی پہنچتا ہے اور افتخار خان کے ڈیرے پرخلوص و محبت سے بھر پور مہمان نوازی، انواع و اقسام کے علاقائی کھانے، جیسے لیلونئی کا ذائقہ دار جنگلی ساگ، دہی کی کڑھی، دیسی مرغ اور رات بھرگپ شپ کا بھرپور لطف اُٹھاتے ہوئے اگلے دن صبح سویرے سات بجے وہیں سے برآمد ہو کر الپوری بشام روڈ پر شمال کی جانب چل پڑتا ہے۔اللہ اللہ خیر سلا ۔
گزر رہا ہے، توآنکھیں چرا کے یوں نہ گزر
غلط بیا ں بھی بہت رہ گزر میں ہوتے ہیں
طلسمِ خوابِ زلیخا و دامِ بردہ فروش
ہزار طرح کے قصے سفر میں ہوتے ہیں
الپورئی شہرمیں پیٹرول بھرتے وقت ہم نے’’تیسری آنکھ‘‘ سے تمام ساتھیوں کے حُلیوں، عمروں، آپس میں مماثلتوں اور مشابہتوں پر طائرانہ نظر دوڑائی، تاکہ کسی کے حق میں کوئی کلمۂ خیر تو لکھیں، اگر نصیب میں ہو۔ کیا دیکھتا ہوں کہ سب کا سیاسی، سماجی، علمی، معاشی اور معاشرتی پس منظر اتنا متنوع اور منقسم ہے جو ہر معاملے میں ہر ممکن حد تک مختلف سوچ اور اپروچ اور فکر و خیال رکھتا ہے اور بعض تو منھ میں گزبھر لمبی زبان رکھتے ہیں۔ ان بارے بات کرتے ہوئے بھی بڑا دِل گُردہ چاہئے کہ کس بارے کیسی بات کی جائے؟

الپورئی شہرمیں پیٹرول بھرتے وقت ہم نے’’تیسری آنکھ‘‘ سے تمام ساتھیوں کے حُلیوں، عمروں، آپس میں مماثلتوں اور مشابہتوں پر طائرانہ نظر دوڑائی، تاکہ کسی کے حق میں کوئی کلمۂ خیر تو لکھیں

تاہم جو بھی ہو وقتاً فوقتاً ہر بندے کی بات تو ہوگی اور ڈنکے کی چوٹ پر ہوگی۔ (جاری ہے)